خدائی فوجداروں کا ایک گروہ ہے۔ اخباری کالموں یا ٹی وی پروگراموں کے ذریعے معروف ہوئے افراد کے خیالات سے کہیں زیادہ یہ ان کی ذاتی زندگیوں پر کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ بہت بے چینی سے ”مستند“ شواہد ڈھونڈتا رہتا ہے جو کسی نہ کسی طرح ثابت کرسکیں کہ اپنے کالموں یا پروگراموں میں اصولوں اور پارسائی کے دعوے کرنے والے خواتین وحضرات اپنی ذاتی زندگیوں میں اخلاقی اعتبار سے بہت کمزور، لالچی اور حکومتوں کی کاسہ لیسی میں مصروف رہتے ہیں۔
خود کو میں نے ہمیشہ دوٹکے کا رپورٹر ہی سمجھا۔ پارسائی کو فروغ دینے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ صرف خبروں اور تجزیوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ اس کے باوجود خدائی فوجداروں سے محفوظ نہ رہ پایا۔ چند تصاویر بارہا سوشل میڈیا پر دکھاکر میری حقیقت عیاں کی جاتی ہے۔ پھر ٹپک پڑی کہیں سے وہ ”فہرست“ جس میں ملک ریاض سے پلاٹ، گاڑیاں اور رقوم لینے والے صحافیوں کے نام شامل تھے۔ میرا دُکھ مگر یہ ہے کہ نام تو شامل ہوگیا مگر پلاٹ اور رقم ابھی تک نہیں ملے۔ اس کے حصول کا انتظام ہوجائے تو ایک بھرپور تقریب کے انعقاد کے ذریعے وصولی کی رسید دے دوںگا۔
میرے کردار پر کڑی نگاہ رکھنے والے ایسے ہی ایک فوجدار نے چند ہفتے پہلے بظاہر بہت پریشانی سے سوشل میڈیا کے ذریعے جاننا چاہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو واقعی میرے ذریعے پاکستان کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سربراہان سے سوالات کروایا کرتی تھیں۔ اسے یہ سوال اختروقار عظیم کی پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ سے جڑے واقعات کی یادوں پر مبنی کتاب کو پڑھ کر اٹھانا پڑا۔
مجھے خبر ہی نہ تھی کہ اختر بھائی نے کوئی کتاب لکھ ڈالی ہے۔ خدائی فوجدار کے سوال کا جواب کیا دیتا۔ چند دنوں سے مگر کچھ کالم شائع ہونا شروع ہوگئے جن کے ذریعے پتہ چلا کہ ”ہم بھی وہیں موجود تھے“ کے عنوان سے یہ کتاب واقعتاشائع ہوکر بازار میں آچکی ہے۔ سوچ رہا تھا کہ کتابوں کی دُکان میں جاﺅں تو یہ کتاب بھی تلاش کروں گا اگرچہ اصل ارادہ اورحان پامک کے تازہ ترین ناول کا حصول ہے جس کا عنوان پڑھ کر ہی دل بے چین ہوچکا ہے۔
دل ہی دل میں البتہ یہ جلن بھی تھی کہ اختر بھائی نے اپنی کتاب مجھے بھیجنے کا تردد ہی نہ کیا۔ ان سے دوستی کا دعویٰ تو نہیں کرسکتا مگر صحبتیں بے شمار ہیں۔ ان کے چہرے پر مستقل موجود مسکراہٹ اور مزاج کا دھیما پن میرے بارے میں ان کی شفقت کو چھپا نہیں پاتا۔ سوچ رہا تھا کبھی ملاقات ہوئی تو یاد دلاﺅں گا کہ بھائی ہم بھی کالم نگار ہوتے ہیں۔ اپنے ہنر میں یکتا نہ سہی مگر غیر معیاری زبان میں کچھ حرف لکھ کر کافی لوگوں کے دل ضرور جلادیا کرتے ہیں۔ اپنی کتاب دوستوں کو بھیجتے وقت ہمیں بھی یاد کرلیتے۔
عجب اتفاق ہے کہ جمعہ کی سہ پہر ان کا فون آگیا اور ہفتے کی صبح وہ کتاب میرے گھر پہنچ گئی۔ پارسل کھولتے ہی پہلا صفحہ دیکھا تو پڑھتا چلا گیا۔ 287صفحات پر مشتمل کتاب ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالی اور ایسا کرتے ہوئے دوپہر کا کھانا بھی ٹرے میں لگواکر منگوایا اور اسے پیٹ پر رکھ کر پیٹ بھرا۔ اس کتاب کی اصل خوبی میرے خیال میں یہی ہے کہ شروع کی تو ختم کرنے پر مجبور ہوا۔ سادگی، سچائی اور آسان زبان ”ہم بھی وہیں موجود تھے“ کا اصل حسن ہیں۔
اپنی پیار بھری نیک طبیعت کے عین مطابق پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ سے جڑے واقعات بیان کرتے ہوئے اختر بھائی نے مختلف شخصیات کے صرف اچھے پہلو دکھائے ہیں۔ کسی بھی ذات میں کیڑے نہیں نکالے۔ واقعات بھی وہ بیان کئے ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں شگفتگی کھل اُٹھتی ہے۔ ذرا سی تلخ بات کا کہیں بھی ذکر نہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لئے کام کرنا آپ سے محض ہنر کا تقاضہ ہی نہیں کرتا۔ نوکری بچانے اور ترقی پانے کے لئے ہر دم ہوشیار رہنا پڑتا تھا۔ اختر بھائی خود بھی ایسے مراحل سے گزرے ہوں گے اور اپنے افسروں میں موجود فرعونوں کو بارہا بھگتا بھی ہوگا۔ انہیں یاد کرتے ہوئے مگر چپ رہے، ہنس دئیے۔
میرا ذکر بھی اس کتاب میں ہے اور واقعہ بالکل درست۔ اختر بھائی نے وہ واقعہ مگر اس لئے لکھا کہ ہمارے صدور اور وزرائے اعظموں کے خیر خواہ بنے ضرورت سے زیادہ متحرک مشیروں کو کسی طرح سمجھا سکیں کہ فرانس جیسے ملکوں میں اپنے سربراہوں کے میڈیا امیج پر دھیان رکھنے والے لوگ کن امور پر انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں سخت نگاہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ذکر ہے فرانس کے صدر متراں کے اس دورئہ پاکستان کا جو انہوں نے 1990ءمیں کیا تھا۔
فرانس کے صدر ان دنوں 80برس کے ہوچکے تھے مگر ان کی ایک معاون یہ معلوم کرنے کو مرے جارہی تھی کہ جب وہ پاکستان کے وزیر اعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس کے لئے بیٹھیں گے تو سٹیج پر کونسے رنگ نمایاں ہوں گے تاکہ ان کا صدر جو لباس پہنے وہ ان رنگوں میں دب کر نہ رہ جائے یا اس کے پس منظر میں عجب نظر نہ آئے۔
ہمارے حکمران ایسی پریس کانفرنسوں کے لئے بس آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ سوالات بھی ہمارے صحافی کافی سطحی اور اکثر غیر متعلقہ پوچھا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے یاد آیا کہ ایک زمانے میں ا سلام آباد کے ایک صحافی کو یہ جنون لاحق تھا کہ جب کبھی صدر ضیاءالحق کسی غیر ملکی دورے سے وطن لوٹ کر پاکستان ٹیلی وژن کے ذریعے براہِ راست دکھائے جانے والی پریس کانفرنس سے خطاب کریں تو سب سے پہلا سوال وہ کریں۔ وہ اپنے اس مقصد میں ہمیشہ کامیاب رہے کیونکہ اپنے سوال کا آغاز وہ ہمیشہ جناب صدر کو ”کامیاب“ غیر ملکی دورے پر مبارک دینے سے کیا کرتے تھے۔
مبارک دینے کی یہ عادت انہیں اس وقت بھی نہ روک سکی جب ضیاءالحق اندراگاندھی کے قتل کے بعد اس کی آخری رسومات میں شرکت کے بعد پاکستان لوٹے اور ہمارے صحافی دوست نے انہیں ”بھارت کے کامیاب دورے“ پر مبارک باد دینے سے اپنے سوال کا آغاز کیا۔
بہرحال صدر متراں کے معاون کی بے چینی کے ذکر کے بعداختر بھائی لکھتے ہیں:”....دوسری طرف ہماری وزیر ا عظم کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ ان کے ساتھیوں نے انہیں معمولی معمولی باتوں میں اُلجھا رکھا تھا۔ حد یہ ہے کہ وزیر اعظم کو پریس کانفرنس میں پوچھے جانے والے سوال کی طرف بھی توجہ دینا پڑرہی تھی۔ صدر فرانس ایک سوال کاجواب دے رہے تھے اس دوران ہم نے دیکھا کہ ہماری وزیر اعظم کچھ بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی ہیں۔ پھر انہوں نے کاغذ کا ایک چھوٹا سا پرزہ اٹھایا اور اس پر کچھ لکھنے لگیں۔ دو چار جملے لکھنے کے بعد انہوں نے یہ کاغذ پاس کھڑے اپنے وزیر اطلاعات کو تھمادیا اور سامنے بیٹھے صحافیوں کی طرف دیکھ کر کچھ کہا۔ وزیر اطلاعات احمد سعید اعوان وہ پرچی لے کر صحافیوں کے پاس آئے اور کاغذ نامور صحافی نصرت جاوید کے حوالے کردیا۔ نصرت نے چٹ پر نظر ڈالی اور سوال کرنے کے لئے ہاتھ اٹھادیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے نصرت کو سوال کی اجازت دیتے ہوئے کہا:”جی پوچھئے“۔
”نصرت جاوید کا سوال فرانس کے اس وعدے سے متعلق تھا جو اس نے ذوالفقار علی بھٹو سے پاکستان کو نیوکلیئرری ایکٹر فراہم کرنے کے بارے میں کیا تھا۔ یوں بے نظیر بھٹو نے اس پریس کانفرنس کے ذریعے ایک ایسے سوال کا جواب حاصل کرلیا جو وہ صدر سے بات چیت میں حاصل نہ کرسکیں تھیں“۔
ایک پاکستانی کی حیثیت میں مجھے فخر ہے کہ وہ سوال اٹھانے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے میرا انتخاب کیا۔ اس سوال کی وجہ سے فرانس ایٹمی ری ایکٹر کے بدلے پاکستان کو میراج طیارے اور آبدوزیں فراہم کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے غیبت بھرے ماحول میں ان طیاروں اور آبدوزوں کو بھی ”مسٹر ٹین پرسنٹ کی ہوس“ کا ایک اور اظہار دکھاکر متنازعہ بنادیا گیا۔