میں سینٹ کے حوالے سے ایک اور کالم لکھنا چاہتا ہوں اور کچھ دوستوں کی طرف سے محفل آرائی کی بات۔ مگر میں اس وقت جاگ رہا تھا جب صدارتی آرڈیننس آیا کہ فاٹا والے ممبر اسمبلی چار ووٹ نہیں دے سکتے۔ ون مین ون ووٹ۔ رات اپنا راز جاگنے والوں کو دیتی ہے۔ میں جاگتا رہتا ہوں کہ جاگنا ہی جیون ہے۔ کہتے ہیں سویا ہوا اور مرا ہوا ایک برابر ہیں۔ موت اور نیند دونوں بہنیں ہیں۔ نیند ایک چھوٹی موت اور موت ایک بڑی نیند ہے۔ مگر پچھلے کالم کے لئے برادرم کالم نگار اور روحانی شخصیت یاسین وٹو کا فون آیا۔ انہوں نے کالم کے لئے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ میں نے مہاتما بدھ کے حوالے سے یہ جملہ لکھا کہ میں صرف اپنی Awareness (آگہی) ہوں۔ وٹو صاحب نے کہا کہ حضرت مولانا علیؑ نے فرمایا جس نے اپنے ہونے کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ میں حیران رہ گیا اور سوچا کہ یہ بات پہلے میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی۔ اپنے ہونے کے احساس سے اپنے رب تک رسائی زیادہ بڑی بہت بڑی بات ہے۔
میں دوپہر کا کھانا نہیں کھاتا جسے لنچ کہتے ہیں۔ البتہ مجھے محترم ایس ایم ظفر کا برنچ بہت یاد آتا ہے۔ بریک فاسٹ (ناشتہ) اور لنچ ملا لیا جائے تو اسے برنچ کہتے ہیں۔ میرے صحافی بھائی مزمل سہرودی نے لنچ کے لئے بلایا وہاں ایم ڈی پی ٹی وی اینکر مین عبدالمالک بھی تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ میں نے ادارے کو ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ ان کے لہجے میں ناکامی تھی۔ پہلے ایک اینکرمین برادرم ڈاکٹر شاہد مسعود بھی ناکام ہوئے تھے۔ وہاں موجود دوستوں کا خیال تھا کہ اس ملک میں کسی ادارے کے لئے کسی کو کامیابی ابھی نہیں ہو گی۔ میرے خیال میں ایک اچھے اور سچے صحافی کو سرکاری منصب قبول نہیں کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اور عبدالمالک ایک اعلیٰ پائے کے اینکر مین تھے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنی یہ حیثیت پھر بحال کر لی ہے۔ وہ ایک اچھے اینکرمین اور تجزیہ کار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے آغاز میں ایک بہت اہل اور اہل دل آدمی کے طور پر اپنی شخصیت بنائی تھی۔
اس کے بعد ایک اچھے صحافی اور صحافیوں کے دوست برادرم شاہدقادر نے بھی اسی ہوٹل میں لنچ پر بلایا ۔ یہ ایک سٹائلش عمارت ہے۔ برادرم عزم الحق فنکارانہ مزاج کے آدمی ہیں۔ ان کے بعد یہاں انتظامات کی ذمہ داری فرح صاحبہ کی ہے۔ وہ بھی لنچ میں ہمارے ساتھ شریک تھیں۔
سیاستدان سینٹ کے الیکشن کو اب متنازع بنا رہے ہیں۔ ایک غیرضروری اور اچانک صدارتی آرڈیننس کی بات ہو رہی ہے۔ مجھے رات سے زیادہ دلچسپی ہے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے خوب بات کی کہ کوئی صحیح کام بھی بعد از وقت ہو تو وہ غلط ہوتا ہے۔ یہ دھاندلی ہے۔ فائدے کے لئے کیا گیا یہ حکومتی اقدام نقصان کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
اس موقع پر نواز شریف کا سعودی عرب چلے جانا یہ ثابت کر رہا ہے کہ انہیں سینٹ وغیرہ کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ وزیراعظم بن گئے۔ بس قصہ ختم۔ وہ کئی ہفتے سینٹ کے کسی اجلاس میں نہ گئے۔ اب تو عمران کا دھرنا بھی ختم ہو گیا ہے اور عمران کے لئے بہت مشکلیں اور بدنامیاں عام ہو رہی ہیں۔ سب پارٹی مالکان کے پاس قابل اعتبار لوگ بہت کم ہیں۔ مگر عمران جس بے اعتباری کا سامنا کر رہا ہے۔ وہ اعلیٰ درجے کی ہارس ٹریڈنگ اور اس دھاندلی سے کہیں بڑی دھاندلی ہے جس کی بنیاد پر اب تک اپنی سیاست چلائی ہوئی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ نواز شریف کے بعد باری زرداری کی ہو گی۔ شہباز شریف واپس آ گئے ہیں تو نواز شریف کیوں نہ آئے؟ عمرے تو انہوں نے سینکڑوں کئے ہوں گے مگر ہمارے وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ عمرہ اقتدار کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ دو دن بعد بھی یہ کام ہو سکتا تھا؟
سینٹ کے الیکشن میں جو تماشا خیبر پختونخواہ میں لگا ہوا ہے وہ جمہوریت کی کونسی قسم ہے؟ کیونکہ قومی اسمبلی اور باقی تین اسمبلیاں تو جعلی جمہوریت کا ٹھکانہ ہیں؟ عمران سے کہا جا رہا ہے مگر یہ پیغام سب پارٹی مالکان کے لئے ہے۔ اپنے اپنے بکروں کو سنبھالیں تو آپ گھوڑے بکرے بن گئے ہیں۔ ن لیگ کی حکومت ٹریڈنگ سے بہت آگے ہے۔ ٹریڈ نہیں ایڈ؟ اب ٹریڈ اور ایڈ میں فرق مٹ گیا ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ عمران خان گائے کا پوچھل (دم) پکڑ کر سینٹ میں جانا چاہتے ہیں تو مولانا کھوتے کی پوچھل پکڑ کر کہاں جانا چاہتے ہیں؟
مولانا صاحب ’’صدر‘‘ زرداری کے ساتھ مل گئے ہیں مگر اکیسویں ترمیم کے لئے سراج الحق بھی مولانا فضل الرحمن سے مل گئے تھے مگر وہ سنیٹر تو عمران خان کے ممبران کے ذریعے بن رہے ہیں۔ عمران خود پریشان ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ میرے ممبر بک گئے تو وہ ضمیر فروشوں پر مشتمل یہ اسمبلی توڑ دیں گے۔ اور اگر خدانخواستہ سراج الحق سنیٹر نہ بن سکے تو کیا وہ جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ دے دیں گے؟
سپیکر قومی اسمبلی ایاز امیر صادق نے نبیل گبول کا استعفیٰ فوراً قبول کر لیا ہے۔ بے چارہ شیخ رشید سچ کہتا تھا کہ میرا استعفیٰ فوراً قبول کر لیا جائے گا۔ اس کے بقول اسے ایاز صادق نے کہا بھی تھا کہ استعفیٰ کب دے رہے ہو مگر ایاز صادق نے ابھی تک تحریک انصاف کے مستعفی ارکان اسمبلی کے استعفے قبول نہیں کئے۔ یہ کیا سیاست ہے؟ اب سمجھ میں آیا کہ وہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ عمران مجھے ہمیشہ یاد رکھیں گے؟ آئین کے مطابق ارکان اسمبلی کو صادق اور امین ہونا چاہئے۔ ایاز صادق کے نام میں صادق آتا ہے۔ اسے فوراً اپنا نام تبدیل کر لینا چاہئے۔ امین صادق رکھ لینا چاہئے۔ اسمبلی میں کوئی ایک تو صادق اور امین ہو۔ نام کا سہی۔
ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ یہ پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازعہ اور جعلی انتخابات ہیں اور اس کے نتیجے میں جو سینٹ وجود میں آئے گی وہ غیرجمہوری سینٹ ہو گی۔ اس میں صوبوں کی نمائندگی بھی شفاف نہیں ہے۔ تین سندھی ن لیگ کی طرف سے پنجاب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پنجابی رحمن ملک پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ کی نمائندگی کرے گا۔ سنا ہے کہ وہ سینٹ کا چیئرمین بنایا جا رہا ہے۔ بے چارہ رضا ربانی اس بار بھی مارا گیا۔ پارٹی مالکان کچھ احساس کریں۔ مشکل وقت میں جو لوگ ساتھ کھڑے تھے۔ ان کا خیال کریں۔ توفیق بٹ نے خوب لکھا ہے کہ ’وہی صحافی حسب معمول ’’نوازے اور شہبازے‘‘ جا رہے ہیں جو پہلے بھی مقربین میں سے تھے۔ کم از کم سیاسی لوگ تو نظر آنا چاہئیں۔ تہمینہ دولتانہ کلثوم نواز کو بھی یاد نہیں ہیں تو پھر ظفر علی شاہ کسے یاد ہوں گے۔ وہ پنجابی ہیں مگر انہیں ن لیگ کی طرف سے سندھ سے ٹکٹ ملا ہے جو انہوں نے واپس کر دیا ہے۔
صدارتی آرڈیننس کے لئے جو باتیں ہو رہی ہیں وہ تو ہیں مگر اس حوالے سے الیکشن کمشن کو سٹینڈ لینا چاہئے تھا۔ وہ فیصلہ کرتے جو بھی کرتے۔ الیکشن تو وہی کرا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی ادارہ اپنا کام پورے جذبے سے نہیں کرتا۔ ڈرے ہوئے لوگ ہیں جو نجانے کس کس سے ڈرے ہوئے ہیں۔ ہر کہیں ہونے کی خواہش نے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو کہیں کا نہیں رکھا۔ آخر میں بہت سینئر اور منفرد درویش شاعر روحی کنجاہی کے کچھ اشعار:
مجھے محسوس ہوتا ہے یہاں ہو تم وہاں ہو تم
علاج اس کا مگر کیا ہو نہیں سکتا کہاں ہو تم
ذرا سا فاصلہ بھی طے نہ صدیوں میں بھی ہو پایا
زمیں ہوں آج تک میں اور ابھی تک آسماں ہو تم
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024