ایک صاحب ہماری تحریروں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے کالم انہیں کنفیوز کرتے ہیں کہ آیا ہم کس کے حق میں ہیں اور کس کے خلاف۔ مزہ آیا جان کر کہ کسی نے تو ہمیں سمجھا۔ ’’بھلیا کی جاناں میں کون‘‘۔ ہمیں تو خود علم نہیں ہو سکا کہ ہم کس کے حق میں ہیں اور کس کے خلاف کیوں کہ ہمارا مشغلہ کسی کی ذات کو ڈسکس کرنا نہیں بلکہ کارکردگی اور رویوں کو ہائی لائٹ کرنا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے پاس کئی قسم کے قلمکار موجود ہیں جو ان کا نمک حلال کر رہے ہیں، چند ایک قلمکار آزاد بھی رہنے چاہیئں۔ آزاد بندہ اپنی رائے کا پابند ہوتا ہے، کسی کو اچھا لگے یا برا‘ اس کا قلم اس سے بے نیاز ہوتا ہے۔ ایک معروف کالم نگار سے ایک بار پوچھا کہ آپ اور کتنے ادارے بدلیں گے، ہزاروں سے لاکھوں اور اب کروڑوں تک بات جا پہنچی ہے، وہ صاحب بولے ’آپ نے کون سا کچن چلانا ہے، کالم چھپ گیا تو ٹھیک‘ نہ چھپا تو پروا نہیں، شوہر ڈاکٹر ہے، آرام کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ہم نے کچن چلانا ہوتا ہے‘۔ کسی کا کچن اچھا چل رہا ہے اور کسی کا مہینہ بہترین چل رہا ہے لیکن پاکستان میں صحافت کا معاملہ کچن سے آگے جا چکا ہے، مختلف جماعتوں اور ایجنسیوں سے وابستہ لوگ اتنا کما لیتے ہیں کہ کئی ہوٹل چلا سکتے ہیں۔ ہم نہ کسی کے حق میں ہیں اور نہ کسی کے خلاف کیوں کہ ہم کسی سیاسی و مذہبی جماعت‘ فرقے یا مسلک کے قیدی نہیں اور شخصیت پرستی کے سخت خلاف ہیں۔ مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات کو ایکسپلائیٹ کرنے والوں کو خدا غارت کرے‘ جتنا نقصان اس طبقے نے پاکستان کو پہنچایا ہے شاید ہی کسی نے پہنچایا ہو۔ شعبدہ بازوں کو بے نقاب کرنا عین عبادت ہے۔ اچھے لوگ بھی اسی ملک میں موجود ہیں جو بے لوث دین کی خدمت کر رہے ہیں مگر ان کے بعض وعظ اور اقدام بھی قلم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہماری وابستگی فقط دین اسلام اور وطن پاکستان سے ہے۔ اظہار رائے میں آزاد اور بیباک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سولہ برس سے نوائے وقت سے منسلک ہیں ۔ کھلے دل و دماغ کے لوگ ہمارے کڑوے سچ پڑھنے کے عادی ہو چکے ہیں البتہ متعصبانہ سوچ کا حامل طبقہ ہماری تحریریں ہضم نہیں کر پاتا۔ سینئر کالم نگاروں کی عادت ہے کہ نصف کالم خود نمائی بیان کرنے میں ضائع کر دیتے ہیں‘ ہم چونکہ خود کو سینئرز میں شمار نہیں کرتے لہذا خود نمائی کی جرات نہیں کرتے البتہ دل کی بات کہنے کی جسارت کرتے ہوئے کہنا چاہتے ہیں کہ ہم پیشہ ور قلمکار نہیں، جب کوئی خیال بے چین کرتا ہے تو لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ورنہ بعض اوقات چاہتے ہوئے بھی قلم اٹھانے سے معذور ہیں۔ جس وقت لکھنے بیٹھتے ہیں تو اس وقت ہماری مرضی شامل نہیں ہوتی بلکہ غیبی طاقت ہم سے لکھواتی ہے، موضوع کی مناسبت سے قلم کی کاٹ کو روکنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، ہماری بے اختیاری کے سبب جہاں چاہنے اور دعائیں دینے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے وہاں ناقدین کی تعداد بھی ماشاء اللہ کم نہیں۔ کسی بھی جماعت یا شخصیت سے مفاد تو درکنار کبھی ان لوگوں سے ملاقات کی بھی خواہش نہیں ہوئی۔ سات سمندر پار ان لوگوں کے بارے میں اتنا کچھ جان جاتے ہیں کہ قریب سے دیکھنے کا اشتیاق نہیں۔ آزاد ملک میں محنت مزدوری سے رزق حلال کمانے والے لوگ اپنی زندگی میں مست ہیں۔ عہدوں اور لفافوں سے خوشامدیوں کو نوازا جاتا ہے۔ الاماشاء اللہ مالدار صحافی اور علماء سیاسی اور کاروباری شخصیات سے وابستہ ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ سادہ عوام شخصیت پرستی کے خول سے نکل سکیں تو تنقیدی کالموں کے پس پشت مخفی درد کو محسوس کر سکیں۔ حق سچ لکھنے میں کوئی خوف نہیں خواہ کسی کو برا لگے۔ کسی مولوی‘ پیر‘ مولانا‘ علامہ سے وابستگی نہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہیں۔ جہاں کوئی بات یا عمل ملک کے حق میں اچھا نظر آیا‘ خراج تحسین پیش کیا اور نقصان دکھائی دیا تو کھل کر تنقید کی۔ قابل رحم ہیں وہ لوگ جو کسی جماعت یا شخصیت کی عقیدت و محبت میں اتنے برین واش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے قلم سے ٹپکا لہو بھی انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ دور حاضر کی نہ مسلم لیگوں میں وہ کمال رہا کہ خود کو مسلم لیگی کہلانے میں فخر محسوس کریں‘ پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہی دفن ہو گئی‘ تحریک انصاف کا حشر بھی سب کے سامنے ہے‘ دینی جماعتوں کے قول و فعل میں تضاد بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ اس ملک کا ستیاناس کرنے میں سب ملوث ہیں۔ کسی شخصیت کو بھی آئیڈیل بنانے میں یہ قوم جلد باز واقع ہوئی ہے۔ جو بھی اسلام کو ایکسپلائیٹ کرنے کا ہنر جان گیا‘ وہ سادہ لوگوں کا آئیڈیل بن گیا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اسلام کے نام پر حکومت کھینچ رہے ہیں۔ زمینی حقائق سے لا علم پاکستانیوں کو آئیڈیل تراشنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ جنرل راحیل شریف واقعی اچھے سپہ سالار ہیں، فوج کے آئیڈیل ہیں۔ خواجہ آصف کے بھی آئیڈیل ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے آئیڈیل خواجہ آصف ہیں۔ مذہبی جماعتیں اور علماء اپنے انداز سے کام کر رہے ہیں مگر ان میں کوئی معصوم نہیں اور نہ کسی پر پیغمبری نازل ہوئی ہے کہ کسی عالم کے بیان یا وعظ پر تنقید حرام سمجھی جائے۔ ہماری تحریریں بڑی بے وفا ہیں‘ آج جس کی تعریف کر رہی ہیں‘ کل اسی پر برہم ہو رہی ہیں۔ خواہ عمران خان ہے، میاں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ پیپلز پارٹی‘ مولانا طارق جمیل یا علامہ طاہر القادری‘ شخصیات کی فہرست طویل ہے، چاہنے والے ان لوگوں کو مخلوق ہی رہنے دیں‘ خدا مت بنائیں۔ بندوں سے غرض نہیں‘ ان کے منہ سے نکلے جملوں اور ان کی کارکردگی پر اظہار رائے دینے کا حق ہمارے قلم نے دیا ہے۔ ہمارا قلم پیشہ ور نہیں‘ زخمی ہے جس کی تحریروں سے لہو ٹپکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38