فارسی کے شاعر عُرفی نے اپنے رقیبوں کو کُتّے قرار دیتے ہُوئے خود کو تسلی دی تھی کہ....
عُرفی مَیندیش زغوغائے رقِیباں
آوازِ سگاں کم نہ کُند، رزقِ گدارا“
یعنی ”اے عُرفی! تو رقیبوں کے شورو غل کا غم نہ کر، اِس لئے کہ کُتّوں کے بھونکنے سے بھکاری کا رزق کم نہیں ہوتا“۔ جنابِ عُرفی نے رقیبوں کو ”کُتّے“ کہنے کے لئے خود کو ”بھکاری“ بیان کِیا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا ”فلسفہ¿ کُتیائی“
ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان مسلم لیگ ن کے نواب ثناءاللہ زہری نے عُرفی کا شعر نہ پڑھا ہو، اُنہوں نے کوئٹہ کی ایک تقریب میں جنابِ وزیراعظم کو اپنے سیاسی مخالفین کے شوروغل سے نہ گھبرانے کا مشورہ دیتے ہُوئے کہا کہ ”جنابِ وزیرعظم! کُتّے بھونکتے رہتے ہیں لیکن کارواں چلتے رہتے ہیں “۔ یہ سُن کر وزیراعظم صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ شاید وہ زہری صاحب کو داد دے رہے تھے۔ ایک لطیفہ/ واقعہ ہے کہ ایک پادری صاحب گرجا گھر میں"Sermon" (وعظ) دے رہے تھے۔ اُن کا ایک دوست بھی اُن کے ساتھ تھا۔ بعد ازاں پادری صاحب نے اُس سے کہا ”یار! آج تو عجیب قِسم کے گدھوں سے واسطہ پڑا، اُن پر میرے سَرمَن کا کوئی اثر ہی نہیں ہُوا “۔ تو دوست نے پادری صاحب سے کہا کہ اور تم اُن گدھوں کو ”میرے بھائیو! اور میرے بیٹو! کہہ کر مخاطب کر رہے تھے؟ علاّمہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ....
” مَن ندیدم کہ سگے، پیش سگِے سَر خم کرد!“
یعنی ”مَیں نے کسی کُتّے کو کسی کُتّے کے سامنے سرخم کرتے ہُوئے نہیں دیکھا“۔ دراصل کسی انسان سے فائدہ اٹھانے کے لئے اُس کے سامنے سر خم تو انسان ہی کرتے ہیں ۔ یہ انگریز قوم بھی خوب ہے کہ گھر/ دفتر کی رکھوالی کرنے والے کُتّے اور عام انسانوں کے حقوق اور طرزِ عمل کی جائزہ لینے والے (انسانوں کی) کمیٹی دونوں کو "Watchdog" کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ بلوچستان میں اِس طرح کی کوئی کمیٹی ہے یا نہیں؟ نواب ثناءاللہ زہری نے مخالفین کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ہماری (مسلم لیگ ن کی) حکومت نہ رہنے دی گئی تو وزیراعظم ہاﺅس کو تمہارے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے؟“ نواب صاحب نے اپنے ”فلسفہ¿ کُتیائی“ کی وضاحت نہیں کی۔ کیا وہ وزیراعظم ہاﺅس کا سامانِ آرائش و زیبائش اٹھا کر کوئٹہ لے جائیں گے؟
”استعفیٰ نہ منگو، مِٹّی پاﺅ!“
نواسہ¿ بھٹو نے کوٹلی (آزاد کشمیر) کے جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم نوازشریف کو کرپشن کا سردار اور (بھارتی وزیراعظم) مودی کا یار قرار دیتے ہُوئے اُن سے کہا کہ ”میاں صاحب اب آپ وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں!“ اگلے روز خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے سخت نوٹس لِیا اور چیئرمین بلاول کو ایک کرپٹ شخص (جنابِ آصف زرداری) کا بچّہ کے نام سے مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ ”اُس کے والد کے دَور میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا اور اگر اُس کا ایک بھی میگا سکینڈل سامنے آ جائے تو وہ بچّہ چُپ سادھ لے گا اور لاڑکانہ جا کر بیٹھ جائے گا، لہٰذا اُس بچے کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے“۔
خادمِ اعلیٰ کی اِس ”شیر بھبکی“ کے بعد بلاول بھٹو نے واقعی چُپ سادھ لی۔ یہ خادمِ اعلیٰ کی دھمکی تھی یا لندن میں اپنے طویل چیک اپ کے لئے براجمان جناب آصف زرداری کی ہدایت کہ اسلام آباد میں سینٹ میں قائدِ حزب اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن کے گھر جنابِ زرداری کی پارٹی کے قائدِین نے وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے پر اِصرار نہیں کِیا بلکہ وہ چیئرمین عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو بھی اپنے ڈَھب پر لے آئے۔ دراصل بلاول بھٹو کے لئے "Technical Hitch" ( فنی رکاوٹ) ہے۔ وہ یہ کہ پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی کے ارکان کا تعلق، (مخدوم امین فہیم کی) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی پی پی پی) سے ہے جس کے چیئرمین جناب آصف زرداری ہیں اور بلاول بھٹوپاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین ہیں۔ اب سیّد خورشید شاہ، بیرسٹر اعتزاز احسن اور اُن کے ساتھی جنابِ آصف زرداری کا حُکم مانیں یا اپنے "Newphew" (بھتیجے یا بھانجے) بلاول بھٹو کا۔
جناب آصف زرداری نے کمال دِکھایا ہے کہ اسلام آباد میں "Friendly or Non Friendly" اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ طلب کرنے کو متنازع بنا کر ”جمہوریت کے تسلسل“ میں اہم کردار ادا کِیا ہے، اپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتیں شاید کسی اتحاد میں نہ ڈھل سکیں۔ اب وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنے والی دو ہی جماعتیں ہیں۔ ایک حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور دوسری شیخ رشید احمد کی ”یک تارا “ پارٹی۔ عمران خان اور شیخ رشید احمد بالواسطہ جناب آصف زرداری کے جال میں پھنس گئے ہیں جو اُنہوں نے اپنے ہم مسلک و ہم راز میاں نواز شریف کے لئے بچھایا تھا۔
خادمِ اعلیٰ پنجاب تو اپنے برادرِ بزرگ کے تابعدار ہیں ۔ وہ اب عوامی جلسوں میں مائیک اور میزیں توڑتے ہُوئے جنابِ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے اعلانات نہیں کرتے۔ اُنہوں نے تو زرداری صاحب کے صاحبزادے کو تھوڑی سی ”تڑی“ لگائی تھی جو کامیاب رہی۔ دراصل قانونی ماہرین نے خادمِ اعلیٰ کو بتایا ہے کہ قومی دولت لُوٹنے اور اُسے ملک سے باہر لے جانے پر بھی کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ کسی بھی سابق اور سرونگ حکمران کو سڑکوں پر گھسیٹا جا سکے۔ تاریخ میں مغل بادشاہ اکبر کے دَور میں صِرف ایک کلاسیکی موسیقار ”اُستاد گھسیٹے خان“ کا ذکر ہے لیکن وہ محض ایک نام تھا۔ اُستاد گھسیٹے خان پر کسی کو بھی گھسیٹنے کا مقدمہ بنایا گیا تھا؟ مجھے نہیں معلوم۔
صدر زرداری کے دور میں میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ "Friendly Opposition" تھی اور اب صدر زرداری کی چیئرمین شپ میں اُن کی پارٹی۔ اسلام آباد میں مختلف اُلخیال اور مختلف اُلمقاصد 9 سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا دُکھ/ سُکھ ہے۔ اجلاس میں سٹریٹ پاور کے چیمپئن عمران خان کو بہت زیادہ نقصان ہُوا۔ وہ یکم مئی کو اپنے لاہور کے جلسے میں وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف عوام کے جذبات کو اوپر کی سطح تک لے گئے تھے اور اُنہیں رائے ونڈ کے گھیراﺅ پر آمادہ بھی کر رہے تھے لیکن ”متحدہ اپوزیشن“ میں اُن کا اور اُن کی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تو ”دھرو“ ہی ہوگیا۔ چیئرمین عمران خان کا روّیہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے بارے میں ہمیشہ "Non Friendly" رہا ہے۔ اُنہیں حزب اختلاف کی ضرورت مند سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ حیرت ہے کہ سندھ میں کرپشن کے خلاف لمبے چوڑے جلوس نکالنے والے شاہ محمود قریشی بھی ”زرداری اِزم“ سے مات کھا گئے۔ مفلوک اُلحال عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہُوئے ”شاعرِ سیاست“ نے پنجاب کی ایک غریب خاتون کی طرف سے وزیراعظم صاحب کے نام لِکھا ہے کہ ....
” چُنّی لے دے سوہنے رنگ دی
تے روٹی ڈنگ دو ڈنگ دی
مَیں منگن توں نئیں سنگدی
استعفیٰ مَیں نئیں منگدی“
سابق وزیراعظم شجاعت حسین جہاں بھی ہیں اُن کو میرا سلام پہنچے۔ اُن کی ”مِٹی پاﺅ پالیسی“ ایک بار پھر کامیاب ہوگئی ہے۔ شاید اب وہ عمران خان اور شیخ رشید احمد کو سمجھائیں کہ ”استعفیٰ نہ منگو مِٹّی پاﺅ!“۔