یہ روح فرسا خبر مجھے بہن سعیدہ قاضی نے سنائی، ان کا خاندان شہیدوں کے نام سے امر ہو گیا ہے، ٹرین کے المناک حادثے میں ان کا ایک کپتان بھانجا شہید ہو گیا اور ساتھ ہی ڈیڑھ درجن کے قریب فوجی افسرا ور جوان بھی اس حادثے کی نذر ہو گئے، بلا شبہہ وہ شہید ہیں اور شہید کے لئے بشارت ہے کہ وہ زندہ ہیں۔مگر ٹرین حادثہ قومی سانحہ ہے ۔ اس پر پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔
گزشتہ روز کے کالم کے حوالے سے ایچی سن کالج کے پروفیسر مسرور کیفی کا فون آ گیا، انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال مسولینی سے ملنے گئے تھے تو ان سے فرمائش کی گئی کہ حضور ﷺ کی تعلیمات سے ا ٓگاہ کریں، باقی باتوں کے ساتھ اقبال نے بتایا کہ حضور ﷺ نے ہدایت جاری کی تھی کہ مدینہ منورہ ایک حد سے تجاوز نہ کرنے پائے، اس کے بعد کہیں دور نیا شہر بسا لیا جائے،۔ مسولینی نے اس اقدام کو بے حد سراہا، کیفی صاحب کا کہنا ہے کہ انہوںنے یہ واقعہ روزگار فقیر میں پڑھا تھا۔
لاہور ہی سے ایک ماہنامے کے ایڈیٹر فتح اللہ خان نے بھی یہی کہا کہ اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی عطا کی ہے مگر ہم نے اسے بھلا دیا اور اب مسائل کے ہاتھوں سر پیٹ رہے ہیں۔
اسی کالم میں ایک نو زائیدہ بچی کا ذکر ہے جو سرطان کے پھوڑے کے ساتھ پیدا ہوئی ہے، ایک قاری ابن کریم نے لکھا ہے کہ ان کے حلقہ احباب میں ایک ڈاکٹر ہیںوقار منظور بسرا، ان کے ہاتھ میں کینسر کے مریضوںکے لئے بھی شفا ہے، بچی کے والدین یا رانا نذالرحمن رابطہ کے لئے اس فون پر رجوع کریں:0333-6706121
یہ ریڈیو پاکستان ہے۔۔ کا اعلان کرنے والے جناب سید مصطفی علی ہمدانی کے دانشور اور شاعر صاحب زادے سید صفدر ہمدانی نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ لاہور کو جدید بنانے کے چکر میں ہمیں اپنے تاریخی آثار مٹانے کی روش ترک کرناہو گی، ہمدانی صاحب نے کہیں سے سن لیا ہے کہ میٹرو اورنج ٹرین کے ٹریک کے لئے مو من پورہ کا قبرستان شہیدکر دیا جائے گا جہاں ایک سے ایک بڑھ کر نابغہ روزگار کی باقیات موجود ہیں ، ان میںناصر کاظمی، سیدعابد علی عابد،سید مصطفی علی ہمدانی،امانت علی خاں،مشیر کاظمی،قائد اعظم کو سلامی دینے والا فضائیہ کا پہلا شہید ، اور کس کس کا ذکر کریں کس کا نہ کریں، ایک کہکشاں ہے جو پردہ کر گئی ہے۔
چیف منسٹر پنجاب میاں شہباز شریف بزرگوں کی عزت کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، وہ براہ کرم ٹرین روٹ پر نظر ثانی فرمائیں اور اسلاف کی نشانیاں محفوظ رکھیں۔
اب آیئے معمول کے ایک سیاسی مسئلے کی جانب:پی ٹی آئی جیتنے والے گھوڑوں کی تلاش سے تھکی نہیں، کسی نے ہوائی چھوڑ دی ہے کہ اگلے الیکشن میں پنکچر نہیںلگیں گے اور یوں عمران جس کو ٹکٹ جاری کریں گے، وہ اسمبلیوں میں کودتا ہوا پہنچ جائے گا، یہ ہوائی چھوڑی گئی ہے یا ہوا چل نکلی ہے کہ پی ٹی آئی کو نئے لوگ مل گئے اور وہ چھوڑ کر کس کو آئے، پیپلزپارٹی کو، ان کے چھوڑنے کا اصل سبب زرداری اور بلاول کا تنازعہ ہو سکتا ہے، زرداری صاحب کا اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان ہو سکتا ہے، یا زرداری صاحب کا ملک سے فرار بھی ہوسکتا ہے۔ مگر پی ٹی آئی کی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ یہ سترہ سالہ پرانی پارٹی سمجھتی ہے کہ اسے نئی طاقت میسر آ گئی ہے ۔
اس طاقت کے بل پر عمران خان کے بھانجوں نے ایک ٹریفک سارجنٹ کو پھینٹی چاڑھ دی۔اسی طاقت کے بل پر عمران نے کہہ دیا کہ ہم نے دھاندلی کا الزام لگانا تھا، سو لگا دیا، اب اس کو ثابت کرنا کمیشن کا فرض بنتا ہے اور اب کسی دم فیصلہ آنے والا ہے، نجم سیٹھی نے پنکچر لگائے تھے یا نہیں مگر کمیشن کے فیصلے سے پی ٹی آئی ضرور پنکچر ہو جائے گی اور یہ پنکچر لگانے کا فریضہ شاید عمران کے بھانجے ہی انجام دیں جنہوں نے اپنے پٹھوںکی طاقت دکھا دی ہے،یہ تو بھانجے ہیں ، خود عمران کی رعونت کاحال کیا ہے، اس سے کرکٹ کے پرانے کھلاڑی بھی آگاہ ہیں اور پی ٹی آئی کے لیڈر اور کارکن بھی، اس پارٹی میں صرف عمران اپنا حکم چلانا چاہتا ہے ا ور اسی انداز کی وہ جمہوریت مانگتا ہے جس میں سارے فیصلے بنی گالہ سے صادر کئے جائیں، وہ زرداری اور بھٹو کی نقل کرنا چاہتا ہے جن کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا تھا، مگر بھٹو کی موت آئی تو احمد رضا قصوری کے باپ کو مروا دیاا ور زرداری کی ٹائیں ٹائیں فش ہوئی ہے تو انہوں نے فوج کو للکار دیا ۔اب دیکھئے عمران نے اپنے بھانجوںبھتیجوں کو جو کچھ سکھایا ہے، خود بھی یہی طرز عمل اختیار کرتا ہے تو وہ کس حشر سے دوچار ہو گا اور کب ہو گا۔ عمران کو ایک زعم یہ بھی ہے کہ وہ پٹھان ہے ۔ اور یہ زعم بڑا مہلک ہے۔ وہ اپنی طاقت دکھانے کے لئے کسی روز بھی بم کو لات مار سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کو جب پہلے پہل حکومت ملی اور پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد کبھی نہیں ملی یعنی ان اختیارات کے ساتھ نہیں ملی کہ پارٹی کے ورکر سرکاری دفتروںمیں دھونس جمایا کرتے تھے اور من مانے کام نکلوایا کرتے تھے۔ یہ عادت ایک بار پڑ جائے تو چھٹتی نہیں ہے کافر یہ منہ کو لگی ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے اس کے لئے اپنے مزاج میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور یہ تبدیلی بھٹو کے ہاتھوں ہی عمل میں آئی کہ ورکر کو پس پشت دھکیل دیا اور وڈیرے،صنعتکار اور جاگیر دار پارٹی پر حاوی ہو گئے، ان کا موڈیس آپرینڈی ذرا نرالا تھا، یہ کام نکلواتے تھے مگر دھونس جما کر نہیں بلکہ شراکت داری کی بنیاد پر، کہیں آدھا بانٹ لیا، کہیں دس فیصد پر گزارہ کر لیا اور آہستہ آہستہ تو یہ لانچوںا ور ایان علی کے فن کے ماہر ہو گئے۔اب پی ٹی آئی بھی اسی راہ پر چل نکلی ہے، وہ کارکن جس نے دھرنے دیئے، برگر بھی کھائے اور ماریں بھی کھائیں، وہ اب پارٹی میں کہیںنہیں ہے، ایک پوری نوجوان نسل تھی، جو شاید پڑھی لکھی بھی تھی، ہنر مند بھی تھی اور مستقبل کے سہانے خوابوں سے سرشار بھی تھی، اسے پرے دھکیل دیا گیا اور بھٹو کی پیروی میں پارٹی پر وڈیرے، جاگیر دار، ہوائی جہازوں کے مالک اور گدی نشین، پیر حاوی کر لئے گئے۔ یوتھ کہاں گئی، اسے حمزہ شہباز کے مقناطیس نے کھینچ لیا، مریم نواز کی لگن نے اپنے سحر میں لے لیا۔عمران اب کوشش بھی کرے تو یہ یوتھ اس کے ووٹ بنک کا حصہ نہیں بن سکتی، آئندہ الیکشن میں روایتی ووٹر ، مزارع،مرید، ہاری،اور شاختی کارڈ فروخت کرنے والے ہی کام آئیں گے۔
عمران سے ہر کسی نے کہاتھا کہ وہ سیاست کے لئے پیدا نہیں ہوا، وہ اپنے آپ کو قادر مطلق سمجھتا ہے جبکہ سیاست نام ہے لچک کا، داﺅ پیچ کا، ہٹ دھرمی کا نہیں، من مانی کا نہیں۔ مگر جو خصلت عمران کی گھٹی میں شامل نہیں ، وہ اب کیسے حلول کی جائے، ہو نہیں سکتی، اب بھی عمران کے لئے بہتر ہے کہ وہ پارٹی سے الگ ہو ۔ کوئی ایساکام کرے جہاں بس اسی کا حکم چلے، اب تو کاروبارا ور صنعت میں بھی ہنر مند ملازمین کی رائے کوسننا پڑتا ہے، عمران تو گھر نہ چلا سکا، بیوی بچوں کو ساتھ نہ رکھ سکا، وہ پارٹی کیا چلا پائے گا، دو سال سے واویلا مچا رکھا تھا کہ دھاندلی ہو گئی، یہ بھی کہتا تھا کہ ثبوت موجود ہیں لیکن اب کہتا ہے ثبوت کمشن تلاش کرے، گویا وہ اپنے الزامات سے پیچھا چھڑا نے کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ ایسا کمبل ہے جسے عمران چھوڑنا بھی چاہے تو یہ بھوت بن کر اس کا پیچھا کرے گا، عمران کی زبان پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔
مگر یہ بھانجوں کو جرات کیسے ہوئی کہ وہ ایک سرکاری اہل کار کے گلے پڑیں۔ کیا سرکار کو اس قدر ہی کمزور سمجھ رکھا ہے انہوں نے۔ کیا انہیں اہل کاروں کے پیچھے ریاست کی طاقت نظر نہیں آتی۔ کیاانہوں نے سرکاری اہل کاروں کو پارٹی یا خاندانی غلام سمجھ لیا۔ یہ زوال کی نشانی ہے، طاقت آپ کی شرافت اور صداقت میں ہوتی ہے، بازووں کے پٹھوں میں نہیں۔اور یہ نوجوان کچھ تو خیال کرتے کہ ان کا ذکر آئے گا تو عمران کا نام بھی آئے گا، انہوںنے عمران کی کیا عزت افزائی فرمائی۔عمران کو سیاست کی ذرا بھی سوجھ بوجھ ہو تو ا ن نوجوانوں پر چند پرچے پشاور میںبھی کٹوائے اور انہیں قرار واقعی سزا دے مگر وہ ایسا کیوں کرے گا، اس نے تو پارٹی ورکروں کو اس امر کی تربیت دی تھی کہ مجھے کچھ ہو گیا تو نواز شریف کو نہیں چھوڑنا، یہ تو انتقام کی سیاست کرنے کے عادی ہیں۔
رعونت، دھونس اگر قیادت میں ہو تو نچلی سطح پر بھی ہر کوئی رستم زمان بن بیٹھتا ہے ۔