مائی جھلی کی قبر کے سرہانے بیٹھی دنیا کی حقیقت کو کچی مٹی میں کریدتی رہی۔ جھلی مر گئی۔ کسی دل جلے نے ”مائی جھلی“ کا کتبہ بھی نصب کر دیا۔ مائی جھلی قبرستانوں مزاروں اور درگاہوں کی خاک چھانتے چھانتے ایک روز خود بھی قبر بن گئی۔ زندہ دل قبر۔ ہنستی مسکراتی چہچہاتی اور کبھی لڑتی چیختی چلاتی۔۔۔۔ مائی جھلی قبرستانوں میں خاک روب بن جاتی اور کبھی کسی درگاہ کے فرش سے پھول چنتی ہوئی دکھائی دیتی۔ بابا سرکار بھلا شاہ سے ملنے گئی تو قدم اچانک بابا کمال چشتی کی چوکھٹ کے قریب جا کر رک گئے۔ شاہ کمال چشتی رحمت اللہ کی درگاہ جس ٹیلے پر ہے، یہی پرانا قصور ہے۔ شاہ کمال چشتی کے حوالہ سے ایک روایت عام ہے کہ راجہ رائے سنگھ سترویں صدی عیسوی میں یہاں کا حاکم تھا۔ وہ ہر دلہن کے ساتھ وقت گزارتا۔ شاہ کمال چشتی کی ایک مریدنی جو دلہن تھی ان کے پاس بھاگ آئی اور سارا ماجرا سنایا۔ شاہ کمال چشتی نے غضبناک ہوتے ہوئے اپنا پیالہ الٹ دیا، اس طرح یہ شہر غرق ہو گیا۔ انسانی تاریخ کے حوالہ سے یہ گزرے کل کی بات ہے۔ شاہ کمال چشتی کا مزار کھنڈر کے اوپر آباد ہے۔ شاہ کمال چشتی کا مزار چار منزلہ ٹیلے پر جلوہ افروز ہے۔ مزار کے باہر ایک قبر موجود ہے جس کے کتبہ پر ”شاہ کمال چشتی کی خاص مریدنی مائی صاحبہ“ لکھا ہے۔ مائی صاحبہ کی قبر کے سرہانے بیٹھے بیٹھے علم ہی نہ ہو سکا کہ کب مائی جھلی قبر میں سما گئی۔ تھکے تھکے قدموں سے اٹھی اور بابا بلھے شاہ کی درگاہ کی جانب چل دی۔
احمد علی لاہوری رحمت اللہ جو کشف کا علم رکھتے تھے، انھوں نے حضرت بلھے شاہ کے متعلق کہا تھا کہ اس شہر میں نیک ہستی دفن ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ رحمت اللہ کی شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف ردعمل ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماو¿ں کی وحشیانہ مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لئے اس کا گہرا اثر ان کے افکار پر بھی پڑا۔
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بلھیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلہے شاہ کے کلام میں اس دور کے سیاسی رنگ کی گہری چھاپ ہے۔ اورنگزیب کے مرنے کے بعد مغل حکمرانوں کی حکومت آگئی۔ مرکزی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال نے بگاڑ اور خانہ جنگی کی کیفیت اختیار کر لی۔ اس صورتحال کی خبر جب نادر شاہ تک پہنچی تو اس نے ہند پر حملہ کر دیا۔ 1739ءمیں دلّی پر نادر شاہ کے حملے سے بہت خون خرابہ ہوا۔ ابھی اس جنگ کے زخم تازہ تھے کہ 1761ءمیں نادر شاہ کے جانشین احمد شاہ ابدالی نے اک بار پھر ہند پر حملہ کر دیا۔ اور دلّی کو اک بار پھر خون کا غسل کرنا پڑا۔ اس کے بعد ملک کے اندرونی حالات خلفشار کا شکار ہو گئے۔ ایسے ہی موقع پر بلھے شاہ نے کہا
در کھلا حشر عذاب دا
برا حال ہو یا پنجاب دا
بلھا کے صحن میں خاک روب جھاڑو لگا رہا تھا۔ مائی جھلی اڑتی خاک میں اپنا عکس تلاش کرتی کرتی خاکروب کے قریب جا پہنچی۔ بوڑھا خاکروب دل کے رمز سمجھ گیا اور اس نے جھاڑو مائی جھلی کے ہاتھ میں تھما دیا۔۔۔۔
نہ کر بندیا میری میری
نہ تیری نہ میری
چار دناں دا میلہ د±نیا
فیر مٹی دی ڈھیری
مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے
ڈھا دے جو کجھ ڈھیندہ
اک بندہ دا دل نہ ڈھاویں
رب دلاں وچ ریندہ۔۔۔۔۔
لیکن یہی تو مشغلہ ہے تیرا اور میرا۔ ہم نے کبھی نہ مرنے کی شاید قسم کھا رکھی ہے۔۔۔۔ بلھے شاہ اساں مرناں ناہیں گور پیا کوئی ہور۔۔۔۔ بے حسی اور بے مروتی نے دلوں کو زندہ درگور کر دیا ہے۔۔۔۔ مزید برا وقت دیکھنے سے پہلے مائی جھلی قبر میں لوٹ جانا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024