پیپلز پارٹی المعروف زرداری پارٹی کے دوسرے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف المعروف رینٹل وزیراعظم نے کہا ہے ’’پی پی کے لوگ عمران کے پاس جا کے شفاف تو نہیں ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے یہ تو اتفاقاً ٹھیک کہا ہے کہ جو لوگ ’’صدر‘‘ زرداری یا رینٹل وزیراعظم کے ساتھ رہے ہوں اس میں نااہل وزیراعظم گیلانی کا عرصہ اقتدار، بے نظیر بھٹو کا عرصہ اقتدار بھی شامل کر لیں کہ وہ بھی صاف شفاف نہیں تھا تو پی پی کے لوگ اتنے خراب ہو چکے ہوں گے کہ وہ عمران کے پاس جا کے کتنے صاف ہو جائیں گے۔
عمران بھی اب اتنا اجلا کہاں رہا ہے۔ بلکہ بالکل نہیں رہا ہے۔ اب عمران کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ شیخ رشید عمران کے پاس نہیں گیا تھا بلکہ عمران شیخ رشید کے پاس گیا ہے تو عمران کب صاف شفاف رہا ہو گا۔ شیخ صاحب خود کہتے ہیں آٹھ بار وزیر رہا ہوں تو آپ اندازہ لگا لیں کہ وہ کیا ہوں گے جبکہ وہ ابھی تک اپنے آپ کو مڈل کلاس کہتے ہیں۔ مڈل کلاس تو عمران بھی خود کو کہتا ہے۔ چلیں مڈل کلاس تو تبدیل ہو گئی ہے۔ ارب پتی جہانگیر ترین اعظم سواتی وغیرہ وغیرہ اور ایچی سونیئن پرویز خٹک اور کے پی کے کے کئی وزیر شذیر؟ یہ لوگ پریشان ہیں کہ سیاست اور جمہوریت کا گند کب نکلے گا۔ لوٹا ازم سیاست سے کب نکلے گا۔
ایک اور بات بھی اتفاقاً ٹھیک کہہ دی ہے رینٹل وزیراعظم نے کہ یہ لوگ دوران اقتدار جاتے تو ان کی قدر و منزلت بھی ہوتی۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے کہ لوگ ہمیشہ وفاداریاں اقتدار کے لئے بدلتے ہیں۔ کبھی کسی نے اقتدار پارٹی سے اپوزیشن پارٹی میں جانے کی جرات نہیں کی۔ اس لئے وفاداریاں تبدیل کرنے والے کے لئے لوٹا کا لفظ ایجاد ہوا ہے۔ یہ سائنس صرف پاکستانی سیاست میں ہے۔ عمران کی پارٹی تحریک انصاف کے لئے یقینی بات ہو چکی ہے کہ وہ برسراقتدار آئے گی اور عمران خان وزیراعظم ہوں گے۔ کسی کو یقین ہو یا نہ ہو خود عمران خان کو یقین ہے اب ریحام خان اور جمائما خان کو بھی یقین ہے؟ شیخ رشید جہانگیر ترین پرویز خٹک اور دوسرے سب لوگوں کو یقین ہے۔ پی پی سے جانے والے اشرف سوہنا اور صمصام بخاری کو یقین کامل ہے کہ وہ اقتدار میں آئیں گے۔ ان کو وزیر شذیر بننے کا یقین بھی ہے۔ یہ لوگ ہر دور میں وزیر شذیر رہے ہیں؟ اشرف سوہنا ہے مگر اشرف اجلا نہیں ہے۔
عطا محمد مانیکا چودھری پرویز الٰہی کا وزیر تھا۔ پھر شہباز شریف کا وزیر بن گیا۔ پھر ن لیگ آئے گی تو وہ پھر وزیر شذیر ہو گا۔ اس کے لئے پان بھارت سے آتے ہیں۔ کراچی میں بھی پان پاندان وغیرہ وغیرہ رہتے ہیں جن میں سے بھارت کی بو آتی ہے۔ یہ بو بلکہ بدبو ان کے لے خوشبو سے بہتر ہوتی ہے۔
عمران کے پاس بھی دوسری پارٹیوں کے لوگ زیادہ وی آئی پی ہیں۔ یہاں بھی کارکنان مایوس اور منحوس سمجھے جاتے ہیں۔ نواز شریف کو مشرف پسند نہیں ہے مگر ان کے وزیر اور قریبی لوگ پسند ہیں۔ امیر مقام طارق عظیم اور مشرف کا وزیر قانون زاہد حامد پسند ہے۔ شہباز شریف کو چودھری پرویز الٰہی پسند نہیں ہے مگر اس کے وزیر شذیر پسند ہیں۔ ایک فارورڈ بلاک بھی ق لیگیوں کا بنایا گیا تھا جو پنجاب حکومت ن لیگ کے کام آیا تھا۔ اب عمران خان ’’صدر‘‘ زرداری شریف برادران میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اب عمران خان کو باری کا ذکر بار بار نہیں کرنا چاہئے کہ اب عمران بھی اس قطار میں شامل ہو کر اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔
پہلے انتظار اور صبر عمران میں ختم ہو چکا تھا۔ اب یہ انرجی کہیں سے اس کے وجود میں آ گئی ہے۔ کبھی کبھی یہ وجد کرنے لگتی ہے۔ طاہرالقادری بھی آ گیا ہے۔ کراچی میں بھی حالات اور خیالات دونوں خراب ہیں۔ شاید کسی کی باری پہلے ہی آ جائے۔
مجھے ریحام خان کی یہ بات پی پی کے لوگوں کی طرف سے عمران کو جائن کرنے کے حوالے سے بہت پسند آئی کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے لوگ اچھے نہیں ہوتے۔ اجلے تو بالکل نہیں ہوتے۔ ہمیں تو اجالے کی طرح اجلے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ریحام بھابھی یہ بتائے کہ جو پارٹی لیڈر ایسے گندے لوگوں کو قبول کرتے ہیں وصول کرتے ہیں اور پریس کانفرنس میں اپنی سیاسی فتوحات بنا کے پیش کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے۔ انہوں نے اپنے میاں یعنی شوہر صاحب کو نہیں سمجھایا۔ اس طرح عمران نے اپنی انقلابی مختلف اور پسندیدہ سیاست کا بیڑہ غرق کر لیا ہے۔ اب لوگ عمران کے لئے بھی ایسے ہی سوچتے ہیں جیسے نواز شریف اور آصف زرداری کے لئے سوچتے ہیں۔ ریحام خان میں جرات ہے کہ پارٹی لیڈرز کے بارے میں کچھ کہہ دیں گی۔ وہ اس کا اپنا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔
منظور وٹو کو نواز شریف نے لوٹا کا خطاب دیا تھا۔ یہ پہلے سیاسی آدمی تھے اور لوٹا ہونے کا اجر ملا کہ وہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ وٹو صاحب اور چودھری پرویز الٰہی شریف برادران کو ناپسند ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے بغیر وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔ چودھری شجاعت کم مدت کے لئے سہی مگر وزیراعظم بن گئے۔ اب ان کے نام کے ساتھ سابق وزیراعظم تو آتا ہے۔ جو تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں ان کے ساتھ بھی سابق وزیراعظم آئے گا۔ نواز شریف کو پریشانی ہے کہ پاکستان میں کوئی ان کی مرضی کے بغیر وزیراعلیٰ بن سکتا ہے۔ یہ امکان آگے چل کر بھی ہو سکتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت کوئی معرکہ آرائی کرتی تو یہ دعویٰ بھی ٹھیک تھا مگر؟ میں تو شہباز شریف کے لئے فکرمند ہوں۔ میرا خیال ہے پہلی بار انہیں بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف نے وزیراعظم بنایا تھا۔ ورنہ نواز شریف تو اس ایڈونچر کے حق میں نہیں تھے۔ اب میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنایا ہے جبکہ وہ وزیراعلیٰ پچھلے دور میں بن گئے تھے جب نواز شریف وزیراعظم نہ تھے۔ لگتا ایسے ہی تھا کہ وہ پورے کے پورے وزیراعظم ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے دوسری بار قائم علی شاہ کو وزیراعلیٰ سندھ شہباز شریف کی ضد میں بنایا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے زمانے کو ساتھ ملایا جائے تو شریف برادران کی طرح تیسری باری شاہ صاحب کی بھی بن جاتی ہے؟
رینٹل ویزراعظم پرویز اشرف نے ایک کام بھی زبردست کیا ہے کہ انہوں نے اور گیلانی نے فوج کے بارے میں ’’صدر‘‘ زرداری کی مخالفانہ باتوں کی مخالفت کی یہ کوئی چال ہو سکتی ہے ورنہ گیلانی اور راجہ میں اتنی جرات نہیں ہے۔ اب بھی راجہ صاحب پیپلز پارٹی میں موجیں اڑا رہے ہیں۔ وہ بلاول کے لئے خاص ملاقاتوں میں دوسرے سیاستدانوں سے بڑھ کر اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ بلاول کے ساتھ بیٹھے تھے۔ یہ وہی انداز ہے جب ’’صدر‘‘ زرداری کے ساتھ رینٹل وزیراعظم کے طور پر وہ مودبانہ بیٹھتے تھے۔ یہ پارلیمانی جمہوریت کا ’’کمال‘‘ ہے۔ چیف ایگزیکٹو وزیراعظم ہوتا ہے مگر؟ آپ کبھی ’’صدر‘‘ زرداری اور صدر ممنون حسین کا موازنہ کر کے دیکھیں۔ ن لیگ کے صدر صاحبان اور پیپلز پارٹی کے وزیراعظم صاحبان تقریباً ایک جیسے ہیں؟
آخر میں ریحام خان کا دوبارہ شکریہ کہ انہوں نے لوٹوں کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا کھل کر اظہار کیا۔ اب لوگ عمران خان سے بڑھ کر ان کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے لئے خواہش رکھتے ہیں کہ کچھ معلوم ہوتا رہے۔ وہ بات کریں کہ یہ باتیں وہی ہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں اور یہ باتیں عمران خان سیاست کے آغاز میں کرتے تھے؟ پچھلے دنوں برادر کالم نگار توفیق بٹ سیالکوٹ میں عمر ڈار کی طرف سے دی گئی افطاری میں شریک ہوا۔ یہ افطاری ریحام خان کے اعزاز میں دی گئی تھی۔ بٹ صاحب نے ریحام خان کی بہت تعریف کی۔ وہ بہت ملنسار ہیں اور خوشگوار مزاج رکھتی ہیں۔ عمران خان کی طرح ان سے ڈر نہیں لگتا۔ وہ ہر آدمی کے ساتھ بہت عزت مندی سے مل رہی تھیں۔ ایک بات یہ بتانے والی ہے کہ جس طرح وہ اپنی تصویروں میں نظر آتی ہیں ویسی ہیں نہیں؟ اب پیپلز پارٹی میں نااہلیوں گرم بازاریوں اور ’’زرداریوں‘‘ کی وجہ سے بہت لوگ عمران خان کی پناہ میں آئیں گے۔ کیا یہی ’’تبدیلی‘‘ کے آثار ہیں؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024