میاں خورشید محمود قصوری کے ساتھ نیازمندی کا سلسلہ 70ء کی دہائی سے چل رہا ہے جب فین روڈ پر ان کے والد میاں محمود علی قصوری کے ساتھ صحافتی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلہ میں نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ان چار دہائیوں کے تعلق خاطر کی ایک الگ داستان ہے اور ہم اس تعلقِ خاطر کی پاسداری ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔ دو روز قبل انہوں نے پاکستان فورم کی نشست کے ساتھ افطار ڈنر کا بھی اہتمام کر رکھا تھا۔ اس نشست کا احوال تو اگلے کالم میں بیان کروں گا مگر اس نشست میں مجھے آپا مہ ناز رفیع کی خود نوشت ’’مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں‘‘ کا پرخلوص تحفہ انہی کے ہاتھوں مل گیا۔ یہ کتاب درحقیقت ایک دردمند پاکستانی سیاسی ورکر کی مرتب کردہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے جس کے ایک ہی نشست میں مطالعہ کا موقع بھی مجھے میاں خورشید محمود قصوری کے افطار ڈنر نے فراہم کیا۔ میاں صاحب نے دسترخوان پر لذتِ کام و دہن کی ہر وہ چیز سجا رکھی تھی جس سے میرے لئے پرہیز کا فتویٰ میرے معالجین نے صادر کر رکھا ہے مگر لذت کام و دہن کی اشتہاء کے ساتھ ساتھ میاں صاحب کا پرخلوص اصرار، ہاتھ نہ رک سکے اور پالک سے تیار کرائے گئے پکوڑے بھی چٹ کر گئے۔ بس گھر پہنچنے کی دیر تھی، معدے نے ایسا جواب دیا کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جو انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتی ہے۔ بس سانس کی ایک ڈوری کا ہی تو بندھن ہے۔ قدرت نے اس بندھن کو جب تک جوڑے رکھنا ہوتا ہے وہی انسان کی اوقات کا دورانیہ ہے مگر کروفر والا انسان اکثر اپنی اس اوقات سے یہ تصور کرکے باہر جھانکتا ہے کہ اس کی کس نے پکڑ کرنی ہے۔ اگر میاںمحمد بخش کی یہ تلقین پیش نظر رہے تو انسان کو اپنی اوقات سے باہر نکلنے کا کبھی خیال نہ آئے
لوئے لوئے بھر لے مشکاں جے تدھ بھانڈہ بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
زندگی کی شام ہوتے بھلا کوئی دیر لگتی ہے؟ دو ماہ قبل بھی اس شام کے سائے کے منڈلاتے نظر آئے تھے جب معدے کا درد جگر اور دل تک آن پہنچا اور پی آئی سی کی نامعلوم راہداریوں میں لے آیا اور اب دو روز قبل اس درد نے ایسا لاچار کیا کہ بے وقعت انسان کی اوقات یاد آ گئی
آئو اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
بس خدا کی یاد نے ہی بے سدھ خاکی بُت میں زندگی کی رمق برقرار رکھی۔ طبیعت اتنی نڈھال ہوئی کہ اگلے روز آفس آنا محال ہو گیا۔ کچھ طبیعت سنبھلی تو مہ ناز آپا کی کتاب ہاتھ میں تھام لی۔ ان کا اپنائیت سے معمور شکوہ بھی پیش نظر تھا کہ یحیٰی صاحب بھی اکثر آپ کو یاد کرتے ہیں، آپ آتے ہی نہیں ہیں۔ ’’ارے آپ نے تو چوبرجی پارک سے اللہ میاں کے پچھواڑے ڈیفنس میں اپنے ڈیرے لگا لئے ہیں، وہاں جست بھر کے تو نہیں آیا جا سکتا‘‘ میرے دل میں یہ جواب سوجھا مگر اس کا اظہار نہ کر پایا۔ ان سے تعلق خاطر ہی ایسا ہے کہ کسی شکوہ جواب شکوہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ میں مہ ناز آپا کو ہمیشہ بھابی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں اور اس لفظ کی ادائیگی کی تاثیر روح تک پہنچ جاتی ہے۔ پی این اے کی تحریک سے آج پی ٹی آئی کے جلو میں ان کے سیاسی سفر تک کے سارے مراحل کا میں نے خود مشاہدہ کیا ہوا ہے اس لئے میں ان کے دردمند ، سچے اور مخلص سیاسی کارکن ہونے کی گواہی دے سکتا ہوں۔ ان کی خود نوشت کے ورق ورق میں بھی اسی خلوص کی جھلکیاں امڈی پڑی نظر آتی ہیں۔ 204صفحات پر محیط اس کتاب کے ایک ہی نشست میں مطالعہ کا موقع تو مجھے میاں خورشید محمود قصوری کے افطار ڈنر نے فراہم کیا اس لئے میں اس حوالے سے بھی ان کا مشکور رہوں گا۔ اس کتاب کے حرف حرف کی سچائی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اس کا دیباچہ امام صحافت مجید نظام مرحوم اور فلیپ ایک سچے کھرے سیاستدان ائر مارشل (ر) اصغر خاں نے لکھا ہے۔ مہ ناز آپا کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ آپ اس کتاب کا مطالعہ ہی کر لیں گے تو یہی میری حوصلہ افزائی ہو گی۔ جبکہ میرا ہر سیاسی کارکن کو یہ مشورہ ہے کہ انہوں نے بامقصد اور پائیدار سیاست کرنی ہے تو وہ مہ ناز آپا کی خود نوشت کو حرزِ جاں بنا لیںکہ یہ آرٹ اور سیاست کے امتزاج میں گندھی ہوئی ایک مخلص سیاسی کارکن کی داستانِ حیات ہے جس میں بظاہر تو قد آور مگر فی الحقیقت بونے سیاسی جانوروں کی اصل حقیقت کھول کر بیان کی گئی ہے۔ مجھے مہ ناز آپا کے ٹی وی آرٹسٹ کے عروج والے دور میں کارزارِ سیاست میں کودنے کا تو علم تھا مگر اس پس منظر کا علم نہیں تھا کہ ان کے والد مرحوم چودھری محمد رفیع نے بھی یہی کارنامہ سرانجام دیا ہوا تھا جو برصغیر کے معروف فلم ساز و ڈائریکٹر دیوکی بوس کی فلم کمپنی سے وابستگی اور ان کی فلموں کی ڈائریکشن کے بعد سیاست کی وادی میں داخل ہوئے تھے۔ ان کے اس طرۂ امتیاز کو مہ ناز آپا نے بھی اپنا مقصدِ حیات بنا لیا۔ 1964ء میں پی ٹی وی کے آغاز ہی میں اس کے ساتھ وابستہ ہوئیں اور ٹی وی کی معروف ترین آرٹسٹ کا مقام پانے کے بعد ملک و ملت کے لئے کچھ کر گزرنے کے جذبے کے تحت میدان سیاست میں ائر مارشل اصغر خاں کے ہاتھ پر بیعت کر لی جس کے لئے بہاولپور کی بیگم طاہرہ خاں ان کی معاون بنی تھیں جن کی اصغر خاں سے سیاسی رفاقت ان کے سیاسی سفر کے آغاز سے ہی چل رہی تھی۔
اگر میں مہ ناز آپا کی خود نوشت پر سیر حاصل تبصرہ کروں تو یہ بذاتِ خود ایک کتاب بن جائے گی کیونکہ اس کتاب کے مطالعہ سے پی این اے سے میاں نواز شریف کی ٹرین مارچ والی تحریک نجات تک کے سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ہیں۔ مجھے پی این اے کی تحریک کے دوران خود بھی قید و بند کے مراحل سے گزرنا پڑا اس لئے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں مہ ناز آپا نے اپنی خود نوشت میں جن جذبات کا اظہار کیا ہے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ میرے ہی دل کی آواز ہیں۔ پھر ایم آر ڈی کی تحریک کی کٹھنائیاں میرے اپنے مشاہدے میں رہیں۔ مہ ناز آپا نے اس تحریک کے دوران 1983ء کے اس روز کا تذکرہ کیا جب ایم آر ڈی نے خواتین کے حقوق کے لئے ہائیکورٹ کے باہر سے جلوس نکالا تو اس وقت شاعر انقلاب حبیب جالب نے اپنی نظم سے دلوں کو گرمایا مگر یہ نظم جلوس کے ساتھ چلنے والی مارشل لاء انتظامیہ کی طبع نازک پر گراں گزری اور اس نے ریگل چوک تک پہنچتے پہنچتے خواتین سمیت جلوس کے شرکاء کی وہ دھنائی کی کہ روزِ محشر یاد آ گیا۔ اس سارے منظر کا میں خود بھی عینی شاہد ہوں اس لئے وہ منظر کبھی میری آنکھوں سے محو نہیں ہو سکتا جب حبیب جالب خود آنسو گیس جھیلتے، لاٹھیاں کھاتے خواتین کو لاٹھیوں کی زد میں آنے سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے اخلاص والے سیاسی کارکن اب کہاں دستیاب ہیں۔ اسی لئے تو میں 120دن کی دھرنا تحریک پر نازاں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک والوں کو باور کرایا کرتا ہوں کہ انہوں نے پی این اے اور ایم آر ڈی کی تحریک والا ریاستی تشدد ایک دن کے لئے بھی بھگت لیا ہوتا تو انہیں لگ پتہ جاتا کہ اپوزیشن کی سیاست کیسے کی جاتی ہے۔
مہ ناز آپاکی خود نوشت نے میری اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کر دیا کہ ایم آر ڈی کی جانب سے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلہ پر محترمہ بینظیر بھٹو خوش نہیں تھیں اور یہ فیصلہ ان کی مرضی کے برعکس ہوا تھا جس میں ایم آر ڈی کے اس وقت کے کنونیئر خواجہ خیرالدین کا عمل دخل تھا۔ مہ ناز آپا نے اس سارے واقعہ کی جو تفصیل بیان کی اس کے مطابق ائرمارشل اصغر خاں کی اقامت گاہ پر ضیاء حکومت کی خصوصی اجازت سے ہونے والے ایم آرڈی کے اجلاس کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو نے لندن سے غلام مصطفی جتوئی کو فون کرکے انہیں انتخابات کے بائیکاٹ کے لئے پیپلز پارٹی کا موقف ڈکٹیٹ کرایا تھا۔ وہ انتخابات کا محض اس لئے بائیکاٹ کرانا چاہتی تھیں کہ ان انتخابات میں ایم آرڈی کی کامیابی کی صورت میں غلام مصطفی جتوئی وزیراعظم بن جاتے جو محترمہ کو کسی صورت گوارا نہیں تھا۔ اس ظالم مفاداتی سیاست نے ہی تو ہماری سیاسی اخلاقیات و اقدار کا جنازہ نکالا ہے۔ اس کتاب میں میاں نواز شریف کے سیاسی سفر کے آغاز سے اب تک کی ان کی سیاسی ذہنیت و کیفیت کی خوب عکاسی کی گئی ہے جس میں موجود ان کے ذوقِ ماحضر کی کچھ جھلکیاں میں نے بھی ایک بار ان کے ماڈل ٹائون کے دستر خوان پر ان کے ساتھ شریک تناول ہو کر اور دوسری بار مالدیپ تک ان کے ساتھ سفر کے دوران دیکھی ہوئی ہیں۔ یہی جھلکیاں مہ ناز آپا نے ٹرین مارچ کے دوران ان کے ذوق تناول کی دکھائی ہیں۔ اسی طرح مہ ناز آپا نے محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی کے ایک عام گھریلو عورت والے پہلو دکھاتے ہوئے بھی اپنی مشاہداتی نگاہوں کو چوکس رکھا ہے۔ اگرچہ مہ ناز آپا نے دھن دولت کے بل بوتے پر سیاست میں نمایاں ہونے اور بلند مقام تک پہنچنے والے میاں نواز شریف کے کردار کو خود بھی اجاگر کیا ہے مگر میرے دل میں یہ تجسس پھر بھی برقرار ہے کہ جس نواز شریف کی جھلک مہ ناز آپا نے ملک وزیر علی کے گھر میں دیکھی تھی کہ کوئی لفظ زبان سے نکالتے ہوئے بھی ان کا چہرہ شرم سے سرخ ہو جاتا تھا اور جس نواز شریف کو مہ ناز آپا کی موجودگی میں ائر مارشل اصغر خاں نے ضیاء آمریت کا اس لئے حصہ نہ بننے کا مشورہ دیا تھا کہ اس فیصلہ سے وہ اپنا سیاسی مستقبل تاریک کر بیٹھیں گے۔ پھر ان کا سیاسی مستقبل تابناک اور خود ائرمارشل کا سیاسی مستقبل تاریک کیوں ہو گیا۔ کیا مقدرات کی تقسیم کے عمل میں قدرت کی کارسازی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ ’’مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں‘‘ اپنی جگہ ایک مکمل اور مستند سیاسی تاریخ ہے۔ مجھے اس میں بس یہ کسک محسوس ہوئی کہ مہ ناز آپا نے یحیٰی صاحب سے وابستہ اپنی فیملی کے پس منظر پر ایک بھی لفظ تحریر نہیں کیا اور پھر مسلم لیگ (ق) سے تحریک انصاف تک کے ان کے سفر کا پس منظر بھی اس کتاب کے کسی لفظ میں نظر نہیں آیا۔ انہوں نے ایسا دانستاً کیا ہے تو اس کی وجہ بھی انہی کے پاس ہو گی مگر میرا تجسس تو اپنی جگہ پر موجود ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024