برسوں گزر جاتے ہیں مگر کسی کے حق میں لکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ موقع بھی نکال لیا جائے تو لطف نہیں آتا۔ تنقیدی باتیں کرتے کرتے عادت سی پڑ جاتی ہے۔ تعریفی باتیں کرنا ہمیں بھول جاتا ہے۔ تنقیدی بات کرنے کا اپنا مزا ہے۔ تعریفی بات کرنے کا بھی ایک لطف ہے مگر بہت لوگوں نے اسے ایک لطیفہ بنا دیا ہے۔ غیر ضروری تعریف غیرضروری تنقید کی طرح بے معنی ہوتی ہے۔
ہمارے ایک دوست ہیں ڈاکٹر امجد ثاقب۔ انہوں نے حیران کر دینے والے کام کیے ہیں۔ شکر ہے کہ پریشان کر دینے والے کام نہیں کیے۔ اس دور میں تو پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔ حیران ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے بھی ہم ڈاکٹر امجد ثاقب کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے سول سروس کی افسری چھوڑی تو ہم پریشان ہوئے مگر اس کے بعد حیران ہونے کے ہی مواقع پر آئے۔
انہوں نے ایک فلاحی تنظیم ”اخوت“ بنائی ہے۔ اخوت کے معانی ہمارے لیے بے معنی ہوتے جاتے تھے۔ بھائی چارے کی اس نئی روایت نے ایک ایسی حکایت کا سلسلہ شروع کیا ہے کہ ہماری تاریخ بنتی جا رہی ہے امداد دینے سے تو آدمی کو محتاج کرنے کا ایک طریقہ بنتا ہے۔ لوگوں کو قرض حسنہ دینے کا معاملہ شروع کیا گیا ہے۔ قرض ایک مرض ہے مگر اس میں شفا یابیوں کا ایک جہاں پیدا ہوا ہے۔ قرض لینے والے قرض دینے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ قرض واپس کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ آدمی اپنی جیب سے لوٹا رہا ہے۔ چند ہزار روپے سے آغاز ہونے والی کہانی چند اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔
فاﺅنٹین ہاﺅس بھی ایک اچھا ادارہ ہے۔ ایک دل والے ڈاکٹر رشید چودھری نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کے فرزند ڈاکٹر ہارون الرشید چودھری بھی جلدی جلدی دنیا سے چلے گئے۔ اب یہ ذمہ داری ان کے بھائی ڈاکٹر عمیر رشید پہ آن پڑی ہے۔ مگر اصل ذمہ داری ڈاکٹر امجد ثاقب پوری کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد بھی اسی فیملی کے سربرآوردہ آدمی ہیں۔
دو روز پہلے ایک مقامی ہوٹل میں فاﺅنٹین ہاﺅس کی طرف سے ڈنر تھا۔ اس کے ساتھ ”اخوت“ کی نشانی بھی مرکزی اشتہار میں سٹیج پر لگی ہوئی تھی۔ میڈیا اور پبلک ریلیشن کوارڈی نیٹر مسز لبنیٰ بابر نے مجھے دعوت دی تھی۔ میں ان کا شکر گزار ہوں۔ میرے اصرار پر اس نے مجھے تقریر سے بچا لیا۔ میں نے کہا کہ یہ حق فاﺅننٹین ہاﺅس اور ”اخوت“ والوں کا ہے۔ میرے دوست پروفیسر ہمایوں احسان ڈاکٹر عمیر رشید اور ڈاکٹر امجد ثاقب نے بہت ولولہ انگیز تقریریں کیں۔
کروڑوں روپے اس ادارے کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔ کروڑوں روپے مخیر حضرات کی محبت سے جمع ہوتے ہیں۔ حکومت بہت کم توجہ دیتی ہے۔ یہاں بہت اچھے شاعر ادیب حاجی ناصر بشیر میرے ساتھ ساتھ رہے۔ پنجاب اور اردو کی معروف اور خوبصورت شاعرہ بشریٰ اعجاز بھی تقریب میں موجود تھیں۔ وہ ان تقریبات میں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں اور آج کل ادبی محفلوں میں کم کم آتی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس محفل میں شریک ایک آدمی کے ساتھ واردات ہوئی۔ مگر نقصان کی خبر ابھی نہیں آئی۔
میرے بھائی میانوالی کی معروف سیاسی فیملی کے نمایاں اور اہم فرد انعام اللہ خان نیازی کے لیے اس خبر پر یقین نہیں آیا کہ انہیں لوٹ لیا گیا ہے۔ انعام اللہ خان دبنگ آدمی ہے۔ اونچا لمبا خوبصورت اور طاقتور نوجوان ہے۔ بہت کم ادبی محفلوں میں دکھائی دیتا ہے۔ پچھلے دنوں برادرم ناصر اقبال خان کی ایک محفل میں انعام اللہ خان کو دیکھ کر اچھا لگا۔ وہ بھکر سے اپنے بھائی مرحوم مجیب اللہ خان کی نشست سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوا ہے۔ اس سے پہلے میانوالی شہر سے بھی وہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوا تھا۔
اس سے تو بندہ ویسے ڈر جاتا ہے اور یہ ڈاکو لوگ تو ہوتے ہی بزدل ہیں۔ شہر میں امن و امان کی صورتحال بہت مخدوش ہے۔ سی سی پی او لاہور ایڈیشنل آئی جی پولیس امین وینس کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ بہت بہادر اور باذوق آدمی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک پریس کانفرنس میں کچھ ڈاکو¶ں کو میڈیا کے سامنے پیش بھی کر دیا۔ میڈیا پر اس کی مناسب پذیرائی ہونا چاہیے تھی۔ فرض شناس پولیس افسروں اور اہلکاروں کی کاوشوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ اس طرح لوگوں کو حوصلہ ملے گا اور پولیس پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہو گا۔ امین وینس خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ ملت پارک ڈکیتی میں پانچ شہریوں کے قتل کی اندھی واردات کو ٹریس کیا۔ کئی ڈاکو شہر لاہور سے باہر کے ہوتے ہیں۔ ان کو مکان کرایہ پر دینے والوں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ یہ ڈاکو کئی شہروں میں پولیس کو مطلوب تھے۔
جرائم تو ہوتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے حکمران لیڈر سماجی شخصیات اور بہترین پولیس افسران اور اہلکاران بھی ختم نہیں کر سکے۔ مسائل تو پیغمبر بھی ختم نہ کر سکے تھے مگر جرائم کم تو کئے جا سکتے ہیں۔ سماج دشمن عناصر پر قابو تو پایا جا سکتا ہے۔ آخر اداکار قسمت بیگ اتنی بدقسمت کیوں تھی۔ افسران بالا کے جی آر آر ون میں قائم چنبہ ہا¶س میں سنگین واردات بھی ایک لمحہ¿ فکریہ ہے۔ ممبر صوبائی اسمبلی مسلم لیگ ن پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا مگر چھوٹے چھوٹے ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انعام اللہ خان ایم پی اے کے ساتھ واردات افسران کی رہائش گاہ کے پاس مشہور کلب چوک میں ہوئی ہے۔ یہ بات بہت افسوسناک اور شرمناک ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ افسروں اور حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
ہم لکھنے والوں پر یہ الزام ہے کہ ہم پولیس کے خلاف لکھتے رہتے ہیں۔ ہم ان کے حق میں بھی لکھتے ہیں۔ وہ کچھ کر کے تو دکھائیں۔ ہم امین وینس کے قائل ہیں مگر یہ واردات لاہور میں ہوئی ہے؟ کہا گیا کہ میڈیا کے کچھ لوگوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔ تو وہ جو تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ان کی ہے۔ ان کی موجودگی میں لاقانونیت ایک سوال ہے۔ سوال ہیں اور جواب گم ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38