علم و دانش کا آفتاب کسی اَور جہان کے افق پر طلوع ہونے کی خاطر دو برس قبل اس دنیا سے رخصت ہوگیا تاہم اس کی کرنیں یہاں اب بھی علم کے متلاشیوں اور تحقیق کے قدر دانوں کی راہیں روشن کررہی ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا ؎
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
جانے والوں میں سے کچھ کو سالوں اور بعض کو چند دہائیوں بعد فراموش کردیا جاتا ہے مگر کچھ شخصیات کی بقاء زمان و مکاں سے ماورا ہوتی ہے۔ وہ واقعی ناقابل فراموش ہوتے ہیں۔ جسٹس(ر)ڈاکٹر جاوید اقبال کا شمار ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ بظاہر 3اکتوبر 2015ء کو دنیا سے پردہ فرما گئے مگر مئے لالہ فام‘ زندہ رود‘ اپنا گریباں چاک‘ میراثِ قائداعظمؒ، نظریۂ پاکستان ‘خطباتِ اقبال: تشکیل و تفہیم اور اقبالیات پر دیگر کاموں کے طفیل زندۂ جاوید ہوچکے ہیں۔ کلامِ اقبالؒ میں ’’خطاب بہ جاوید‘‘ انہیں پہلے ہی شہرت دوام عطا کرچکا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’’بعض روحیں طاقتور ہوتی ہیں اور موت کے بعد بھی اپنا نشان چھوڑ جاتی ہیں۔‘‘ ان کا یہ قول خود انہی پر پوری طرح صادق آتا ہے۔علامہ محمد اقبالؒ نے انہیں نصیحت فرمائی تھی ؎
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اُنہوں نے اس پر من و عن عمل کیا اور جہد مسلسل سے اپنے لئے منفرد مقام و مرتبہ حاصل کیا۔ یہاں ایک واقعہ کا تذکرہ برمحل ہوگا۔ زندگی کے آخری برسوں میں حکیم الامت کی بینائی بہت کمزور ہوچکی تھی۔ ایک دن جاوید اقبال اپنے والد گرامی کے کمرے میں داخل ہوئے تاہم وہ انہیں پہچان نہ پائے۔ دریافت فرمایا: ’’کون ہے؟‘‘ جاوید اقبال نے جواب دیا: ’’جاوید‘‘۔اُنہوں نے خوش ہوکر فرمایا: ’’جاوید بن کر دکھائو تو جانیں۔‘‘ جسٹس(ر)ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والد کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کردیں اور حیاتِ جاوید پانے میں کامیاب رہے۔ اُنہوں نے قابل فخر اور قابل رشک زندگی بسر کی۔ پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش‘ ایران اور ترکی کے عوام بھی ان سے والہانہ لگائو رکھتے تھے اور ان کی دست بوسی کو باعثِ اعزاز تصور کرتے تھے۔ لوگ ان کی فہم و فراست سے مستفید ہونے کے متمنی رہتے تھے۔ ان کے حسن گفتار کے اسیر تھے اور ان سے ملاقات کے طلبگار رہتے تھے۔ شہرت اور قبولیت کا ایسا مرتبہ اکثر لوگوں کو خود پسندی اور جاہ طلبی کا شکار بنا دیتا ہے مگر آفرین ہے جسٹس(ر)ڈاکٹر جاوید اقبال پر کہ عجز و انکساری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ طبیعت میں جو سادگی اور عاجزی پائی جاتی تھی‘ وہ بدرجۂ اتم موجود رہی۔ رہبرِ پاکستان محترم مجید نظامی ان کا بے حد احترام کرتے تھے اور انہیں مرشد زادہ کہتے تھے۔
علامہ محمد اقبالؒ کے کلام کے وہ مفسر اعظم تھے‘ لہٰذا جب والد محترم کے نظریات و تصورات پر گفتگو کرتے تو علم و دانش کے دریا بہا دیتے۔ عشاقانِ اقبال ان کے سحر انگیز ملفوظات پر سر دھنتے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی قوم مفکر پاکستان اور بابائے قوم کے فکر و عمل سے فائدہ اٹھائے نہ کہ ان کے ایامِ ولادت و وفات منا کر محض ان کی یاد تازہ کرنے پر اکتفاکرلے۔ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق بھرپور کوشش کی کہ اس مملکت کو قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات و تصورات کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ وہ اپنے خطبات اور تحریروں کے ذریعے قوم کو اس ضمن میں اس کی ذمہ داری باور کراتے رہے۔ اس حوالے سے ان کے تاثرات کیا تھے‘ ان کا اندازہ لگانے کے لئے ان کی یاد داشتوں پر مبنی تنویر ظہور کی کتاب ’’یادیں‘‘ کے پیش لفظ کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میری زندگی اس کوشش میں گزری کہ قوم اور ملک کے حالات بہتر ہوجائیں لیکن بار بار مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں زندگی گزارنا ایک طرح سے پیدا ہوکر موت کا انتظار کرنا ہے۔ اس لئے انسانی زندگی بہتری کے لئے پیہم جدوجہد کی صورت میں گزارنی چاہیے۔‘‘
جسٹس(ر)ڈاکٹر جاوید اقبال نے تحریک پاکستان کے دوران سرگرم کردار ادا کیا۔ 23مارچ 1940ء کے جلسے میں بھی شرکت کی اور 1946ء کے فیصلہ کن انتخابات کے دوران گجرات اور منڈی بہائو الدین کے انتخابی حلقوں میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کے لئے دن رات کام کیا۔ آپ نے نہ صرف 16سال تک تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دیں بلکہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے انتہائی فعال رکن کے طور پر وطن عزیز کے اساسی نظریہ کی ترویج و اشاعت میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ ان کی دوسری برسی کے موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ان کے بلندیٔ درجات کے لئے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ایک محفل قرآن خوانی کا انعقاد کیا جس میں بیگم جسٹس(ر)ناصرہ جاوید اقبال‘ ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ چیئرمین تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد‘ مرحوم کے صاحبزادے ولید اقبال ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر شہریار احمد شیخ‘ بیگم مہناز رفیع اور پروفیسر ڈاکٹر پروین خان کے علاوہ خواتین و حضرات اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ قرآن خوانی کے اختتام پر مولانا محمد شفیع جوش نے جسٹس(ر)ڈاکٹر جاوید اقبال کے بلندیٔ درجات کے لئے دعا کرائی جس کے بعد مقررین نے ان کی قومی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب محمد رفیق تارڑ نے اپنے پیغام میں کہا کہ جسٹس(ر) ڈاکٹر جاوید اقبال پاکستان کی نظریاتی اساس کے بہت بڑے علمبردار تھے اور اہل پاکستان کو بالخصوص اور عالم اسلام کو بالعموم تاکید کرتے تھے کہ وہ جدید سائنسی علوم پر دسترس حاصل کریں۔ نظریۂ پاکستان کے فروغ اور کارکنان تحریک پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔
ندائے وطن /نعیم احمد