وزیر اعظم’’ ڈوگی‘‘۔۔۔!
سوچا اس پرسکون جزیرے کے پر سکون لوگوں سے ملنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا چاہئے لہذا (مقامی خاتون) انجلینا کے ہمراہ شہر کو چل دئے۔بارہ ہزار کی مقامی آبادی کے اس چھوٹے سے جزیرے کے لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ہماری عارضی رہائش کا بندوبست وینس آئلینڈ کے ساحل سمندر پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہے ۔پہاڑی سے نیچے تو آرام سے اتر آتے ہیں مگر چڑھائی میں دقت پیش آتی ہیں۔ شمالی امریکہ کے نواح میں ویسٹ انڈیز کے جزیروں کی آب و ہوا گرم ہے جبکہ شامیں بے حد دلکش ۔موسم گرما میں شدید گرمی ہو جاتی ہے البتہ سمندر کی ہوائیں پسینے کو بھی خوشبودار بنا دیتی ہیں۔ سورج کے سامنے ننھی سی بدلی آجائے تو بارش شروع ہو جاتی ہے۔آسمان ہر روز اور ہر شام کئی رنگ بدل لیتا ہے کہ زبان پر بے اختیار آجاتا ہے کہ ’’بدلتا ہے آسمان رنگ کیسے کیسے۔
انجلینا نے مقامی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں موسمی پیشگوئی کر تے ہوئے کہا وہ دیکھو اس طرف سے جو سیاہ بدلی آرہی ہے وہ برسے بغیر جانے والی نہیں۔ البتہ مخالف سمت سے نمودار ہونے والی سیاہ بدلی کے بارے میں پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ اس جانب سے سیاہ بدلی آرہی اور میں نے کپڑے دھو کر تمہارے ٹیرس پر ڈال رکھے ہیں ،انہیں اندر رکھ آئوں پھر شہر چلیں گے۔ہم اس دیسی طریقہ پیشگوئی پر ہنس دئے اور انجلینا کی پیشگوئی کو نظر انداز کرتے ہوئے چہل قدمی کے لئے نکل پڑے۔ابھی چند قدم ہی بڑھے تھے کہ موسلا دھار بارش ہو گئی اور ہم بھیگتے بھاگتے گھر پہنچے۔انجلینا پریشان تھی اور ہم حیران کہ اس کی پیشگوئی تو محکمہ موسمیات سے بھی زیادہ درست ثابت ہوئی۔اس نے بتایا کہ وہ چھتری لے کر ہمارے پیچھے آنے والی تھی ۔ہم نے کہا تمہیں اس طرف سے آنے والی سیاہ بدلی کا سو فیصد یقین ہے ،آخر کیوں ! بولی میں اس جزیرے میں پیدا ہوئی ہوں،ان بدلیوں اور سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہوئے مجھے پچپن برس بیت گئے ہیں۔شہر جانے کے لئے انجیلنا دوسرے روز آئی ،اس روز بہت گرمی تھی مگر چھائوں میں ہوائیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔شہر جانے کے لئے پہاڑی سے اترے،اطراف بندر بھاگ دوڑ رہے تھے لیکن یہاں کے اجنبیوں سے ڈرتے ہیں ،ناریل کے درختوں پر اچھل کود کرتے کبھی کبھار ہمارے اپارٹمنٹ کی طرف آنکلیں تو ذرا سا کھٹکا محسوس کرتے ہی رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔پہاڑی سے نیچے اترتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ مقام سے نیچے اترنا کتنا آسان ہے اور مقام پر واپس پہنچنا کتنا دشوار۔نیچے اترے اور مقامی ویگن پر بیٹھ گئے۔اندر بیٹھے تمام مسافروں نے انجیلنا کے گڈ مارننگ کا جواب دیا اور پھر سب (بروکن انگلش) ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں گپ شپ لگانے لگے جیسے یہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔ یہ سیاہ فام قوم خوش مزاج ہے۔ویگن میں آگے بیٹھے مسافر اٹھ کر پیچھے چلے گئے اور ہمارے لئے دو سیٹیں خالی کر دیں۔زیادہ تعلیم یافتہ نہیں مگر مہذب ہیں۔انجلینا نے ہمیں (گیسٹ ان ٹائون) کے طور پر متعارف کرایا۔ویگن مختلف دیہاتوں اور گھاٹیوں سے ہوتی ہوئی جزیرے کے(ڈائون ٹائون) یعنی اندرون شہر پہنچ گئی ۔ بیس منٹ کی واک میں ہم نے آئلینڈ کا اندرون شہر دیکھ لیا۔ اس جزیرے میں ایک تاریخی مقام بھی دیکھا ۔ امریکہ کے پہلے سیکرٹری آف ٹریری الکزینڈر ہملٹن Alexander Hamilton اس گھر میں پیدا ہوئے تھے ۔ امریکہ کے دس ڈالر کے نوٹ پر ان صاحب کی تصویر شائع ہوتی ہے۔ انگریز راج کے ماتحت ملکوں اور جزیروں کی کرنسی پر آج بھی ملکہ الزبتھ کی تصویر شائع ہوتی ہے کیوں کہ یہ غریب افریقی آزادی کے باوجود مکمل آزاد نہ ہو سکے۔ چھوٹے سے شہر کی سیر کے بعد واپسی کے لئے ویگن میں سوار ہو گئے۔ ڈرائیور ویگن بھرنے کے انتظار میں کھڑا تھا۔ اس روز بہت حبس تھا۔بدن پسینہ سے شرابور ہو رہا تھا۔ انجلینا کو ہماری فکر ہو رہی تھی کہ ہم امریکہ کے ٹھنڈے علاقوں سے آئے ہیں ،گرمی لگ رہی ہو گی۔ہم نے یہ کہہ کر تسلی دے دی کہ ہمارا بنیادی تعلق اس خطہ سے ہے جہاں اس جزیرے سے کئی گنا گرمی پڑتی ہے ۔ویگن میں موجود لوگ اجنبی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے آشنا تھے ۔
چھوٹے ٹائون کے کئی فوائد ہوتے ہیں۔ اگلی سیٹ پر بیٹھی ایک انتہائی صحتمند سیاہ فام خاتون اپنے پڑوسی جزیرہ سینٹ کیٹس کے وزٹ کی آپ بیتی سنا رہی تھی۔ مقامی لہجہ سمجھنا مشکل ہے بس یہی سمجھ آرہا تھا کہ ’’ڈوگی ڈوگی۔۔۔‘‘ نہ جانے کس ڈوگی کی بات ہو رہی تھی کہ ویگن میں سوار تمام مسافر ’’ڈوگی‘‘ پر برہم دکھائی دے رہے تھے۔ انجلینا سے سر گوشی میں پوچھا کہ کس ڈوگی کی بات ہو رہی ہے ۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ اپنے وزیر اعظم Douglas (ڈگلز) کی بات کر رہے ہیں ۔ سترہ سال سے ہم پر مسلط ہے ۔ہمارے پڑوسی جزیرے سینٹ کیٹس میں پیدا ہوا ہے ،اپنے آبائی جزیرے کا خیال رکھتا ہے مگر ہم وینس والوں کے ساتھ اس کا رویہ نا مناسب ہے۔ہم سینٹ کیٹس جائیں تو ہمارے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا ہے ۔ہم نے حیران ہوتے ہوئے کہا’پارلیمانی نظام میں ایک شخص سترہ سال سے حکمران ہے ؟ ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور سینٹ کیٹس جزیرے کے عوام اسے ہی ووٹ دیتے ہیں اور مسلسل تین بار اسی وزیر اعظم کی حکومت قائم ہے؟ ہم نے معصومیت سے کہا’’کوئی دھاندلی کا چکر چلتا ہے ‘‘۔ ’’ڈوگی‘‘ کے مخالفین کی اکثریت ویگن پر سوار تھی سوچا ہماری بات کی حمایت کی جائے گی مگر ایک مسافر نے کہا ’دھاندلی دنیا میں کہاں نہیں ہوتی ،یہاں بھی ہوتی ہے مگر اتنی دھاندلی نہیں ہو سکتی کہ سترہ برس سے ایک ہی شخص بھاری اکثریت لے کر وزیر اعظم بن جائے۔ہم نے پوچھا پھر تم لوگوںکا مسئلہ کیا ہے ؟ جواب ملا ہمیں اس کا بار بار کامیاب ہونا اچھا نہیں لگتا۔ہم نیا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ہم نے کہا ’’تمہارے رشتے دار باراک اوباما کی طرح ؟ سب نے قہقہہ لگایا ۔۔۔!آگے بیٹھی انتہائی صحتمند سیاہ فام خاتون نے کہا’’ ڈوگی مغرور ہے‘‘۔ ہم نے انجلینا کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا تم لوگ ’’گو ڈوگی گو‘‘ کی مہم شروع کیوں نہیں کرتے ؟انجلینا نے ہماری طرف حیرانی سے تکتے ہوئے کہا ’’اس کا کیا مطلب ہے ؟ اورہم نے اس کی طرف حیرانی سے تکتے ہوئے سوچا ’’ مادری زبان انگریزی اور’’گو ڈوگی گو‘‘ کا مفہوم نہیں آتا۔۔۔!