دورہ سری لنکا کا قومی کرکٹ ٹیم کے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہا۔ ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد ون ڈے سیریز میں بھی ناکامی نے کئی ایک کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو ایک مرتبہ سے پھر مشکوک بنا دیا ہے۔ صہیب مقصود صرف ایک میچ میں پرفارم کر سکے۔ عمر اکمل مکمل طور پر ناکام رہے۔ دمبولا میں کھیلے جانے والے میچ میں انہوں نے جس غیر ذمہ دارانہ بلے بازی کا مظاہرہ کرکے اپنی وکٹ گنوائی پانچ سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے بعد کیا ایسی بے وقوفی کی کوئی گنجائش ہوتی ہے۔ آخری ون ڈے میں مصباح الحق کا ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ درست تھا تاہم بلے بازوں کی ناقص بیٹنگ نے ناصرف کپتان کے فیصلے کو غلط ثابت کیا بلکہ دمبولا سٹیڈیم میں لگ بھگ پندرہ ہزار سے زائد شائقین کرکٹ کو بھی مایوس کیا۔ مقامی افراد اپنی ٹیم کی کامیابی سے تو خوش ہیں لیکن سب ایک دلچسپ مقابلے کی توقع کر رہے تھے۔ بیٹنگ کے لئے نسبتاً آسان پچ پر پاکستانی بلے بازوں نے ’’ہوائی شاٹس‘‘ کھیل کر وکٹیں ضائع کیں۔ شرجیل خان کو ایک ان سوئنگ اور پھر ایک آؤٹ سوئنگ نے پویلین واپس بھیج دیا۔ احمد شہزاد کو رنز کے لئے مشکلات کا سامنا تھا۔ اسی دباؤ میں انہوں نے فیلڈرز کے اوپر سے کھیلنے کا منصوبہ بنایا جوکہ بری طرح ناکام رہا‘ اسی طرح کے ایک شاٹ پر وہ مڈ آف پر کیچ آؤٹ ہوئے‘ کیا ایک ان فارم بلے باز کو اہم میچ میں ایسے جلد بازی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا؟ محمد حفیظ بھی کام نہ آسکے‘ وہ گیند کو مڈل تو کر رہے تھے تاہم بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے۔ مصباح الحق چالیس کے کیا ہوئے‘ وزن کم کرنے کے ساتھ ساتھ رنز کرنے کی مقدار بھی کم ہو گئی ہے۔ فواد عالم اور کپتان کی پارٹنر شپ لگ سکتی تھی لیکن رن آؤٹ ہو گئے۔ ہمارے ساتھی رپورٹر ثناء اللہ خان بلے بازوں پر خاصے برہم نظر آئے وہ پاکستان کی اننگز کے دوران یہی کہتے رہے کہ اگر یہاں ان کا یہ حال ہے تو باؤنسی وکٹوں پر کیا بنے گا۔
یوسف انجم نے سوشل میڈیا پر میچ کے آغاز میں پاکستان کی وکٹیں گرنے پر لکھا کہ گرانٹ فلاور سوچ رہا ہو گا کہ میرے کوچنگ کیرئیر سے تو مت کھیلو ’’سیریز میں باؤلنگ پرفارمنس بھی متاثر کن نہ تھی۔ کوچنگ سٹاف کے لئے عالمی کپ 2015ء کے لئے ایک مضبوط اور وننگ کامبی نیشن تیار کرنا یقیناً ایک مشکل ہدف ہو گا۔ تاہم اس سیریز سے بہت کچھ سیکھنے اور کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور ان کی اہلیت کو جانچنے کا موقع ضرور ملا ہو گا۔ کھلاڑیوں کا بڑا مسئلہ عدم تسلسل‘ غلطیوں سے نہ سیکھنا‘ خود کو جلد حالات کے مطابق نہ ڈھالنا اور میچ کی ضرورت کے مطابق نہ کھیلنا ہے۔ اس معاملے میں کوچز سے زیادہ کھلاڑی خود ذمہ دار ہے لیکن کوچز کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیر ذمہ دارانہ رویے کے حامل کھلاڑیوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔ ہمارے کھلاڑی برے نہیں ان کی عادتیں بری ہیں۔ وہ سدھریں گی تو کارکردگی میں تسلسل آئے گا لیکن کب یہ سوالیہ نشان ہے!
شاہد آفریدی سمیت سری لنکا نے ہمارے بیٹسمینوں کو پھنسا کر منصوبہ بندی سے آؤٹ کیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38