کچھ لوگ پروپیگنڈے کی توپیں گاڑے فائر داغنے کا بہانہ چاہتے ہیں۔انہیں ذرا سا موقع ملے تو وہ ٹریگر دبا دیتے ہیں ۔یہی کچھ پچھلے دنوں وزیر اعظم کے ساتھ ہوا، ادھر ان کے پیٹ میں درد اٹھا، وہ انتہائی خاموشی سے چیک اپ کرانے ایک ہسپتال گئے، پتہ چلا کہ گردے میں پتھری تنگ کر رہی ہے، پتھری کا سائز چھوٹا نکلا، بڑا بھی ہوتا تو اس مرض کا ساری دنیا میں علاج موجود ہے، اسے دواﺅں سے بھی توڑا جاسکتا ہے، اور آپریشن بھی کیا جا سکتا ہے، اب تو آپریشن کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ، بس ایک سوراخ کر کے پتھری سے نجات دلائی جا سکتی ہے مگر جن لوگوں کو بات کا بتنگڑ بنانا تھا، وہ نچلے کیسے بیٹھتے، انہوں نے بیماری کی خبر کواس طرح اچھالا جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو، جیسے یہ پروپیگنڈہ کرنے والے نہ تو کبھی خود بیماری کا شکار ہوئے نہ ان کے گھر کا کوئی فرد، جیسے والدہ محترمہ، والد صاحب، بہن یا بھائی، یا بیٹا، یا بیٹی،اور اگر کوئی بیماری ان میں سے کسی کو لاحق ہو جائے تو کیا وہ پسند فرمائیں گے کہ میڈیا کے کیمرے ان پر مرکوز ہو جائیں اور اسے بریکنگ نیوزکا موضوع بنا لیں۔ ہر نوع کے ڈاکٹروں کی رائے نشر کرنا شروع کر دیں حتی کہ یہ پروپگنڈہ سن سن کر لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں اور خود بیماری میں مبتلا شخص ا وراسکے لواحقین نیم پاگل ہو جائیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ صدر زرداری دبئی کے ہسپتال جا داخل ہوئے تو ایک نہیں، ایک سو ایک سوال ا ٹھائے گئے۔ کسی نے پوچھا کہ ملک کے کسی ہسپتال میں علاج کیوںنہیں کروایا، یہ بھی کہا گیا کہ ا نہیں فوجی ہسپتال پر اعتبار نہیں تھا۔ٹی وی کیمرے دبئی کے ہسپتال کے برآمدوں پر کئی روز تک مرکوز رہے ، دوسری طرف ڈاکٹر عاصم حسین بار بار کہہ رہے تھے کہ صدر زرداری کو کوئی تکلیف نہیں ، صرف معمول کے چیک اپ کے لئے یہاں پہنچے ہیں۔مگر ان کی سنی ان سنی کر دی گئی، جنرل مشرف ایک عدالت جاتے ہوئے فوجی ہسپتال کی طرف مڑ گئے تو ایک شور قیامت برپا ہو گیا، کسی نے کہا کہ فوج کی اعلی قیادت انہیں احتساب سے بچانا چاہتی ہے، کسی نے کہا کہ صدر مشرف کی انجیو گرافی فوجی ہسپتال ہی میںضروری نہیں تھی، یہ کسی بھی سویلین ہسپتال میں ہو سکتی تھی، کسی نے کہا کہ فوجی ہسپتال کے ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات کی خلاف ورزی کر رہے ہیںا ور صدر مشرف کی بیماری کی کوئی رپورٹ عوام اور میڈیا تک نہیں پہنچنے دیتے۔
مگر پروپیگنڈے کی اصل یلغار اسوقت شروع ہوئی جب وزیر اعظم نواز شریف لندن علاج کے لئے گئے، ہر کسی کو یاد ہے کہ پہلے تو میڈیا نے یہ شور مچایا کہ یہی وزیر اعظم ایک روز پہلے ہیرڈز میں خرید و فروخت کر رہے تھے، اور کسی فاسٹ فوڈ ریستوران میں مزے مزے کے کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔مگر اگلے روز یہی وزیر اعظم ہسپتال گئے تو دل کی ایک نہیں اکٹھی چار شریانیں بند پائی گئیں۔اور پھر کئی ہفتوں تک جتنے منہ اتنی باتیں۔نہ میڈیا کی زبان بند ہو رہی تھی ، نہ سیاست دانوں کے نشتر ختم ہو رہے تھے۔کوئی سوال اٹھاتا کہ دل کا مکمل بائی پاس ہو تو مریض کو چند گھنٹے بعد ہی چلنے پھرنے کی ہدائت کی جاتی ہے، یہ کیسی بیماری ہے جس میں ہسپتال کا قیام بڑھا دیا گیا ہے ا ور جب وزیر اعظم اپنے فلیٹ چلے گئے تو پہلا سوال بھلا کر یہ سوال کیا گیا کہ دل کاا ٓپریشن ہوا بھی ہے یا نہیں۔ اس موقع پر پاکستان سے مجیب الرحمن شامی ا ور عطاالحق قاسمی لندن پہنچے اور انہوں نے گواہی دی کہ وزیرا عظم کا واقعی آپریشن ہوا ہے اورانہوںنے وزیر اعظم کے سینے، بازو اور ٹانگوں کے زخم اپنی آ ٓنکھوں سے دیکھے ہیں۔مگر طوطی کی نقار خانے میں کون سنتا ہے، طرح طرح کی جو باتیں بنائی جا رہی تھیں، ان کا سلسلہ ختم نہ ہوا، وزیر اعظم نے لندن میں اپنا قیام بڑھا دیا،ا س پر چہ میگوئیوں کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا، اس دوران میں مجھے وزیر اعظم اور بیگم کلثوم نواز کی ایک تصویر دستیاب ہوئی جس میں وہ ہائیڈ پارک میں ٹہل رہے تھے، وزیر اعظم کا چہرہ اترا ہوا تھا، ان کی آ نکھیں بھی کیمرے کی طرف نہیں تھیں جبکہ ان کی بیگم صاحبہ کی نظریں اپنے شوہر کے چہرے پر بے تابی سے جمی ہوئی تھیں ، اس تصویر سے وزیر اعظم کی اندرونی کلفت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا تھا۔ مجھے یہ تصویر وزیر اعظم کے ایک ذاتی دوست کے ذریعے ملی، مجھے اس نے قسم دی کہ میں اسے پبلک نہیں کروں گا مگر میں نے اس تصویر کی اہمیت کے پیش نظرا س قسم کی پرواہ نہیں کی ا ور انٹر نیٹ پر یہ تصویر جاری کر دی ۔ جہاں سے ہمارے ٹی وی چینلز نے بھی اسے نمایاں طور پر نشر کرد یا۔ اگلے روز کے اخبارات میں بھی یہ تصویر فل کلر دو کالمی شائع ہوئی اورا سطرح ایسی چہ میگوئیاں دم توڑ گئیں کہ وزیر اعظم محض بیماری کا بہانہ کر کے لندن میں چھپے بیٹھے ہیں اور پانامہ کی تنقید سے بچنا چاہتے ہیں۔ میں یہاں یہ پھر واضح کر دوں کہ مجھے یہ تصویر کسی سرکاری ذریعے سے نہیں ملی، نہ وزیر اعظم کے خاندان، پی ایم ہاﺅس کے میڈیا سیل یا وفاقی محکمہ اطلاعات نے مجھ سے اس تصویر کی اشاعت کی کوئی درخواست کی تھی، یہ سراسر ایک پیشہ ور صحافی کے طور پر میرا ذاتی اسکوپ تھا۔
اب آیئے وزیر اعظم کی حالیہ بیماری کی طرف ۔ بیماری اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کسی کی بیماری کو ایشو بنانا دنیا کی کسی اخلاقیات میں جائز اور روا نہیں۔ جو لوگ ایساکرتے ہیں انہیں یا درکھنا چاہئے کہ وہ خود بھی بیمار پڑ سکتے ہیں اور کوئی ان کا بھی ٹھٹھہ اڑا سکتا ہے تو پھر ان کے دل پر کیا گزرے گی۔
ہسپتال میں زیر علاج مریض کی موت کی تصدیق صرف ڈاکٹر کرنے کا مجاز ہے اور وہ اس وقت تک مریض کے اہل و عیال کو یہ بری خبر نہیں دیتا جب تک وہ خود ہر لحاظ سے اس کی تصدیق نہ کر لے، میں اس تجربے سے خود گزر چکا ہوں ، میرا مریض ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا، ایک ماہ سے زائد عرصے تک آئی سی یو میں تھا، مجھے ایک شب آئی سی یو میں بلایا گیا اور ڈیوٹی ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کے مریض کے دل کی حرکت پندرہ منٹ پہلے بند ہو گئی تھی مگر ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی موت واقع ہو گئی ہے کیونکہ تین چار طریقے ایسے موجود ہیں جن کے ذریعے ہم ان کے دل کو چالو کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ قیامت کی گھڑیا ںتھیں مگر سوائے صبر اور دعا کے کوئی چارہ نہ تھا، تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد اسی ڈاکٹر نے دوبارہ بتایاکہ وہ اپنی ہر کوشش کر چکے ہیں، مگر دل نے حرکت نہیں کی۔اس پر انہوںنے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کیا اوراس پر موت کا وہی وقت درج کیا جس وقت اس سرٹیفیکیٹ پر دستخط کئے گئے، میں نے یہ جو دل کی حرکت بند ہونے اور اس کے دوبارہ چالو ہونے کے بارے میں لکھا ہے تو یہ کوئی گپ نہیں، اسی علاج کے دوران میرے ایک فیملی ڈاکٹر امجد میرے پاس کمرے میں تشریف لائے ۔، انہوںنے بتایا کہ جیل روڈ کے دل کے سرکاری ہسپتال کے آئی سی یو میں ایک دم الارم بجا،ا س کا مطلب یہ تھا کہ کسی مریض کے دل کی حرکت بند ہو گئی ہے، ڈیوٹی ڈاکٹر نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ،اس نے دو مریضوں کے بستر پھلانگتے ہوئے مرے ہوئے مریض کی کمر پر زور سے مکہ رسید کیا اور وہ معجزہ ہو گیا جس کی توقع کم کی جاتی ہے، دل نے حرکت شروع کر دی اور مریض تندرست ہو کر گھر چلا گیا، میں پھر یہ کہوں گا کہ کسی کی بیماری یا موت کا ٹھٹھہ اڑانے والے ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ وہ اپنی بیماری اور موت سے بچ نہیں سکتے۔ اس لئے وہ وزیر اعظم یا کسی اور کی بیماری پر ایشو کھڑا کرنے سے گریز کریں۔یہ ذائقہ انہیں خود بھی کسی نہ کسی لمحے تو چکھنا ہی ہے۔