جمعہ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس منعقد ہوئے نئی مردم شماری کے مطابق صوبوں میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی نئی حدبندی کے بارے میں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان کی مطلوبہ تعداد عدم موجودگی کے باعث بل موخر ہو گیا۔ وزراء موجودہ صورت حال میں پریشان دکھائی دیئے۔ آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کے ایجنڈا آئٹم کی باری آئی تو وزیر قانون و انصاف زاہد حامد بھی ایوان میں موجود نہیںتھے۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی دیگر وزراء کو دیکھتے رہ گئے۔ حکومت کی طرف سے کوئی وزیر آئینی ترمیم بل کو زیر بحث لانے کے نہیں اٹھا۔ قومی اسمبلی کے ایجنڈا کا چوتھا آئٹم آئین میں متذکرہ ترمیمی بل تھا۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے بل زیرغور لانے کے لئے وفاقی وزیر قانون و انصاف کا نام پکارا وہ اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے ایوان میں موجود وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی طرف دیکھا اور ان سے بل پیش کرنے کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا کہ متعلقہ وزیر کو آنے دیں جس کے بعد ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے صورتحال بھانپ گئے اور آئینی ترمیم کا بل موخر کر دیا۔ پارلیمانی حلقوں میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی جانب سے آئینی ترمیم کی مخالفت پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے مسلم لیگی قیادت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے بات چیت کر گی اگر ان دو جماعتوں نے آئینی ترمیم کی حمایت کرنے کی یقین دہانی نہ کرائی تو آئینی ترمیم التوا ء میں پڑ جائے گی جمعہ کو قومی اسمبلی میں بیگم تہمینہ دولتانہ جنہیں عرف عام میں ’’مسلم لیگی شیرنی‘‘ کہا جاتا ہے نے کھل کر ملکی سیاسی صورت حال پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے جذبات کی ترجمانی کی اور کہا کہ ہمارا زیادہ وقت اپوزیشن بنچوں پر گذرا ہے انہوں نے اشارتاً کہا کہ ہم جلد اپوزیشن بنچوںپر بیٹھنے والے ہیں جب ہم اپوزیشن بنچوں پر ہوں گے تو لوگ ہماری اپوزیشن بھی دیکھ لیں گے۔ انہوں نے جمہورت کی سر بلندی کی بات کی اور کہا کہ ریاست کے اندر ریاست پائی جاتی بہر حال جمعہ کو بیگم تہمینہ دولتانہ کو جارحانہ خطاب پر خوب داد ملی۔ جمعہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے بلوچستان کی تین خواتین کی بچوں سمیت گرفتاری پر ایوان سے واک آئوٹ کیا ان کے واک آئوٹ کا ساتھ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکان نے دیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس کافی دیر تک پوائنٹ آرڈرز پر چلایا جاتا رہا۔ جمعہ کو پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی موضوع گفتگو بنی رہی اسلام آباد میں میاں نواز شریف کی اسلام آباد میں موجودگی سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے بیشتر ارکان کا مورال بلند دیکھا گیا بعض ارکان جو گو مگو کی صورت حال سے دوچار تھے کو قیادت کی اسلام آباد میں موجودگی سے سیاسی منظر واضح نظر آنے لگا ہے سردست مسلم لیگی ارکان اپنی جماعت کے پلیٹ فارم پر متحد نظر آرہے ہیں چوہدری نثار علی خان کی قومی اسمبلی میں موجودگی ان کے حوصلے بڑھانے کا باعث بن رہی ہے ارکان کی اکثریت ’’مفاہمت‘‘ کے حق میں نظر آتی ہے ارکان قومی اسمبلی وزیر اعظم محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی مفاہمانہ کوششوں کے بارے میں استفسار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایوان بالا میں ریاستی اداروں کے اختیارات پر بحث چل رہی ہے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس معاملہ پر تفصیل سے بحث کرانے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام ادارے اپنی سمت درست کریں جبکہ اداروں کے اختیارات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو کوئی راستہ دکھانا ہوگا، جب دیگر ادارے احتساب سے بچ رہے تھے، موجودہ حالات اجازت نہیں دیتے کہ صرف بیٹھ کر کسی معاملے پر بحث کی جائے۔ ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ ملک کے بعض مدارس میں انتہا پسندی کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباء بھی انتہا پسندی میں ملوث ہیں، تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو منشیات کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ تعلیمی نصاب کا جائزہ لینے کے لئے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے، ایوان بالا میں سینیٹر عتیق شیخ کی جانب سے طلباء کو انتہا پسند نظریات اور لٹریچر کی دستیابی کے ذرائع کی نشاندہی کی ضرورت اور اس حوالے سے مذہبی‘ سکیورٹی اور تعلیمی اداروں کے کردار پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے عثمان کاکڑ نے کہا کہ تعلیمی اداروں کے نصاب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ہمیں ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے۔ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے تعلیمی اداروں کا کردار اہم ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ قوم مختلف طبقوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ مخصوص فکر کو آگے بڑھانے کے لئے طلباء کی تربیت کی جاتی ہے۔ سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حالیہ واقعات اور حملوں میں تعلیم یافتہ نوجوان ملوث رہے ہیں۔ ہماری بنیاد انٹیلیکچوئل بددیانتی پر مبنی ہے۔ سینٹر پرویز رشید نے کہا کہ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے موقع پر جدید تعلیمی کی فراہمی کا کوئی نظام نہ تھا۔ لارڈ میکالے نے 33 سال لگا کر ایک تعلیمی نظام وضع کیا۔ ان کے اپنے مقاصد تھے‘ انگریز نے ایسا نظام تعلیم دیا جس نے انجینئرز‘ ڈاکٹرز‘ جدید علوم کے ماہرین پیدا کئے۔ ہمیں اپنے مقاصد طے کرنا ہوں گے پھر ان کے مطابق تعلیمی نظام وضع کرنا ہوگا۔ پاکستان کو فلاحی ریاست کی بجائے ہم نے جنگجو ریاست میں تبدیل کر دیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38