کسی نہ کسی طرح ہم پہنچ تو گئے ہیں 2016ءمیں۔ نواز شریف سے نجات پانے کیلئے داﺅپیچ مگر وہی استعمال کررہے ہیں جو 90ءکی دہائی میں مستعمل ہوا کرتے تھے۔ یہ حقیقت یاد رکھے بغیر کہ اس زمانے کے آئین میں 58(2B)نامی ایک شق بھی موجود تھی۔ اس شق کے تحت صدر کو کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو کسی بھی وقت گھر بھیجنے کا مکمل اختیار حاصل تھا۔غلام اسحاق خان نے اس شق کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے 6اگست 1990ءکے روز استعمال کیا۔
محترمہ اپنی حکومت کو بحال کروانے سپریم کورٹ پہنچیں تو ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ان کی فریاد ہمدردی تو کیا غور سے سننے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔ نئے انتخابات کروانا پڑے۔ ان انتخابات میں ”محب وطن“ جماعتوں کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کے ایک مخیر اور نیک نام بینکارکی مدد سے ہماری قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ہمہ وقت متحرک اداروں نے ان کے بہت سارے امیدواروں کو مالی معاونت بھی فراہم کی۔ IJIکو اکثریت حاصل ہوگئی۔ غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے وزیر اعظم مرحوم غلام مصطفےٰ جتوئی کوبنانا تھا مگر پنجاب کے رائے دہندگان نے ڈٹ کر ساتھ نواز شریف کا دیاتھا۔ انہیں وزیر اعظم کا حلف دلوانا ہی پڑا۔
نواز شریف ایوانِ وزیر اعظم پہنچے تو عراق کے صدام حسین نے کویت پر قبضہ کرلیا۔امریکہ نے کویت کو آزاد کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل بیگ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان کویت کو عراق سے آزاد کروانے کی کوششوں میں کوئی حصہ نے لے۔ انہیں یقین تھا کہ اگر امریکہ نے کویت سے محبت میں عراق سے پنگالیا تو یہ ملک اس کا ایک اور ویت نام بن جائے گا۔ نواز شریف مگر کسی نہ کسی طرح کویت کی حمایت پر آمادہ رہے۔ عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت کو بیگ صاحب کی ”امریکہ مخالف“ تقریریں بہت پسند آئیں۔ ان کی حمایت کا فائدہ اٹھاکر بیگ صاحب ”میرے عزیز ہم وطنو“ کے منصوبے بنارہے تھے کہ جون 1991ءمیں نواز شریف نے مرحوم آصف نواز جنجوعہ کو ان کا جانشین نامزد کردیا۔ یہ نامزدگی بیگ صاحب کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل ہوئی۔ یوں ”تاریخ“ بھی بن گئی اور بیگ صاحب کے پر بھی کاٹ دئیے گئے۔
مرحوم آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف تعینات ہونے سے پہلے کراچی کے کور کمانڈر رہے تھے۔ اپنی اس حیثیت میں وہ ایم کیو ایم کے حتمی اہداف کے بارے میں کئی تحفظات رکھتے تھے۔ اس جماعت کی جارحانہ پالیسیوں کو کراچی میں عمل پیرا ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ سندھ میں لہذا آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ منتخب حکومتیں ایسے آپریشن کی ”اجازت“ دینے کے بعد آپریشن والے علاقے کے ضمن میں اپنا اختیار کھودیتی ہیں۔ نواز شریف کو مگر یہ کمزوری ہضم نہ ہوپائی۔
اس دوران ایوان صدر میں بیٹھے غلام اسحاق خان کو یہ خدشات بھی لاحق ہوگئے کہ لاہور سے آیا ایک صنعت کار وزیر اعظم پاکستانی معیشت کو مناسب انداز میں Regulateنہیں کررہا۔ نواز شریف عسکری اور سول بیورو کریسی کے مقابلے میں تنہا رہ گئے۔ انہیں غلام اسحاق خان نے گھر بھیجا تو سپریم کورٹ نے نواز حکومت بحال کردی۔ عسکری قیادت مگر ڈٹ گئی۔ بالآخر ”کاکڑ فارمولا“ استعمال ہوا۔ غلام اسحاق خان اور نواز شریف نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دئیے۔ نئے انتخابات اور ان کے نتیجے میں ایک بار پھر محترمہ بے نظیر وزیر اعظم جنہوں نے سردار فاروق خان لغاری کو صدر منتخب کروایا تو بالآخر انہوں نے بھی 58(2B)کو اپنی ہی جماعت کی حکومت کے خلاف استعمال کردیا۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن گئے۔
وزیر اعظم بنتے ہی انہوں نے 58(2B) کو پیپلز پارٹی کی بھرپور معاونت سے ختم کردیا۔ اس کے بعد وہ اپنے پانچ سال اطمینان کے ساتھ مکمل کرسکتے تھے مگر کارگل ہوگیا جس کا انجام بالآخر 12اکتوبر1999ءکے مارشل لاءکی صورت برآمد ہوا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد ہمارے آئین میں 58(2B) اب موجود نہیں ہے۔ ہوتی بھی تو ایوان صدر میں بیٹھے آصف علی زرداری نے اسے اپنی ہی جماعت کی حکومت کے خلاف استعمال نہیں کرنا تھا۔ انہوں نے اپنی جماعت کی حکومت کے پانچ سال ہر طرح کے سمجھوتوں کے بعد مکمل کروائے۔ مئی 2013ءکے بعد جو شخص تیسری بار وزیر اعظم کے دفتر پہنچا ہے، اسے مگر ”سمجھوتوں“ کی عادت نہیں۔ ضدی آدمی ہیں۔ ان کے حالات نظر بظاہر ایک بار پھر مخدوش ہیں۔ ان سے فراغت مگر کیسے ہو؟
عمران خان اور طاہر القادری 126دن کے دھرنے کے ذریعے بھی ان سے استعفیٰ حاصل نہیں کر پائے تھے۔ اب دھرنا دئیے بغیر ہی وہ ان سے ایک بار پھر استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ دھرنے کے دنوں میں اگرچہ پیپلز پارٹی ان کے ساتھ نہیں تھی۔ اب یہ جماعت بھی نوازشریف کا استعفیٰ مانگ رہی ہے۔
پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے پر متفق تو ہوگئی ہیں مگر اس کے بعد کیا کرنا ہے اس کے بارے میں کھل کر بات نہیں ہورہی۔ محسوس ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی صرف نواز شریف سے استعفیٰ لے کر ”سسٹم“ کو بچانا چاہتی ہے۔ نئے انتخابات کے لئے فی الوقت تیار نہیں۔ تحریک انصاف کو استعفیٰ ہی نہیں قبل از وقت انتخابات بھی درکار ہیں تاکہ ان کے نتیجے میں عمران خان وزیر اعظم بن کر اس ملک کو تبدیلی کی راہ پر ڈال سکیں۔
منطقی ذہن کے ساتھ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے فوری اور حتمی اہداف پر غور کریں تو دونوں کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے ٹھوس اختلافات فی الفور نظر آجاتے ہیں۔ ان دونوں کومگر ایک Pageپر کیسے لایا جائے۔ یہ ہے اس لمحے کا سب سے بڑا سوال۔ اس سوال کا جواب مجھے شبہ ہے لال حویلی کے بقراط نے ڈھونڈ لیا ہے۔ میرے دوست بیرسٹر اعتزاز احسن اپنی جگہ ایک بہت بڑے مفکر بھی ہیں۔ انہیں اس ضمن میں کوئی جواب نہ مل پایا تو خورشید شاہ کو ساتھ لے کر لال حویلی میں حاضر ہوکر شیخ صاحب کی فکر سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مفکر لال حویلی کی ہدایت ونگہبانی میں بات کچھ آگے چلی ہے۔ شاید اس کے نتیجے میں بالآخر نواز شریف استعفیٰ دینے پر بھی مجبور ہوجائیں۔ یہ استعفیٰ آجانے کے بعد پیپلز پارٹی کو کیا ملے گا۔ اس سوال کا جواب مجھے تو نہیں مل پایا۔ چودھری اعتزاز احسن سے ملاقات کرنا ہوگی تاکہ ان کے توسط سے فکرِ شیخ رشید کی کوئی سن گن پاسکوں۔