اِس میں کوئی شک نہیں کہ، پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ”محسنِ پاکستان“ ہیں، لیکن کسی بھی حکومت نے انہیں صدر ِ پاکستان نہیں منتخب کرایا جب کہ بھارت کے معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو صدر منتخب کرایا گیا۔ ڈاکٹر عبداُلکلام کو دوسری بار بھی صدارت کی پیشکش کی گئی تھی لیکن وہ راضی نہیں ہُوئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے امریکہ کو بہت پُرخاش تھی اور پاکستان کے ایٹم بم سے بھی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کو ”اسلامی بم“ کا نام دِیا گیا اور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ”پاکستان دوسرے ملکوں خاص طور پر مسلمان ملکوں کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر دے گا“۔
امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اُس کے حوالے کر دے۔ 11اگست 2005ءکو اپنی سالگرہ کے دِن صدر جنرل پرویز مشرف نے جاپانی خبر رساں ایجنسی ”کیوڈو“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ”اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ شمالی کوریا نے ایٹم بم بنا لیا ہے تو بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اس میں کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ اِس لئے کہ ڈاکٹر صاحب ایٹم بم بنانا ہی نہیں جانتے“۔ بہرحال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ٹیلی ویژن پر آ کر قوم سے معافی مانگنا پڑی، اِس بات کی کہ انہوں نے شمالی کوریا کو صِرف سینیٹری فیوج اور اس کے ڈیزائن فراہم کئے تھے۔ مَیں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں کالم لِکھا تھا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے وہی سلوک کرنا چاہا جو اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے فاتح سندھ محمد بن قاسم سے کیا تھا۔ معافی مانگنے کے باوجود اہلِ پاکستان کے دِلوں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عِزت کم نہیں ہوئی تھی اِس لئے کہ امریکہ اُن کی جان لینا چاہتا تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے لئے اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک سمجھتا تھا۔ اسرائیل نے بھارت کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی تھی تو امریکہ اور اُس کے اتحادی مُلکوں نے اِس کا کوئی نوٹس نہیں لِیا تھا۔
ایٹمی دھماکہ 28 مئی 1998 کو وزیرِاعظم میاں نواز شریف کے دَور میں ہُوا۔ 12 اکتوبر 1999ءکو جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اُس کے بعد تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا صدرِ پاکستان منتخب ہونے کا چانس ہی نہیں تھا۔17جولائی 2012ءکو ڈاکٹر صاحب نے اپنی قیادت میں ”تحریکِ تحفظِ پاکستان“ بنالی اور اُس کو 11مئی 2013 ءکے عام انتخابات میں جھونک دِیا۔ تحریکِ تحفظ پاکستان کو بھاری تو کیا ہلکا مینڈیٹ بھی نہیں مِلا۔ ”محسنِ پاکستان“ کو یقین ہو گیا کہ قوم اُن کے احسان کو بھول گئی چنانچہ انہوں نے ستمبر 2013 کو تحریکِ تحفظِ پاکستان کو خود توڑ دِیا۔ اچھا کِیا یوں بھی انتخابی سیاست اُن کے بس کی بات نہیں ”محسن ِ پاکستان“ نے ایک اور بڑا دھماکا کرکے پوری قوم کو حیران و پریشان کر دیا۔ تحریکِ پاکستان کے کٹر مخالف بانی پاکستان حضرت قائدِاعظمؒ کے بقول ہندوﺅں کی معتصب جماعت کانگریس کے ”شو بوائے“ مولانا ابواُلکلام آزاد کی شان میں نثری قصیدہ لِکھ کر اپنے سارے کئے کرائے پر پانی پھَیر دِیا۔
مَیں ڈاکٹر صاحب کے اس عمل کو ”خود کُش حملہ“ اِس لئے نہیں کہتا کہ مَیں ہمیشہ ہی ڈاکٹر صاحب کی صحت و تندرستی کے لئے دُعا گو رہا ہُوں لیکن سوچتا ہوں کہ کیا تحریکِ پاکستان کے مخالفوں کو ہِیرو ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کسی دِیدہ یا نادیدہ قوت نے ”برین واشنگ کر دی ہے؟ مولانا ابواُلکلام آزاد کو ہندوﺅں کے باپُو گاندھی جی سے عقیدت کی وجہ سے کئی بار انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کرایا گیا اور مولانا آزاد نے بھی اپنے پِیرومُرشد سے وفاداری کا حق ادا کر دِیا۔ کانگریسی عُلما نے مولانا آزاد کو ”اِمام اُلہند“ قرار دِیا یہ کیسا ”امام اُلہند“ تھا جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے گاندھی جی کی اقتداءمیں ”نمازِ سیاست“ ادا کر نے کے لئے اگلی صف میں کھڑا ہوتا تھا؟۔
2 دسمبر کو ”امن کی آشا“ کے ترجمان اردو اخبار ”جنگ“ کے ادارتی صفحہ پر اپنے کالم ”سحر ہونے تک“ میں ”مولانا ابواُلکلام آزاد اور پاکستان“ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان لِکھتے ہیں۔ ”مولانا ابواُلکلام آزاد ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے نہایت اہم وسرگرم اور قابل لیڈر تھے۔ خزینہ عِلم و دانش تھے۔ کئی زبانوں پر عبور تھا اور پورا ہندوستان ان کی ذہانت کا قائل تھا۔ ہندوستان کے تمام سیاسی لیڈران، عُلماءاور دانشور اُن کی عقل و فراست کے قائل تھے“۔ حیرت ہے کہ مولانا آزاد کی اِن تمام خوبیوں کا عِلم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 77 سال 8 ماہ اور ایک دِن کی عُمر میں ہُوا۔ اس عُمر میں تو ہر انسان کو آخرت کی فِکر ہوتی ہے۔ فارسی کے نامور شاعر عُمرخیام نے دمِ رخصت کہا تھا....
”افسوس کہ حل نگشت، یک مُشکل ِما
رفتیم و ہزار حسرت اندر، دِل ما“
یعنی افسوس کہ (دُنیا میں) ہماری ایک بھی مُشکل حل نہیں ہُوئی جب یہاں سے چلے تو ہزاروں حسرتیں لے کر چلے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سا کامیاب و کامران انسان اور کون ہو گا؟ پھر کیا حسرت تھی کہ ”تحریکِ تحفظ پاکستان“ بنائی اور مثبت نتائج حاصل نہ ہونے پر خُود اُسے دفن بھی کر دِیا لیکن سیاست میں ناکام گڑھے مُردے اُکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ ہفت روزہ ”چٹان“ کے ایڈیٹر آغا شورش کاشمیری مرحوم کے مولانا ابواُلکلام آزاد سے انٹرویو کے بہانے ڈاکٹر عبدالقدیر خان، قائدِاعظمؒ اور تحریکِ پاکستان کے خلاف طعن وتشنیع کرکے، کِس کو خُوش کرنا چاہتے ہیں؟ خاص طور پر جب پاکستان کے مخالف اپنی کالی زبان اور نظرانِ بد سے پاکستان کو دہشت گردی میں مبتلا دیکھ کر بغلیں بجا رہے ہیں اور ”امام اُلہند“ کے کلاشنکوف بردار پیروکار پاکستان میں اپنی مرضی کے مطابق شریعت نافذ کرنے کے لئے کلمہ گو مسلمانوں کی جان بھی لینے سے دریغ نہیں کرتے۔ اُن کی شریعت کے معیار پر تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اُن کے اہلِ خانہ بھی پُورے نہیں اُترتے۔ ڈاکٹر خان نے، پاکستان کے موجودہ حالات کو بھی ”امام اُلہند“ کی پیش گوئی کے عین مطابق قرار دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان لِکھتے ہیں۔
”آغا شورش کاشمیری نے مولانا ابو اُلکلام آزاد سے سوال کیا کہ ”قیام ِ پاکستان میں بعض عُلماءبھی تو قائد ِاعظمؒ کے ساتھ ہیں“ تو جنابِ آزاد نے جواب دِیا عُلماءتو اکبرِ اعظم کے ساتھ بھی تھے جِس نے ”دِین اکبری“ ایجاد کیا تھا“ اب ”امام اُلہند“ کی رُوح سے کون پُوچھے کہ جِن عُلماءنے (سیاست میں) ”دِین گاندھی“ قبول کر لیا تھا، پھِر اُنہوں نے اور اُن کی صُلبی اور معنوی اولاد نے، پاکستان کو اپنا وطن کیوں بنایا؟ اور بذریعہ اتحادی سیاست، اقتدار کے مزے کیوں لُوٹے اُن کے بارے میں کیا فتویٰ ہے؟ ”امام اُلہند“ کی رحلت کے 55 سال اور 10ماہ بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اپنا سیاسی قِبلہ درست کرنے پر شاعرِ سیاست کہتے ہیں....
”ہے اُن کا ہر قول”قولِ فیصل“
نہ کوئی لغزش، نہ کوئی خامی
جناب ِ عبداُلقدِیر خاں نے،
”ابو اُلکلامی“ کو، دی سلامی“
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38