اُردو گرائمر کے قواعد سے میں ہرگز واقف نہیں۔ کالم لکھتے ہوئے اس ضمن میں مجھ سے کئی فاش غلطیاں یقینا سرزد ہوجاتی ہوں گی۔ املا اور پروف ریڈنگ کے معاملے میں البتہ میں بہت خوش نصیب رہا ہوں۔ میرے والد کی ضد تھی کہ میں دن میں کم ازکم دو بار تختی پر لکھنے کی مشق سے گزروں۔
ہمارے بچپن میں تختی پر لکھنے کی مشق اپنے تئیں ایک طویل عمل ہوا کرتا تھا۔ تختی کو دھونے اور اس پر گاچی کی تہہ مل کر اسے دھوپ میں سوکھنے کے لئے چھوڑنے کے بعد مرحلہ آتا تھا روشنائی اور قلم تیار کرنے کا۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ ان تمام مراحل سے گزارنے کا اصل مقصد کسی طالب علم کو محض خوش نویس بنانا نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس سے کہیں زیادہ توقع یہ تھی کہ تختی، سیاہی اور قلم تیار کرتے ہوئے بچوں میں انہماک کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ ایک تفصیلی مشق جو ارتکاز توجہ اور نظم کی عادتوں کو پروان چڑھائے۔
کئی سال تختی پر لکھنے کی مشق سے گزرنے کے باوجود میں یہ خصوصیات حاصل نہ کرپایا۔ لاڈلا اور کام چور تھا۔ لکھنے سے زیادہ مجھے پڑھنے میں مزا آتا تھا اور وہ بھی کسی ترتیب سے نہیں۔ جو ہاتھ لگا بس پڑھ لو اگرچہ ایسا کرتے ہوئے نصاب کی کتابوں سے اجتناب ہی برتا۔ امتحانات میں اچھے نمبر اس کے باوجود آجاتے تو وجہ اس کی میری فطری طورپر ذرا طاقت ور یادداشت تھی۔
تختی لکھنے کا فائدہ مگر یہ ہوا کہ میرا خط بہتر ہوگیا۔ میرے لکھے ہوئے کو کاتب بآسانی پڑھ لیتے ہیں۔ رپورٹنگ ساری عمر انگریزی اخبارات کے لئے کی ہے۔ اپنی خبریں روز اوّل سے خود ٹائپ کرتا رہا ہوں۔ اور میری ٹائپنگ سپیڈ کافی تیز ہے۔ اُردو ٹائپ رائٹر کی طرف منتقل ہونے کا لیکن میں نے تردد ہی نہیں کیا۔ آج بھی یہ کالم لکھ کر کمپوزنگ کے لئے کسی اور کے حوالے کردیتا ہوں۔ تھوڑی بہت غلطیاں معمول کی بات ہیں لیکن میرے خط کی وجہ سے کمپوزر میرے لکھے ہوئے خیالات کو عموماََ درست ہی بیان کردیتا ہے۔
منگل کی صبح چھپے کالم میں لیکن گڑبڑ ہوگئی۔ ذکر تھا اسرائیل کے اس فیصلے کا جس کی وجہ سے واجپائی حکومت امریکہ اور برطانیہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایک سال تک پاکستانی سرحدوں پر اپنی فوج کو حالتِ جنگ میں یقین رکھنے کی ضد چھوڑنے پر مجبور ہوگئی تھی۔
اسرائیلی فیصلے کے اس تذکرے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میرے دوست اور مربی خورشید قصوری صاحب نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے وہ تمام واقعات لکھے ہیں جو مشرف کے دنوں میں پانچ سال تک پاکستان کا وزیر خارجہ ہوتے ہوئے ان کے سامنے رونما ہوئے۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ خورشید صاحب نے اسرائیل کے 2002ء والے کردار کا ذکر بھی اپنی کتاب میں کیا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ توقع یہ بھی تھی کہ اپنی کتاب میں انہوں نے تفصیل سے ہمیں یہ بھی بتادیا ہوگا کہ اگست 2005ء میں ان کی استنبول میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کیوں اور کن حالات میں ہوئی۔ خورشید قصوری کے بارے میں چھپے پیرے میں لیکن یہ بات بیان نہ ہوپائی۔ الفاظ اور فقرے گڈمڈ ہوگئے۔ جو ہونا تھا مگر ہوچکا ہے اور اس پر افسوس کرنے میں وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
افسوس مجھے اس لئے بھی نہیں کہ کالم چھپنے کے بعد جب میں اپنے ٹی وی پروگرام کی تیاری کے لئے دفتر پہنچا تو وہاں خورشید صاحب کے ایک شفقت بھرے خط کے ساتھ ان کی لکھی ہوئی ضخیم کتاب بھی میری میز پر دھری تھی۔ بجائے شکریے کا فون کرنے کے میں نے وہ کتاب کھول کر فوراََ اس کے اختتام پر دئیے عشاریے کا رُخ کیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ کی اپنے اسرائیلی ہم منصب سے ملاقات کا ذکر اس کتا ب میں بالکل موجود تھا اور میں فوراََ اس سے متعلقہ باب کو ڈھونڈ کر اسے پڑھنا شروع ہوگیا۔
اسرائیل نے پاک-بھارت کشیدگی کو ختم کروانے کے لئے 2002ء میں جو کردار ادا کیا تھا اس کا اس باب میں لیکن ذکر نہیں۔ وجہ اس کی واضح اور معقول ہے کیونکہ خورشید صاحب ان دنوں وزارتِ خارجہ کے منصب پر فائز نہ تھے۔ یہ واقعہ ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے رونما ہوچکا تھا۔ خورشید صاحب کی کتاب کا اصل موضوع ویسے بھی پاک-بھارت تعلقات ہیں۔ ان کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے اور ہمیں سمجھانے کے لئے انہوں نے اپنے دفتر میں موجود تاریخی دستاویزات کا ایک محقق کی طرح جائزہ لیا ہے۔ ان کی ایسی محنت قابل ستائش ہے۔ ورنہ حکومتوں میں کچھ برس گزارکر اپنے تجربات پر مبنی کتابیں لکھنے والے زیادہ زور بس یہ بات دہرانے میں صرف کردیتے ہیں کہ وہ کتنے ایماندار، ذہین وفطین تھے۔ ان کے ’’باس‘‘ یا ساتھ دینے والوں کی اکثریت مگر نااہل اور بدعنوان افراد پر مشتمل تھی۔
ایسے ہی تجربات کابارہا ذکر کرتے ہوئے قدرت اللہ شہاب نے خود کو اپنے عصر کا ولی ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ چند برس پہلے فوج سے ریٹائر ہوئے ایک جنرل شاہد نے بھی کچھ ایسا ہی انداز اختیارکیا۔ روئیداد خان بھی اسی قبیلے کا ایک فرد ہیں۔
قدرت اللہ شہاب اور ان کے تابعین کے خوف سے میں سیاست دانوں اورریٹائرڈ افسروں کی لکھی آپ بیتیوں کو پڑھنے سے بہت گھبراتا ہوں۔ خورشید قصوری کی کتاب لیکن مجھے پسند آئی ہے۔
ان کا شمار میرے مہربان دوستوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک بہتر کتاب نہ لکھی ہوتی تو میں اس کو نظرانداز کرتے ہوئے ان سے منافقانہ تعلقات برقرار رکھ سکتا تھا۔ وہ مگر منافق نہیں۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جنرل مشرف جن افراد سے شدید نفرت کرتے تھے ان کی فہرست میں کہیں بہت نیچے میرا نام بھی شامل تھا۔ خورشید صاحب کو مگر جب مجھ سے ملنا ہوتا توصاف لفظوں میں جنرل صاحب کو یہ اطلاع دے کر آتے کہ وہ مجھ سے ملنے آرہے ہیں۔
ایسی جرأت میرے کئی مہربان دوست ان دنوں بھی دکھا نہ پائے جب ان کے ’’باس‘‘ فوجی وردی میں ملبوس کوئی آمر نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے سیاسی رہ نما ہوا کرتے تھے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ اس ضمن میں خورشید قصوری کی جرأت کو سراہتے ہوئے مجھے اس بات کا اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ جنرل مشرف جیسے ’’آمر‘‘ کئی حوالوں سے سیاسی رہ نمائوں کے مقابلے میں زیادہ کشادہ دل ہوا کرتے ہیں۔
وردی والے حکمرانوں اور افسروں میں کشادہ دلی کی بنیادی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ انہیں اپنے ادارے کی طاقت اور نظم پر کامل اعتماد ہوتا ہے۔ ووٹوں سے منتخب ہوئے سیاسی حکمران اپنے مخصوص تجربات کے حوالے سے ہمیشہ گھبرائے ہوئے رہتے ہیں۔ ان کے لئے سیاسی مخالفین تو دور کی بات ہے اپنے قریبی ساتھیوں اور درباریوں پر اعتماد کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان دنوں نواز شریف صاحب بھی انجانے خوف کی وجہ سے مسلط ہوئی کچھ ایسی ہی خاموشی اور تنہائی کا شکار ہیں۔
دوستوں اور صحافیوں سے غیر رسمی ملاقاتیں کرنا عرصہ ہوا انہوں نے چھوڑ رکھا ہے۔ آج کل تو سنا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی سرکاری امور سے قطعی لاتعلق ہوکر گھر چلے جاتے ہیں اور رات کا کھانا تناول فرمانے کے فوراََ بعد اپنے بیڈروم چلے جاتے ہیں جہاں کی بتیاں تھوڑی دیر بعد ہی گل ہوئی نظر آتی ہیں۔
نواز شریف تو خیر 2015ء میں ان حالات سے گزررہے ہیں جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا 1850ء کی دہائی میں مقدر بنے تھے۔ تنہائی امریکی صدر اوبامہ کو بھی شدید لاحق ہوچکی ہے۔ اوبامہ مگر دُنیا سے کٹ کر اپنے بیڈ روم کی بتیاں فوراََ گل نہیں کردیتا۔ پڑھتا ہے اور بہت پڑھنے کے ساتھ ہی ساتھ ریاستی معاملات پر شدید غور وفکر کی عادت میں بھی مبتلا ہے۔ تنہائی اور غوروفکر نے اسے مفلوج نہیں کیا۔ اپنی صدارت کی دوسری معیاد کے خاتمے کے قریب جاتے ہوئے تاریخ ساز فیصلے کررہا ہے۔ کیوبا سے سفارتی تعلقات کی بحالی اور ایران سے ایٹمی قضیے کو حل کرنے والا معاہدہ بلکہ واضح طورر پر ایک فیصلہ ساز اوبامہ کی خبر دیتا ہے۔ اپنے نواز شریف اہم فیصلے نجانے کب کریں گے۔ ان کے مقابلے میں تمام تر بُرے حالات کے باوجود آصف علی زرداری کبھی کبھار کوئی نہ کوئی فیصلہ کرتے بالکل نظر آجاتے ہیں۔ پیر کے روز ان کی طرف سے جاری ہوا بیان بھی ایک فیصلہ ہے۔ اس کے بارے میں فی الوقت پنجابی کا صرف ایک فقرہ:’’ اگے تیرے بھاگ لچھیے‘‘۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024