وہ آزادی کے ہیرو تھے مگر پاکستان کو قائم ہوتے نہ دیکھ سکے، پانچ اپریل 1946 کو ایک کیس میں دلائل پیش کرتے ہوئے ناگہانی موت سے ہمکنار ہو گئے، آسمان ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے۔ ان کی ولادت کا مہینہ بھی اپریل ہی ہے اور سن 1886۔ دن یکم اپریل کا۔ زندگی کے آخری لمحے تک وہ آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ رہے، علامہ اقبال سے ان کے قریبی تعلقات تھے، اور قائداعظم کے وہ معتمد رفیق‘ پنجاب میں تحریک پاکستان کے لئے ان کی اس قدر شاندار خدمات ہیں کہ ان کو گنوانے بیٹھیں تو ایک انسائیکلو پیڈیا مرتب ہو جائے۔
ہم نے اپنے قومی شعار کے عین مطابق اپنے ہیروز کو فراموش کر رکھا ہے‘ کیوں‘ ا س لئے کہ جس ملک کی خاطر ملک برکت علی ا ور دیگر مسلم لیگی اکابرین‘ کارکنان اور لیڈروں نے قربانیان دیں‘ اس ملک پر انگریز کے ٹوڈی‘ وفا شعار‘ کتے نہلانے والے جاگیر دار حاوی ہوتے چلے گئے، انہی عناصر کے ہاتھوں قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ایک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان سے ہروایا گیا‘ اس صدارتی الیکشن میں فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ جب قائد کی شب و روز کی غمگسار اور ساتھی بہن کو ہم اس حد تک بدسلوکی کا نشانہ بنائیں گے تو ملک برکت علی کو کون یاد رکھے گا۔ لاہور کی کوئی سڑک یا کوئی ادارہ ان کے نام سے موسوم نہیں۔ وہ ٹمپل روڈ پر 1925 سے وفات تک مقیم رہے، اس سڑک کانام ان کے نام پر رکھا گیا، پھر اسے بدل دیا گیا۔ اسکے بعد لٹن روڈ کو ان سے موسوم کیا گیا‘ اس کے ساتھ بھی یہی واردات ہوئی۔
ملک برکت علی وہ شخص ہے جو پنجاب اسمبلی میں 1937میں مسلم لیگ کی طرف سے منتخب ہو کر پہنچا‘ ان کے ساتھ ایک اور مسلم لیگی بھی منتخب ہوئے، نام تھا ان کا راجہ غضنفر علی خان مگر انہوں نے اسمبلی میں پہنچ کر یونینسٹوں میں شمولیت کر لی ، یوں ملک برکت علی اگلے دس سال تک اکلوتے مسلم لیگی کے طور پر پنجاب اسمبلی میں حق و صداقت کی آواز بلند کرتے رہے ، وہ 1946 میں دوبارہ منتخب ہوئے اور بلامقابلہ۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، پنجاب میں انگریز کے نمک خوار یونینسٹ، اکالی دل اور ایک ہندو اتحادکے ساتھ ملک کر راج کے مزے اڑا رہے تھے، ان سب کے درمیان مسلم لیگ کی اکلوتی آواز بلند کرنے کا اعزاز قدرت کی طرف سے ملک برکرت علی کو میسر آیا۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا کہ قدرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی۔
اگر ان کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت میری توجہ اپنے دادا کے یوم وفات کی طرف مبذول نہ کرواتے تو میں کہاں کا تیس مار خان مﺅرخ ہوں کہ ان کو یاد کرنے کی زحمت کرتا‘ میں ممنون ہوں ڈاکٹر صاحب کا جنہوں نے ایک مبسوط ای میل کے ذریعے مجھے ملک برکت علی کی عظیم الشان جدوجہد آزادی سے مطلع کیا۔
ملک برکت علی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول سے حاصل کی‘ پھر وہ ایف سی کالج میں داخل ہو گئے جہاں ان کے تعلیمی ریکارڈ کی بنا پر وظیفہ بھی ملا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر وہ اسی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے اوروہ بھی انگریزی زبان و ادب کے۔ پھر انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا اور کچھ عرصہ مجسٹریٹ کے طور پر سرکاری ملازمت کی مگر جلد ہی استعفی دینے پر مجبور ہو گئے۔ یہ دور بڑا ہنگامہ خیز تھا‘ پہلی جنگ عظیم نے مسلم نوجوانوں کی سوچ میں مدو جزر پیدا کر دیا تھا‘ جلیانوالہ باغ جیسے سانحوں نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اب آزادی کے سوا کوئی راستہ نہیں‘ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں ایک الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔ اس وقت تک ملک برکت علی آل انڈیا مسلم لیگ کے سرگرم لیڈروں میں شمار ہونے لگے۔ انہوں نے تمام سالانہ اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کی۔ جہاں قائداعظم بھی موجود ہوتے۔ ملک برکت علی نے بطور صحافی بھی خدمات انجام دیں اور وہ چند برسوں کے لئے انگریزی اخبار آبزرور کے ایڈیٹر مقرر ہو گئے۔ وہ 1914 -1918 کے درمیان اس اخبار سے وابستہ رہے مگر جلیانوالہ والا باغ کا خونخوار گورنر ایڈوائر ان سے سخت خفا ہوا‘ وہ ان کے اداریوں کی کاٹ برداشت نہ کر سکا۔ اور اس نے نادر شاہی حکم جاری کر دیا کہ جب تک ملک برکت علی کو اخبار کی ادارت سے برطرف نہیں کیا جاتا‘ اخبار چھاپنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اخبار کے مالکان نے گورنر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور اخبار کی اشاعت خود ہی بند کر دی‘ وہ اصولوں پر سمجھوتے کے لئے تیار نہ تھے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو ہمای آزادی کی جنگ کے گمنام ہیرو ہیں‘ اسی دور میں مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار کو بند کر دیا گیا تو ملک برکت علی نے اپنا اخبار نیشنل ٹائمز کے نام سے نکالا جس کے سرپرستوں میں علامہ اقبال کا نام سرفہرست تھا ۔ ملک برکت علی آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے بیس سال تک رکن رہے۔ اسی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظم کی رہنمائی میں قرارداد پاکستان کا مسودہ تیار کیا جسے 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں منظور کر لیا گیا۔ یہ جدوجہد آزادی کا کلائی میکس تھا۔ اب مسلمانان ہند ایک آزاد وطن کے لئے یکسو ہو گئے تھے، ہندو پریس نے بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کر دیا اور مسلمانوں کو علیحدگی پسند ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا‘ اس طرح جن لوگوں کے کانوں تک پاکستان کا لفظ نہیں بھی پہنچا تھا‘ وہ بھی لے کے رہیں گے پاکستان‘ بن کے رہے گا پاکستان کے نعرے لگانے لگے۔
1946 تک قیام پاکستان ایک حقیقت کے طور پر سامنے نظر آرہا تھا مگر ملک برکت علی کی زندگی نے وفا نہ کی اور قائد کا یہ وفا شعار ساتھی منزل کو چھونے سے قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ان کی بے وقت موت پر قائد کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں۔ انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور ان کی موت کو ملت اسلامہ ہند کے لئے عظیم نقصان قرار دیا۔
ہم اپنی تاریخ کو بھولتے جا رہے ہیں اور جو تاریخ لکھی جا رہی ہے وہ مسخ شدہ تصویر پیش کرتی ہے، یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔ میں اپنے بھائی اور اسوقت کے حکمران عرفان صدیقی سے درخواست کروں گا کہ جہاں انہوں نے ان گنت سرکاری اداروں کو یک جا کر دیا ہے‘ وہاں ان میں سے چند ایک کو قومی تاریخ کا انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے کا فریضہ بھی سونپیں‘ سرکاری گرانٹ پر پلنے والے یہ ادارے کچھ قومی خدمت بھی انجام دے پائیں تو عرفان صدیقی کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا اور آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے روشن کارناموں سے کسب فیض بھی کر سکیں گی۔ عرفان صدیقی کی سیاست اپنی جگہ مگر میں ان کی دانش ورانہ دیانت پر آنکھیں بند کرکے یقین رکھتا ہوں۔ قومیں وہ تباہ ہوتی ہیں جو دانش ورانہ بددیانتی کا مظاہرہ کریں‘ عرفان صدیقی کے ہوتے ہوئے دانش وروں کو بے راہ رو ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اور ہم ملک برکت علی جیسے گمنام ہیروز کے کارنامے مرتب کرکے انہیں نئی نسل کے لئے رول ماڈل کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔