سابق وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بات کی ہے اور حیران کر دیا ہے کچھ پریشان بھی کر دیا ہے ’’میں سندھ میں محمد بن قاسم کی تلاش میں گئی تھی‘‘۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنی ناکام ہوئی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے بلاوے پر گئی تھیں تو ان کا اشارہ انہی کی طرف ہو گا۔ ان کا اشارہ ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف تو ہو نہیں سکتا ویسے حجاج بن یوسف محمد بن قاسم کا ماموں تھا۔ مروان بن حکم بھی حجاج بن یوسف کا عزیز تھا جس نے 19برس کے فاتح سپہ سالار کو معزول کیا واپس بلا کے سزا دی۔ محمد بن قاسم ایک مظلوم عورت کی فریاد پر کراچی آیا اور ملتان تک سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہتا چلا گیا۔
فردوس صاحبہ کس ظلم کی کہانی ’’سیاسی محمد بن قاسم‘‘ کو سنانے گئی تھیں۔ کیا بلاول بھٹو زرداری واقعی سیاسی طور پر محمد بن قاسم بن سکتا ہے۔ اس اعزاز کے ساتھ وہ محمد بن قاسم کے انجام پر بھی نظر رکھے۔ حجاج بن یوسف ظالم تھا مگر ایک مظلوم خاتون کی فریاد پر ڈٹ گیا۔ ’’صدر‘‘ زرداری تک آج کل نجانے کتنی فریادیں ورکرز کی طرف سے جاتی ہیں اور راستے ہی میں دم توڑ دیتی ہیں۔
میں بے باک سیاسی خاتون سیاستدان کو داد دیتا ہوں کہ اتنی گہری بات اس نے کی۔ شاید اسے خود بھی معلوم نہ ہو کہ اس نے کیا بات کہہ دی ہے۔ ورنہ وہ پاک فوج اور جنرل کے خلاف صدر زرداری کی وکالت شیری رحمان کی طرح کر سکتی تھی وکالت جائز آدمی کی بھی ہوتی ہے اور ناجائز آدمی کی بھی ہوتی ہے۔ شیری رحمان ایک سیاسی وکیل کی طرح اس بات پر دھیان دینے کی قائل نہیں ہیں۔ وہ جس طرح صدر زرداری کے قریب تھیں اب بلاول بھٹو زرداری کے بھی قریب ہیں۔ یعنی وہ ایک ’’کامیاب وکیل‘‘ ہیں۔ حیرت ہے کہ انہوں نے شیخ رشید کی اس بات کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے بلاول کو بلورانی کہا تھا۔ وہ اسے شیدا ٹلی ہی کہہ دیتی۔ کوئی موازنہ کرے گا فردوس اور شیری کے اظہار خیال کا؟
شیری رحمان پارٹی کی ’’شریک نائب صدر‘‘ ہیں۔ مخدوم امین فہیم روٹھ گئے تھے۔ دبئی میں صرف عیادت کے کسی لمحے میں مان گئے جیسے وزیراعظم کے لئے لڑائی میں ہار گئے تھے۔ پھر ایک معمولی وزیر کے طور پر ایک حقیر سی بخشش پر راضی ہو گئے۔ فردوس عاشق اعوان نے پنجاب پیپلز پارٹی کے نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ بھی ایک پیغام بلاول اور ’’صدر‘‘ زرداری دونوں کے لئے ہے۔ منظور وٹو غور کریں؟ شوکت بسرا دوست ہیں انہیں کیسے مبارکباد دیں؟ میری محبت بھٹو سے ہے انہوں نے اقتدار کے دنوں میں تاریخ ساز کام کئے مگر اپنے محبت کرنے والوں کو مایوس کیا۔ شہید بی بی نے بھی ہماری محبت کو ذلیل و خوار کیا مگر ایک شخص کو عزت دی وہ دلیر اور مخلص وفا اور حیا والا لیڈر رانا آفتاب ہے۔ وہ پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر ہوتے تو پارٹی کبھی پنجاب میں ختم نہ ہوتی۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے پارٹی کو ختم کرنے کے لئے منظور وٹو کو پنجاب کا صدر بنایا ہے؟
فردوس کہتی ہیں کہ صرف سندھ پیپلز پارٹی کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ زرداری پارٹی وہاں بھی اب نہیں بچ سکے گی۔ تھوڑی سوچ اور وژن تو ہونا چاہئے دوستی میں بھی؟ شیخ ریاض اور ڈاکٹر قیوم سومرو دونوں زرداری صاحب کے دوست ہیں۔ ایک دوسرے کے بھی دوست تھے۔ ایک سنیٹر بن کر گم ہو گیا دوسرے نے ٹی وی چینل کے ذریعے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔ ’’صدر‘‘ زرداری بھی اسی چینل پر ’’زندہ‘‘ نظر آتے ہیں پھر شیخ صاحب کے بیٹے میرے عزیز ہشام ریاض کی شادی ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاسی عزیزہ شرمیلا فاروقی سے ہوئی۔ دونوں خوش ہیں۔ اللہ کرے ہمیشہ خوش رہیں۔ اس طرح شیخ صاحب زرداری صاحب کے سمدھی بن گئے ہیں۔ شرمیلا بھی ایک سمجھدار سیاستدان کی طرح ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔ فردوس کے بیانات سے پتہ نہیں چلتا کہ وہ زرداری صاحب کے خلاف ہیں یا منظور وٹو کے خلاف ہیں۔ بلاول نے تو پنجاب آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اس کے لئے ہر دفعہ زرداری صاحب اور ان کے ’’دوست‘‘ سکیورٹی مسائل کا ڈھول بجانے لگتے ہیں۔ یہ پارٹی پنجاب میں جان بوجھ کر ہاری۔ پہلی بار پنجاب اور لاہور پارٹی کے لئے قبرستان بن گیا۔ لاہور اور پنجاب میں کبھی بھٹو صاحب کی وہی حیثیت تھی جو آج شریف برادران کی ہے تو ’’صدر‘‘ زرداری نے کبھی سوچا کہ ان کے ’’دوستوں‘‘ میں سے برادران یوسف کتنے ہیں۔ میرا خیال ہے یوسف رضا گیلانی کی کتاب ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘ بلاول نے ابھی پڑھی نہیں ہے ورنہ قائم علی شاہ کی طرح وہ اندر سے یوسف رضا گیلانی کے بھی خلاف ہوتے۔
جس دن کابینہ کی میٹنگ میں فردوس روئی تھی اور نااہل وزیراعظم گیلانی مشتعل ہوئے تھے مجھے بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ آج بھی رو رہی ہے بلاول اور گیلانی میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے مگر زرداری تو وہی ہیں بلکہ وہی کے وہی ہیں۔ ایول جینئس
اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے
یا چھلکتی ہوئی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے
سنا ہے فردوس عمران خان کے دوستوں سے رابطے کر رہی ہیں۔ صدر زرداری کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور اس کے والد نے بھی تحریک انصاف اور عمران خان سے رابطے شروع کر دئیے ہیں۔
اب معلوم ہوا ہے کہ ریحام خان نے وفاداریاں تبدیل کرنے والوں اور والیوں کو ناپسند کیوں کیا تھا۔ اب مقابلہ عمران خان اور ریحام خان کی پسند و ناپسند کا ہے۔ ریحام خان نے عملی طور پر سیاسی معاملات میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ ایک دلچسپ بات انہوں نے بھی کی ہے کہ لاہور میرا سسرال ہے۔ وہ لاہور کے انتخابی حلقے میں باقاعدہ حصہ لینے والی ہیں۔ مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی نے جیل کو سسرال کہا تھا۔ ہمارا ایک من چلا دوست سسرال کو اسرائیل کی طرح ’’سسرائیل‘‘ کہا کرتا تھا۔ ایک دوست نے تو حد کر دی۔ علامہ اقبال کے ایک شعر میں اس طرح ترمیم کی
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
’’بحر سسرال‘‘ میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا کو بلاول کا ٹیوٹر مقرر کیا گیاہے کہ وہ اردو زبان سیکھے۔ شہلا بی بی جانتی ہیں کہ بلاول کو مہاجروں والی اردو نہ سکھائی جائے نہ سندھ والیوں اردو؟ بھٹو کی اردو اور بینظیر بھٹو کی اردو کو لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں۔ بلاول کی اردو ایسی ہونا چاہئے جس سے لوگ مزا لیں اور اس کی پیروڈی بھی کریں۔ شہلا رضا سیاست کی مقبولیت کے سارے رازوں سے واقف ہیں اور مجھے اچھا لگا ہے کہ شیری رحمان سے بلاول کو بچا لیا گیا ہے۔ بلاول سے میری ملاقات نہیں ہے مگر میری ملاقات شہلا رضا اور اس کے شوہر سے ہے۔ برادرم منور انجم کے گھر پر ملاقات سرسری سی تھی مگر ناقابل فراموش تھی۔ چند لمحوں کی ایک ہی ملاقات کئی ملاقاتوں پر بھاری ہوتی ہے اور کچھ لوگوں سے کئی ملاقاتوں میں ایک ہی ملاقات چلی جاتی ہے۔ بلاول کبھی رانا آفتاب سے ملے۔ ایسے لوگ پیپلز پارٹی میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی لوگ بھٹو اور بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے وارث ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بغیر پیپلز پارٹی لاوارث ہو گئی ہے۔ انہیں پیپلز پارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایسے لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024