پاکستان میں تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بارے میں امریکی میڈیا پر تبصرے جاری ہیں۔امریکہ کے نزدیک انہوں نے ایک خطرناک ٹارگٹ کو ہلاک کرکے امریکہ کو محفوظ کیا ہے ۔امریکی مبصرین کے مطابق جب تک پاکستان اپنی سر زمین پر دہشت گردی کے اڈوں کی اجازت دیتا رہے گا ،اس صورت میں جنگی قواعد کے تحت امریکہ کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے ڈرون طیاروں کے استعمال کا حق حاصل ہے۔وال سٹریٹ جرنل لکھتا ہے کہ یکم مئی 2010 میںنیویارک شہر کے ٹائم سکوائر کو ایک کار بم کے ذریعے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی ،اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو سینکڑوں بے گناہ شہری مارے جاتے ۔اس منصوبے کا مجرم فیصل شہزاد حکیم اللہ محسود کا تربیت یافتہ تھا جس کو اس مشن پر بھیجا گیا تھا۔اخبار لکھتا ہے حکیم اللہ محسودکی ہلاکت سے مذاکرات متاثر ہونے کا شبہ درست نہیں۔ جب تک طالبان اس گمان میں رہیں گے کہ وہ جیت رہے ہیں،انہیں مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی ۔امریکی اخبار لکھتا ہے کہ محسود کی ہلاکت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر آپ کسی امریکی کو ہلاک کرتے ہیں تو پھر وقت آنے پر کوئی نہ کوئی میزائل آپ کا بھی پیچھا کرے گا۔نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ڈرون حملے نے حکیم اللہ محسود کو ولن سے ہیرو بنا دیاہے۔پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن نے حکیم اللہ محسودکی ہلاکت پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے اورامریکہ کو طالبان سے مذاکرات کو سبوتاژکرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔امریکی سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس رد عمل کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک بار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
طالبان کے بارے میں امریکہ کا نظریہ بڑاواضح ہے کہ امریکہ اپنے دشمنوں کو معاف نہیں کیا کرتا،امریکہ کے دشمنوں کو پناہ دینے والے ممالک امریکہ سے دشمنی مول لیتے ہیں۔پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ جنت ہے،اگر پاکستان کی حکومت ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گی تو ہم اپنی جنگ تنہا لڑیں گے اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کوئی ہمارے خلاف کاروائی کرنے کی کوشش کرے گا تو ہم اس سے بھی نبٹ لیں گے۔پاکستان اپنی سلامتی چاہتا ہے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دے ورنہ ۔۔۔امریکہ کو اپنی ” ورنہ“ کی وضاحت کی ضرورت نہیں البتہ پاکستان کو اپنی پالیسی وضح کرنے کی ضرورت ہے۔امریکہ جو کر رہاہے اور جو کر سکتا ہے ، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر پاکستان کیا کر رہاہے اور کیا کرنا چاہتا ہے ،اس کا خود حکومت پاکستان کو بھی علم نہیں۔امریکہ کے امن و سلامتی کی بات آتی ہے وہاں کی اپوزیشن اور حکومت ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے ہیں مگر پاکستان بارہ برسوں میں بھی امن و سلامتی کا حقیقی مفہوم تلاش نہیں کر سکا۔کبھی وار آن ٹیرر کو امن کی ضمانت سمجھتاہے اور کبھی طالبان سے مذاکرات کو امن کا واحد راستہ سمجھتا ہے ۔پاکستان کے لوگ ابھی تک ”شہید یا ہلاک“ کی بحث سے نہیں نکل پائے اورنہ ہی انہیں کوئی آگے سوچنے دینا چاہتا ہے ۔حکومت پاکستان سب سے پہلے یہ فیصلہ کرے کہ طالبان ملک کے دوست ہیں یا دشمن؟ اگر طالبان پاکستان کے دوست ہیں تو پھر دوستوں کو مارنے کا اختیار پاک فوج کو کس نے دیا ہے؟اگر طالبان دشمن ہیں تو پھر امریکہ اور پاکستان کا دشمن ایک ہوا ،پھر ڈرون حملوں کی مخالفت کا کیا جواز بنتا ہے؟سب سے پہلے دوست اور دشمن میں تفریق واضح کی جائے۔طالبان اگر مسلمان ہیں تو ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کا ناحق قتل کا مجاز کیوں کر ہو سکتا ہے ؟
امریکی حملوں کے رد عمل میں طالبان بھی پاکستانیوں کو ہی مار تے ہیں۔ طالبان اور امریکی ڈرون دونوں بے گناہ پاکستانیوں کی جانیں لے رہے ہیں۔غیر مسلموں کے لہو سے ہاتھ رنگنے کی بات نہیں ہو رہی کہ وہ تو ٹھہرے ”کافر“ یہاں ان مسلمانوں کی موت کی بات ہو رہی ہے جو کلمہ گو ہیں، بے قصور ہیں، مگر طالبان کی ضد اور انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔مزید ظلم یہ کہ جب یہ طالبان خود مارے جاتے ہیں تو انہیں” شہید “قرار دے دیا جاتا ہے۔نفرت کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔امریکہ سے نفرت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہلاکت کو شہادت قرار دے دیا جائے۔ پاکستانی قوم کو کنفیوز کیا جاتا ہے۔پاکستانی طالبان اگر پاکستان کے ہمدرد ہوتے تو بے گناہ پاکستانیوں کے لہو سے ہاتھ کیوں رنگتے۔منور حسن صاحب کا اپنا لخت جگر یا خاندان کسی پاکستانی طالبان کی نفرت کا نشانہ بنا ہوتا تو کیا پھر بھی طالبان ”شہید“ کہلاتے؟اس منطق کو امریکہ سے دشمنی سمجھا جائے یا پاک فوج کی شہادتوں کا مذاق؟الا ماشا ءاللہ سیاسی جماعتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا سو کیا،ان نام نہاد مذہبی جماعتوں نے بھی اس ملک کا ستیا ناس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔طالبان سے مذاکرات کی ”اتمام حجت“ حکومت کی مجبوری ہے ورنہ یہ جماعتیں دھرنے اور دھاڑنے میں سب سے آگے ہوں گی۔اللہ تعالیٰ اس قوم کو ہدایت دے جس پر امریکہ سے نفرت کا بھوت سوار ہے اور ہر اس جماعت کے پیچھے چل دیتے ہیں جو امریکہ کے خلاف جوشیلے اور جذباتی خطاب فرمائے۔پاکستانی حکومتیں امریکہ سے مطالبات منوانے کی حیثیت میں نہیں کہ واشنگٹن میں سب کے ریکارڈ محفوظ ہیں۔طالبان کے خلاف جنگ اور ڈرون حملوں کے بارے میں امریکہ کا موقف بڑا واضح ہے البتہ پاکستان کو تذبذب اور گومگو کی حالت سے نجات پانے میں دقت پیش آرہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024