یہ کالم تو میرے لیے ظالم ہو گیا ہے۔ میں ’’صدر‘‘ زرداری کے اعلان جنگ سے باہر نکل ہی نہیں پا رہا۔ مجھے بلاول رہ رہ کر تڑپاتا ہے۔ پہلے تو میری خوشی میں اپنی خوشی ملائو کہ کرپشن کے لیے گرفتار ڈاکٹر عاصم کے لیے سب جیالے اور ’’صدر‘‘ زرداری بولا۔ اگر نہیں بولا تو صرف بلاول نہیں بولا۔ اس سوال کا جواب خورشید شاہ، قمرالزمان کائرہ اور سب جیالے دیں۔
’’صدر‘‘ زرداری کے لیے یہ سوال نہیں ہے۔ یہ سوال کہ انہوں نے اپنے لیے نعمت کی طرح اہلیہ شہید بے نظیر بھٹو کے لیے ایسا ایک بھی بیان دیا تھا؟۔ وہ جنرل راحیل شریف کے لیے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرنے لگے۔ تب منظور قادر کاکا پر کرپشن کی انتہا کے بعد چھاپہ پڑا تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنے پوتے کو پیار سے کاکا کہنا چھوڑ دیا ہے۔ لگتا ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری کے دونوں ہاتھوں میں سونے کی اینٹیں ہیں اور وہ اینٹیں بجا رہے ہیں جیسے تالی بجاتے ہیں۔
جناب آپ نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔ پھر لوگ کھپ گئے۔ کچھ تو مر کھپ گئے۔ اب ’’صدر‘‘ زرداری پیپلز پارٹی کھپے کا نعرہ لگائیں بلکہ یہ نعرہ اب بلاول بھٹو لگائیں۔ بلاول پیپلز پارٹی کے لیے آخری امید ہے۔ اس کے بعد کھپ کھپاڑا دیکھیں۔ پہلے پارٹی کو کرپشن فری بنائیں۔ ڈاکٹر عاصم اور ’’خاص‘‘ دوستوں کو نہ بچائیں۔ یہ آپ کو کبھی نہیں بچائیں گے۔ ڈاکٹر عاصم کی وعدہ معاف گواہ بننے کی خبر سے عبرت پکڑیں اور بلاول کو پارٹی بچانے دیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری آج کل کرپشن بچانے کے لیے چلہ کاٹیں۔ چھپ جائیں اور بلاول کو کام کرنے دیں۔ اس کے گرد کرپٹ ظالم اور پیپلز پارٹی دشمن لوگوں کو نکال باہر کریں۔ یہ کام خود بلاول کریں۔ چند نام تو مجھے یاد ہیں۔ ڈاکٹر قیوم سومرو کہ جن کے لیے کہا گیا کہ اس نے سنیٹر بننے کے علاوہ کھربوں کمائے ہیں۔ رحمن ملک کی دولت کے لیے ایان علی کا دوران تفتیش بیان کافی ہے۔ منظور قادر کاکا انور مجید شرجیل میمن شیری رحمن وغیرہ کے علاوہ بھی سینکڑوں خواتین و حضرات ہیں۔
سنا ہے رخسانہ بنگش کے ساتھ بھی کوئی کارروائی ہونے والی ہے؟ ایک کنفرم کرپٹ آدمی سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کرپشن کی بنیاد پر کارروائی کے لئے جیالے کیوں ’’خفا‘‘ ہوئے۔ یہ صاحب اپنے دور حکومت میں ’’ایم بی بی ایس‘‘ کے طور پر بدنام تھے، ’’میاں بیوی بچوں سمیت‘‘۔ ان کے دور حکومت میں لوگ چیختے چلاتے تھے۔ ان کی کرپشن لوٹ مار اور نااہلی کی باتیں کرتے تھے اور اب ان کو انہی الزامات کے لیے پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگ یعنی جیالے احتجاج کرنے لگتے ہیں۔ انہیں اپنا لیڈر اور ہیرو بنا لیتے ہیں۔ وہ بھی وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ اڈیالہ جیل میں انہوں نے اپنی گھڑی بیچ کر گھر کا خرچ چلایا اور اب کھرب پتی ہیں۔ ترک خاتون اول کے ہار کے لیے بہت افسردہ اور شرمندہ ہیں۔ ان کو گرفتار نہ کرنے کا حکم نواز شریف نے دیا ہے۔ جو نہیں دینا چاہئے تھا۔ اس طرح ہمارے اشرافیہ کے لوگ ایک دوسرے کو بچاتے رہے تو پھر ملک کیا بنے گا۔ ایک بار ان کو احتساب کے شکنجے میں آنے دینا چاہیے تو کام بنے گا۔ ان سب مشکوک لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے تو پھر ملک میں بہتری آئے گی۔ ملک کو ’’صدر‘‘ زرداری کے راجہ رینٹل وزیراعظم بھی مبارک ہوں۔ کرپشن سے محبت ’’صدر‘‘ زرداری کے خون میں رچی بسی ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اب صفائی ہو رہی ہے۔ میں کہتا ہوں صفایا ہونا چاہیے۔
باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ گیلانی صاحب نے کئی لوگوں سے پیسے لے کے انہیں ستارہ امتیاز دیا تھا۔ یہ قومی ایوارڈ کی اوقات ہے؟ پہلے سفارش اور اثرورسوخ سے یہ کام ہوتا تھا۔ اب اس کے لیے بھی رشوت اور کرپشن شروع ہو گئی ہے۔ آج کل رشوت اور سفارش ایک ہو گئی ہے۔ کرپشن کے کئی رنگ نکل آتے ہیں۔
کسی ایک سیاستدان افسران اور حکمران کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ جس کے لیے دیانت دار کا لفظ آسانی سے استعمال ہو سکے۔ جو دیانت دار نہیں ہے۔ وہ اہل بھی نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کرپٹ نہ تھے مگر ان کے ساتھی؟ ’’صدر‘‘ زرداری ان کے جانشین ہیں ۔ برادرم نصرت جاوید نے لکھا ہے کہ آصف زرداری کبھی کبھار فیصلے کرتے نظر آتے ہیں۔ پیر کے روز ان کا بیان ایک فیصلہ ہے۔ اس کے بارے میں فی الحال پنجابی کا ایک جملہ ’’اگے تیرے بھاگ لچھیے‘‘
کوئی تو کہے ’’صدر‘‘ زرداری سے کہ بلاول بھٹو کو موقع دیں کہ وہ پیپلز پارٹی کو واقعی پیپلز پارٹی بنائے۔ میں بلاول بھٹو کو بلاول بھٹو زرداری نہیں کہنا چاہتا۔ میری اس چاہت میں چھپی ہوئی چاہت کو سمجھئے اور دعا کیجئے
کوئی تو بتائے مجھے کہ ’’صدر‘‘ زرداری کے دوسرے بیان میں ان کا اصل مخاطب کون ہے؟ نواز شریف یا راحیل شریف؟ اصل میں ’’صدر‘ زرداری کو لفظ شریف سے ڈر لگتا ہے۔ بے چارے نواز شریف کا نام خواہ مخواہ انہوں نے لیا ہے۔ نواز شریف سیاستدانوں کے خلاف نہیں ہیں۔ جو سیاستدان ان کے خلاف نہیں ہیں وہ تو انہی کے اندر سے خلاف ہیں جن کے ’’صدر‘‘ زرداری باہر سے خلاف ہونے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کوشش کی بجائے خواہش کا لفظ استعمال کیا جائے تو میری بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی۔ نواز شریف اس کے بعد محتاط ہو گئے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری تو جلد بازی میں محتاط ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک محاورہ ہے۔ معذرت کے ساتھ پیش خدمت ہے ’’سنانا بیٹیوں کو کہنا بہو کو‘‘ یا پنجابی محاورہ ’’ڈگیا کھوتی توں تے غصہ کمہار تے‘‘ اس محاورے میں کسی کو کمہار نہیں کہا گیا اس کے لئے پیشگی وضاحت عرض ہے۔
بار بار کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم سابق وزیر تھے تو تحریک انصاف کے پیر نثار قاسم پھٹ پڑے کہ خیبرپختونخواہ میں حاضر سروس وزیر کو گرفتار کیا گیا۔ جیالوں کو یہ بھی غصہ ہے کہ ایک وزیر شذیر رانا مشہود کو بلیک میلر کہا گیا ہے بلیک میل تو ڈاکٹر عاصم کرے گا کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن گیا ہے سیاستدان بھی وعدہ عوام کے ساتھ انتخاب کے دنوں میں کرتے ہیں، اس کی حیثیت وعدہ معاف گواہ کی ہو تو بھی کچھ تو ہو جائے گا۔ کوئی سیاستدان عوام کی عدالت میں وعدہ معاف گواہ بنے۔
نواز شریف بھی اس گواہی کو قبول نہیں کریں گے۔ جنرل راحیل شریف تو بالکل نہیں کریں گے۔ جنرل صاحب کے ہم بہت قائل ہیں وہ دلیر ثابت قدم محب الوطن اور نہ جھکنے والے ہیں نہ وہ جنرل کیانی کی طرح کسی سیاستدان کی اس سازش کا شکار ہوں گے کہ ان کو ایکسٹینشن دے دی جائے۔ مگر ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وہ اپنا کام مکمل کریں اور مقررہ مدت میں مکمل کریں۔ اور پھر پاک فوج میں ان پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے۔ جو انہوں نے شروع کی ہیں۔ جنرل صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جسے کوئی بہتر کام شروع کرنے کا ہنر آتا ہو اسے وہ کام ختم کرنے کا ہنر بھی آنا چاہیے۔ لوگوں کو ایک امید لگ پڑی ہے۔ کوئی ایسی امید ہو جو کسی نوید کی طرح ہو۔
جیالے ان لوگوں کے خلاف ہوں جو ملک کے عوام کے اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہیں۔ ان کے پیچھے نہ لگ جائیں جنہیں ’’صدر‘‘ زرداری اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ میں پھر گزارش کر رہا ہوں کہ بلاول بھٹو کو کام کرنے دیں۔ اسے بلاول بھٹو زرداری نہ بنائیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024