نہال ہاشمی کے ایک ’’عدالتی‘‘ بیان پر طوفان کھڑا ہو گیا ہے مگر نہال ہاشمی کے دوسرے بیان پر کسی نے غور نہیں کیا۔ نہال ہاشمی نے اپنے چھوٹے وزیر بجلی و پانی عابد شیر علی کو مشورہ دیا ہے کہ بجلی نہیں آ رہی تو لوگوں کو موم بتیاں گفٹ کریں تاکہ ان کی سحری اور افطار رومانٹک ہو سکے۔
نہال ہاشمی جے آئی ٹی کو چیلنج کرتے ہوئے بھی رومانٹک موڈ میں ہوں گے۔ سیاست میں رومانس لانے والے ایک لیڈر بھٹو صاحب کو ہم نے تختہ دار پر لٹکا دیا۔ کچھ نہ کچھ رومانٹک تو یوسف رضا گیلانی بھی تھے۔ عدالت نے انہیں گھر بھیج دیا اور صدر زرداری نے نااہل وزیراعظم کو الوداع کیا۔
وزرائے اعظم کے حوالے سے ہماری سیاسی تاریخ اچھی نہیں ہے۔ ایک لیڈر جو واقعی وزیراعظم لگتا تھا عبرتناک انجام سے دوچار ہوا۔ ہماے ملک میں کسی صدر (فوجی اور غیر فوجی) کو اب تک چیلنج نہیں کیا گیا۔ کئی فوجی صدر منتخب صدر کی مدتِ اقتدار سے بہت زیادہ عرصہ ایوان صدر میں رہے۔
پارلیمانی جمہوری نظام میں ایک ہی طاقتور صدر تھے اور وہ صدر آصف زرداری ہیں۔ اس بات پر غور کریں کہ صدر زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا۔ اس کے بعد پرویز اشرف کو وزیراعظم بنایا۔ وہ بھی دوست ہیں اور وفا والے آدمی ہیں۔ مگر ن لیگ کے وزیراعظم نواز شریف نے صدر کا انتخاب کیا۔ صدر رفیق تارڑ اور صدر ممنون حسین منصب اور عہدے کی بھی ایک حیثیت ہے مگر اصل حیثیت انسان کی ہوتی ہے۔
مسلم لیگ ن میں تو وہی آدمی وزیراعظم بنتا ہے جس کے نام کے پہلے حرف سے سیاسی پارٹی کا نام شروع ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس مسلم لیگ کو ن لیگ کہتے ہیں۔ ن سے مراد نواز شریف ہے۔ اسے شریف لیگ کہا جائے تو زیادہ موزوں ہے۔ صدر اور وزیراعظم بننے اور بنانے میں بہت فرق ہے؟
ہم نے اس سے پہلے نہال ہاشمی کا نام بھی نہیں سنا تھا اب تو ہر طرف نہال ہاشمی کا شور ہے۔ یہ نام سن سن کر لوگ بے چارے ’’نہال‘‘ ہو گئے ہیں اور اس بارے میں امید رکھتے ہیں کہ اسے سزا ملے گی۔ سیاسی وفاداری میں ایک سیاسی ورکر کو کچھ تو خیال رکھنا چاہئے ایسا بیان دینے کی ضرورت ہاشمی صاحب کو کیوں پڑی؟ نہال ہاشمی نے واضح طور پر جو باتیں کیں وہ میرے جیسے آدمی کی سمجھ میں بھی آ گئیں کہ عدالت پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ نہال ہاشمی کی عدالت سے کیا ناراضگی تھی۔ اسے یہ بیان دینے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی۔ کیا اسی دن کے لئے اور اسی کام کے لئے کراچی کے آدمی کو پنجاب سے سنیٹر بنوایا گیا۔ سینٹ کی رکنیت کے لئے یہ حرکت کسی طرح بھی مستحسن نہیں ہے۔ نہال ہاشمی بیچارے کو کیا پتہ تھا کہ حکومتی پارٹی نے اپنا دامن بچانے کے لئے ان سے سینٹ کی رکنیت سے استعفیٰ لے لیا اور پارٹی رکنیت بھی معطل کردی۔ اس سے پہلے بے چارے پرویز رشید کے ساتھ بھی یہ ہو چکا ہے۔ مشاہد اللہ خان بھی بہت فرماں بردار بنتے تھے، اس واقعے کے بعد ان ’’بہادر‘‘ باسی ملازمین کو چپ کیوں لگ جاتی ہے۔ پرویز رشید کا کہیں پتہ نہیں جبکہ انہیں سب آسودگی میسر ہے۔ مریم اورنگزیب بہرحال پرویز رشید سے بہتر وزیر اطلاعات ہیں۔ یہ لوگ کوئی بات کرنے کے قابل کیوں نہیں رہتے۔ نواز شریف نے ایسے بہت سے لوگ رکھے ہوئے ہیں۔
نہال ہاشمی کے اندر کوئی اور بول رہا ہے، یہ بات ڈاکٹر بابر اعوان نے بہت واضح انداز میں کہی ہے۔ بہت لوگوں کا خیال یہی ہے ۔ ڈاکٹر بابر اعوان سیاست کی بات بڑے تخلیقی انداز میں کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سب عوامی نمائندے بات کریں تو پتہ چلے کہ انہیں بات کرنا آتی ہے۔
نہال ہاشمی بات کرتے ہوئے بڑے جوش میں تھے۔ وہ پہلے کبھی اس طرح نہیں بولے۔ میرا خیال ہے کہ بڑی پریکٹس کے بعد کسی کی باتیں انہوں نے اپنی بات بناکے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی مگر اس کامیابی میں بڑی ناکامی چھپی ہوئی ہے۔ ہاشمی صاحب کا بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے ابھی اور نقصان ہونے والا ہے۔
اس کے ساتھ ہر ٹی وی چینل پر ہاشمی صاحب چھائے ہوئے ہیں۔ ایک ہی پیشی کے بعد وہ گھبرا گئے اور اپنی بات الٹ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے یہ بات کسی ادارے کے خلاف نہیں کی تو وہ یہ بتا دیں کہ کس کے بچوں کو عبرت کا نشان بنانا چاہتے تھے۔ وہ اتنے غصے میں کیوں تھے، یہ غصہ کس کے خلاف تھا، کوئی توتھا؟
نہال ہاشمی اگر بہادر آدمی اور سچے آدمی ہیں تو کھل کر بتائیں کہ یہ بات انہوں نے کیوں کی، کس کے کہنے پر کی، کس کے خلاف کی، ورنہ اب عدالت میں تو معاملہ چلے گا۔ اشارے کس کی طرف جارہے ہیں۔ سب لوگوں کو دل ہی دل میں پتہ چل گیا ہے۔ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ کون فیصلہ کرے گا، فیصلہ کرنے والوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاست میں اس طرح کی دلیری کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے۔ وہ بات کبھی سامنے آسکے گی؟
آخر میں ایک جملہ لکھ رہا ہوں جو مجھے پسند آیا ہے۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ احتساب کے لئے نواز شریف جیسا دل چاہئے، دل والے وزیراعظم کوچاہئے کہ وہ عدالت سے پورا تعاون کریں۔ سپریم کورٹ کے جج کو یہ نہ کہنا پڑے کہ نہال ہاشمی کے اندرکوئی اور بول رہا ہے۔