امریکی تھنک ٹینک، مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں قائم پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر، مارون وائین بوم کا کہنا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان کی باگ ڈور مرکزی رہنماو¿ں سے نکل کر اب دوسری سطح کے رہنماو¿ں کے ہاتھ میں ہو گی۔
ڈاکٹر مارون وائین بوم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اپنا ڈیسک صاف کر رہی ہے، اور وہ اپنا ڈیسک مرکزی سیاسی شخصیات کی صفائی سے کر رہی ہے۔
ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں نہ صرف وہ اب نواز شریف خاندان کو سیاسی میدان سے نکالنا چاہتے ہیں بلکہ شہباز شریف کے خلاف بھی قائم مقدمہ زیر سماعت ہے، جس کی وجہ سے وہ نااہل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے خلاف بھی ایک مقدمہ قائم ہے، اور ا±نہیں کوئی تعجب نہیں ہو گا کہ وہ بھی نااہل قرار دیئے جائیں، اور لوگ نئے کھلاڑیوں کو میدان میں دیکھیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان میں کاروبارِ حکومت کون چلائے گا؟ جواب میں ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ ”ہم دونوں جماعتوں سے دوسرے درجے کی شخصیات کو دیکھیں گے۔ اس وقت مرکزی جماعتیں، عمران خان کی پی ٹی آئی ہے، اور نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) ہے۔ تو ہم مستقبل کے نئے لیڈروں کے درمیان زبردست مقابلہ دیکھیں گے۔
ڈاکٹر وائین بوم کا کہنا تھا کہ عین ممکن ہے ہم مسلم لیگ (ن) کو تقسیم ہوتا دیکھیں۔ اس وقت سب سے نمایاں شخصیت چودھری نثار کی ہے۔ وہ شریف حکومت کے دوست رہے ہیں اور ناقد بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ طویل عرصے تک کابینہ کے رکن رہے ہیں اور یقیناً وہ زیادہ معروف سیاست دانوں میں سے ہیں۔ ا±ن کی ایک اپنی سیاسی حمایت اور حیثیت بھی ہے، سو اگر میں کسی پر رقم لگاو¿ں گا تو وہ چودھری نثار ہونگے، جو کہ سب سے مضبوط حیثیت سے ابھریں گے۔ لیکن، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو متحد کر پائیں گے۔
جب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ بھی صفائی کی زد میں آئیں گے؟ تو جواب میں ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے، کیونکہ اس وقت پی پی پی ایک علاقائی قوت اور علاقائی کھلاڑی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ”ہاں وہ یہ دروازہ کھول تو سکتے ہیں۔ لیکن جیسا میں کہہ چکا ہوں‘ وہ بڑی حد تک سٹیج سے باہر ہیں۔ سو میرے خیال میں انہیں مزید دھکیلنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔“
پاکستان میں سیاست، بہت سی قیاس آرائیوں کا شکار ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اس بات پر توجہ دے رہے ہیں کہ شہباز شریف لندن پہنچے اور پھر فوراً ہی نواز شریف نے وطن واپس پہنچ کر عدالت میں حاضری دی، جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو پک رہا ہے۔ یقیناً کچھ پک رہا ہے لیکن اس کچی دیگ کے انتظار میں کہیں ملک کا مزید ستیاناس نہ ہو جائے۔ ستر سالہ تاریخ یہی سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اندر کھاتے جو بھی پک رہا ہوتا ہے۔ بے وفا اور غداری کا انجام بھگت کر جانا پڑتا ہے۔ یہ انا پرست، ضدی، خود پسند، متکبر انسان صرف اپنی پرستش چاہتا ہے، یہ انسان چاہتا ہے کہ اللہ کی بندگی کرے تو لوگ اسے ولی اللہ سمجھیں اور دنیا داری کرے تو لوگ اس کو صادق و امین سمجھیں۔ اپنے خول میں قید خود فریبی کا شکار، حرص، ہوس، لالچ کو کئی لبادے اوڑھا رکھے ہیں۔ چاہتا ہے دنیا اس کو لیڈر مانے، اسے نجات دہندہ تسلیم کرے۔ حساب کتاب ہو گا تو گھر کے ایک ملازم کا حساب دینا مشکل ہو جائے گا اور جس انسان پر کروڑوں انسانوں کے نان و نفقہ کا ذمہ ہو گا، اس کو حساب دینے میں کتنے برس لگیں گے؟ جب تک اندر کھاتے پکنے والی دیگ دھواں دیتی رہے گی عوام کا دم بھی خشک رہے گا۔