سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے اکلوتے فرزند کی وفات کا سن کر دکھ ہوا۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ انسان ساری زندگی اولاد کے لئے مال اکٹھا کرتا ہے۔ لیکن بے اولادوں میں بھی مال کی ہوس دیکھی ہے لہٰذا اولاد تو بس ایک جواز بن جاتی ہے۔ مال و دولت اثاثے جائیدادیں امارت انسان کی کمزوری ہے خواہ صاحب اولاد ہو یا بے اولاد۔ البتہ ناجائز ذرائع سے اکٹھا کیا گیامال اس لمحہ بے وقعت ہو جاتاہے جس وقت اولاد ہی نہ رہے۔ شوکت عزیز نے اکلوتے بیٹے کو کینسر سے بچانے کے لئے مال پانی کی طرح بہایا ہو گا۔ بیٹے کے اعلیٰ سے اعلیٰ علاج کے لئے مال ہتھیلی میں لئے دنیا بھر کے معالجوں کے در پرگئے ہوں گے کہ کوئی سارا مال لے لے اور ان کے بیٹے کی زندگی بچا دے۔لیکن موت کے سامنے مال بے وقعت ثابت ہوا۔ موت جیت گئی اور مال ہار گیا۔یہ دنیا اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اس کے باوجود مال و زر کی ہوس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک لوٹ کر بھی پوچھتے ہیں کہ ان کا قصور کیا ہے ؟ ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی ؟ پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو فرزند کے صدمہ پر ان کے ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے۔عقلمندوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کےلئے بہت نشانیاں ہیں اگر وہ سمجھنا چاہیں۔ماضی کے اورموجودہ حکمرانوں کے لئے ملک کا لوٹا ہوا مال و زر اولاد کے لئے آزمائش ثابت ہو سکتا ہے۔شوکت عزیز وزارت عظمیٰ کے علاوہ اس ملک کے اسحاق ڈار بھی رہ چکے ہیں۔ قومی خزانہ کے استعمال کے حوالے سے وزیر خزانہ کی طاقت کااندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔وہ وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ سٹی بینک کی نائب صدارت بھی سنبھالے رہے۔انہوں نے سٹی بینک کو اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بہت سارے کنٹریکٹ لے کر دئے تھے۔وہ پارلیمانی نظام ہونے کے باوجود صدارتی نظام کے تحت محدود اختیارات کے ساتھ حکومت کرتے رہے۔مزید براں غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی امداد کے سہارے پر مضبوط ہونے والی معیشت کا کریڈٹ وہ بطور وزیرخزانہ لیتے رہے۔ان کی شہریت پر بھی کافی سوالات اٹھتے رہے کیونکہ مبینہ طور پر ان کے پاس امریکی پاسپورٹ ہے۔ اگر کوئی امریکی قومیت رکھے تو اسے اپنی پرانی قومیت چھوڑنا پڑتی ہے۔ کوئی امریکی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے اگر ان کے پاس امریکی شہریت ہے تو وہ پاکستان کے قانونی طور پر شہری نہیں اور وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ اسی بات پر چیف جسٹس افتخار چودھری کیس شروع کرنے لگے تھے مگر ان کو ایک ریفرنس کے ذریعے غیر فعال کر دیا گیا۔سابق وزیراعظم شوکت عزیز،مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، سیکریٹری (ق) لیگ سینیٹر مشاہد حسین سید اور سابق وزیر اطلاعات محمدعلی درانی کے خلاف مالی خزانے کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال اور حکومت کو نقصان پہنچانے پرریفرنس بھی دائرکیاتھا۔کرپشن کی غلاظت میں الا ما شا اللہ سب نے ہاتھ بھرے ہیں۔اللہ کی رسی دراز ضرور ہے لیکن اللہ کا وعدہ اٹل ہے کہ مال حرام اسی دنیا میں اپنا اثر دکھاتا ہے۔پرویزمشرف کی چھتری تلے لوگوں نے خوب کرپشن کی۔پیپلز پارٹی کے ادوار کرپشن کی شرمناک کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔اور نواز شریف کے ادوار کرپشن میں کسی سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہی پائے گئے ہیں۔مسلم لیگ ن میں پلس فارمولے کی حمایت کر نے والے قائد کی محبت میں نہیں بلکہ اپنی کرپشن کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ بیرون ملک رہنے کے سبب ہم بہت سے حقائق سے لا علم رہے۔پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لیکن گرفت کا وقت ضرور آتا ہے۔پاناما نے سب کو جکڑ کر رکھ دیا۔ بلا شبہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ غریب قوم کا مال کھانے والے اب کسی پتلی گلی سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ستر سال سے ملک و قوم کا مال ہڑپ کرنے والے سب نئے پرانے اپنی جان مال اولاد کی سزا اسی جہان میں بھگت کر گئے اورجائیں گے۔
٭٭٭٭٭