ان دنوں جمہوری نظام کی درستگی کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں۔ عمران اور قادری کے دھرنوں کے اثرات بہر حال مرتب ہوئے، مضر بھی اور مفید بھی۔یہ بات تو درست ہے کہ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت، کرپشن،اقربا نوازی اور نجانے کیا کیا علتیں پروان چڑھائی جا رہی ہیں۔نہ ہمارا لیکشن سسٹم ایسا ہے کہ اسے شفاف صاف کہاجا سکے، الیکشن کمیشن کا کردار بھی بڑی حد تک مشکوک ہے، کبھی ہمارے انتخابی نتائج کمپیوٹروں سے نکلے، کبھی انہیں کسی اور طرح سے انجینیئرڈ کیا گیا۔ کم از کم محترمہ بے نظیر بھٹو کا شکوہ یہی تھاْ۔
سب سے بڑی خرابی ہارس ٹریڈنگ کی صورت میں سامنے آئی، اس کی ابتدا الیکشن سے پہلے ہو جاتی ہے،ذات برادری، فرقے کے نام پر ووٹ خریدے جاتے ہیں، جیتنے والے امید واروں کو بڑی پارٹیاں بخوشی قبول کرتی ہیں جبکہ انہی کی سابقہ حکومت کو وہ ہر گالی سے نوازتی رہتی ہیں۔پارلیمنٹ اورا سمبلیاں بننے کے بعد حکومتوں کی تشکیل کے موقع پر بھی ایک میلہ سجتا ہے اور ارکان ا سمبلی کی مویشیوں کی طرح خریدو فروخت ہوتی ہے۔مہران اسکینڈل کی شہرت تو آج تک گونج رہی ہے جب حکومت نے مخصوص سیاسی پارٹی کو جتوانے کے لئے بنک کو سرمایہ فراہم کرنے کا حکم دیا،یہ پیسہ ضائع ہوا اور بنک کا بولو رام ہو گیا۔ اس مقدمے کو کئی بار سپریم کورٹ نے سنا مگر کوئی فیصلہ نہ ہو ا، نہ کسی مجرم کو سزا ہوئی کیونکہ اس پیسے سے فیض یاب ہونے والے طاقت ور تھے اور حکومت میں رہے۔گھوڑوں کی خریدو فروخت اس وقت بھی ہوتی ہے جب کسی حکومت کے خلاف قرارداد عدم اعتماد پیش ہوتی ہے، ایک مرتبہ میاںنواز شریف اپنے ارکان اسمبلی کو چھانگا مانگا لے گئے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپبے گھوڑے مالم جبہ میں چھپا لیئے، اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں بھی مصر کا بازار لگا اور ایک دعوے کے مطابق ابھی تک اس ہوٹل کو بل بھی پورا ادا نہیں کیا گیا۔
ملک کی پرانی سیاسی تاریخ بھی ہارس ٹریڈنگ سے آلودہ ہے، قائد اعظم کے مقابلے میں پنجاب کے مسلمان اکابرین نے کانگرس اور انگریز کے ٹوڈی یونینسٹ حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ پاکستان بننے کے بعد سیاسی وفاداریوں کی رسم کسی نے نہ نبھائی، قائد کی مسلم لیگ کے کئی ٹکڑے ہوئے، راتوں رات حکومت بدل جاتی تھی اور آواز لگتی تھی کہ ابھی ابھی خبر آئی ہے، خضر ہمارا بھائی ہے۔ ری پبلکن پارٹی تو رات کے اندھیرے میں بنی۔آئی جے آئی بھی اسی ہارس ٹریڈنگ کا ہی دوسرا نام تھا۔
آج ہماری سیاسی پارٹیاں سیاسی اور جمہوری روایات سے عاری ہیں، مفادات کے لئے پارٹیاں بدلنے کی عادت بدستور جاری ہے۔اور آفریں ہے ان سیاسی پارٹیوں کی جو ان کو سینے سے لگاتی ہیں اور انہیں ذرا بھر شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔بس جمہوریت کا صرف نام ہے، کسی سیاسی پارٹی میں انتخابات نہیں کروائے جاتے، ایک شخص کی من مانی چلتی ہے جو پارٹی کا سربراہ بن جاتا ہے، زیادہ سے زیادہ چند گنتی کے افراد کور کمیٹی کے نام پر تمام ا ختیارات استعمال کرتے ہیں،وزرا کسی کوجوابدہ نہیں۔پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وزیر اعظم اس طرف رخ ہی نہیں کرتے الا یہ کہ ملک میں کسی نے دھرنا دے رکھا ہو، آگے پیچھے وہ کسی کو دستیاب نہیںہوتے، اپوزیشن لیڈر مک مکا کے اصول پر چلتے ہیں، حکومت کو من مانی کرنے کا موقع دینا اپوزیشن نے اپنا جزو ایمان بنا لیا ہے، انہیں الیکٹوریٹ کے مفادات کا کوئی پاس لحاظ نہیں۔مہنگائی ہوتی رہے، من و امان کی خرابی سونامی بن جائے، اپوزیشن اس پر حکومت کی کوئی گرفت نہیںکرتی، اس لئے کہ حکومت سے ترقیاتی فنڈز کے نام پر مال بٹورنا ہوتا ہے۔
ان دنوں سینیٹ کے الیکشن سر پہ ہیں، بڑی پارٹیوں کو خدشہ ہے کہ ان کی کوئی ایک ا ٓدھ سیٹ ضائع نہ ہو جائے،ا س لئے انہیں شفافیت کا خیال آ گیا ہے، پچھلا الیکشن جو ہو گیا، سو ہو گیا،ا س پر عمران واویلا مچاتا رہ گیا، اس بے چارے کی کسی نے ایک نہیں سنی، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے دھمکیاں دیں کہ اگر ریٹرننگ افسروں پر اعتراضات کا سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ اعتراض کرنے والوں پر توہین عدالت لگا دیں گے۔ اصولی طور پر یہ ریٹرننگ افسر خواہ عدلیہ سے کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں ، جب وہ الیکشن ڈیوٹی پر آتے ہیں تو وہ انتظامی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں، ویسے ا گر ان کی حیثیت عدلیہ کی سی بھی کیوں نہ ہو، انہیں لا قانونیت کی اجازت تو کوئی آئین اور قانون نہیں دیتا۔انصاف کرناتو عدالتی ا ور انتظامی افسران کی بنیادی ذمے داری ہے۔
ماضی کا ماتم کرنے کا کیا فائدہ، کوئی سنتا تو ہے نہیں، سن لے تو دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔اب آگے کی فکر کرنی چاہئے مگر پتہ تو چلے کہ کون اپنے کس نقصان سے بچنے کے لئے شفافیت چاہتا ہے، مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ وزیر اعظم ایک سیٹ کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔لوگ تو بات کا بتنگڑ بنائیں گے۔جنرل ضیاالحق نے ارکان ا سمبلی سے ببانگ دہل کہا تھا کہ میںنے آپ کو کروڑوں کا کلہ فنڈ دیا ہے، اس سے آپ اپنے کلے مضبوط کریں اور اگلے الیکشن جیتیں ، آج تک وہی لوگ الیکشن جیت رہے ہیں ، ان کے کلے بہت پکے ہو گئے ہیں۔
اس عالم میں حکومت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے ا ورد عا بھی کہ وہ ہارس ٹریڈنگ روکنے میںکامیاب و کامران ٹھہرے!!یہ بھی ایک معجزہ ہو گا۔