کالم شروع کرنے سے پہلے ہم مریم نواز کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کا سوشل میڈیا پر یہ پیغام ’’جاوید ہاشمی کو نواز شریف کی یاد تو آئی ہو گی‘‘ انتہائی ناگوار گزرا ۔ملکی حالات بے حد افسوس ناک ہیں اور مریم نواز والد صاحب کی فضیلت بیان فرما رہی ہیں۔آج جو کچھ ہو رہاہے اس میں ان کے والد گرامی کا بھی حصہ شامل ہے۔ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘ کا مزاج شریف پایاہے۔عمران خان کے مطالبے پر اگر چار حلقوں کا مسلہ حل کر دیا جاتا اور شفاف الیکشن کمیشن کے قیام کا نیک نیتی کے ساتھ اقدام اٹھا لیا جاتا تو آج پورا ملک تشویشناک صورتحال سے دوچار نہ ہوتا۔مریم کے چا چا جان اگر ماڈل ٹائون کے واقعہ کے بعد قادری کے پاس تعزیت کے لئے چلے جاتے تو اس ڈرامے کو عارضی طور پر قابو کیا جا سکتا تھااور ان کے کزن حمزہ شریف بھی کی عقل بھی عمران خان کے قریب قریب ہے۔مسلم لیگ نون کے ’’کرتوت اعمال‘‘ بھی اتنے اچھے نہیں کہ انہیں نظر انداز کر دیا جائے۔آج مسلم لیگ نون کو عاصمہ جہانگیر اور پیپلز پارٹی کے بیانات بھی اچھے لگ رہے ہیں ،جو کل مخالف اور دشمن تھے وہ آج سجن نظر آرہے ہیں ۔ بی بی مریم یہ موقع ’’تیلی‘‘ لگانے کا نہیں آگ کو ٹھنڈا کرنے کا ہے۔ مسلم لیگ نون چھوڑ دی تو جاوید ہاشمی کا ذہنی توازن خراب قرار دے دیا گیا اور آج تحریک انصاف سے الگ ہو گئے تو ہاشمی صاحب کا ذہن توازن درست ہو گیا مگر تحریک انصاف نے انہیں بیمار قرار دے دیا ۔پاکستان کی سیاست ہے ہی ایسی کہ اس میں جو گیا یا خود گندا ہوا یا دوسروں کو گندا کر دیا۔جاوید ہاشمی بنیادی طور پر ایک نیک نیت انسان ہیں،عمران خان بھی اچھا انسان ہے،لہذا دونوں نے ایک ساتھ چلنے کا ارادہ کر لیا۔ زمینی حقائق گواہ ہیں کہ عمران خان کی سیاست ’’ہائی جیک‘‘ ہو چکی ہے البتہ جاوید ہاشمی کو خدا نے مزید رسوائی سے بچا لیا۔جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف سے علیحدگی سے شیخ رشید کی دیرینہ آرزو پوری ہوگئی ۔مشرف کا ٹولہ کسی ’’آمریت مخالف‘‘ ساتھی کو برداشت نہیں کر سکتا ۔مشرف ٹولے کی برسوں کی منصوبہ بندی کا ڈراپ سین ہونے والا تھا کہ ہاشمی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔عمران خان نے ہاشمی کو کاندھے سے پکڑ کر خود گھر بھیج دیا اور شیخ رشید نے وہی کردار ادا کیا جو اس نے سات سال پہلے ادا کیا تھا۔پرویز مشرف ،طاہر القادری،شیخ رشید،چوھدر ی برادران،جہانگیر ترین،خورشید قصوری،اعجاز چوھدری،میاں محمود الرشید۔۔۔ عوام کو یاد ہو گا یہ وہی ٹولہ ہے جس نے 2007 میں اسی اسلام آباد کے اسی چوک میں وکلائ، سول سوسائٹی ،عوام اور صحافیوں پر شرمناک تشدد کیا تھا۔اسی مقام پر چیف جسٹس آف پاکستان کے بال نوچے گئے تھے،انہیں دھکے مارے گئے تھے ،یہ وہی مقام ہے جہاں اس ٹولے کے لیڈر پرویز مشرف نے ہوا میں مکا لہرایا تھا اور سات سال بعد آج پھر اسی مقام پر یہ ٹولہ نمودار ہوا اور سات سال پہلے سے بھی بد تر حالات پیدا کر دیے۔اس مخصوص ٹولے کا لیڈر اس مرتبہ فوجی آمر نہیں بلکہ ایک نام نہاد جمہوری سیاسی لیڈر ہے۔اس مرتبہ مکا لہرانے والا کوئی اور نہیں عمران خان ہے اور دوسرے ٹرک پر دہشت گردوں کا سردار سوار ہے ۔ٹرک کے یہ سوار گزشتہ ڈھائی ہفتے سے نہ صرف خود ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیںبلکہ پوری قوم کو ڈیپریشن میں مبتلا کر رکھاہے۔ایک طرف آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاری ہے اور دوسری طرف عمران خان ٹائیگروں کو آوازیں دے رہے ہیں کہ’’صبح سو کر اٹھو تو فورََاڈی چوک پہنچو‘‘ ۔بندہ پوچھے اگر یہ قوم جاگ رہی ہوتی تو آج یہ منحوس دن نہ دیکھنا پڑتا۔اور پھر رات کو فرماتے ہیں کہ ’’میں نے سوچا سونے سے پہلے کارکنوں کو مبارکباد پیش کر دوں ‘‘۔اس صورتحال میں کس کافر کو نیند آسکتی ہے اور مبارکباد کس بات کی ؟ تباہی و بدمعاشی کی ؟ بربادی و بغاوت کی ؟ پانچ سال زرداری جیسا کرپٹ حکمران اس ملک پر قابض رہا،اس سے پہلے ایک فوجی آمر کا قبضہ رہا مگر عمران خان کو پارلیمنٹ پر چڑھائی کا جنون سوار نہ ہوا،چودہ سال بعد نواز شریف اقتدار میں آیا اور صرف ایک سال گزر اکہ جمہوریت کے خلاف سارے بلوائی اکٹھے ہو گئے ؟ مشرف اورزرداری کی جمہوریت میں سب کا حصہ تھا،اب ہاتھ خالی ہیں تو اکیلے کیوں کھانے دیا جائے ؟ تبدیلی اور انقلاب کا لالی پاپ پاکستان کے سادہ عوام کو دیا جائے ۔’’بلوایئوں ‘‘ کے میڈیا کی فنڈنگ باہر سے ہو رہی ہے لہذا منفی پروپیگنڈا کا سلسلہ بند نہیں کروایا جا سکتا اور نواز حکومت کا میڈیا بھی ’’نمک حلال‘‘ کر رہاہے۔ تبدیلی اور انقلاب کے جھانسے میں ملک کا
نا قابل تلافی نقصان ہو چکا ہے۔طاہر القادری نے مریدوں سے موت پر بیعت لے رکھی ہے،ان کی زندہ واپسی ناممکن ہے۔انہیں ہر حال میں مرنا ہے ۔دہشت گردوں نے نقاب پہن رکھے ہیں۔قادری اور تحریک انصاف کے گلو بٹوں نے پولیس کی وردی میں ملبوس میڈیا کے نمائندوں پر تشدد کیا۔پولیس کو بدنام اور ہراساں کرنے کے لیئے ظلم و تشدد کی ویڈیوز بنوائیں۔ماڈل ٹائون کا واقعہ ایک ٹریلر تھا ،ڈی چوک پر پوری فلم کی نمائش ہو گئی۔بزدل پولیس افسر ڈی چوک کا چارج سنبھالنے سے ڈر گئے کہ میڈیا کی خبربننے سے ہر کوئی ڈرتا ہے مگرایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کی پریس کانفرنس دیکھی تو لگا امریکہ کا پولیس افسر بول رہاہے ۔امریکہ میں معمولی شر پسندی کا واقعہ پیش آجائے ،پولیس افسر پریس کانفرنس کے توسط سے عوام کو حقائق سے آگاہ کرتے رہتے ہیں جبکہ پاکستان میں افسران منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔عصمت اللہ جونیجو کی گفتگو سن کر پاک پولیس پر فخر ہوا۔پنجاب کو بدنام کرنے کے لئے ’’پنجاب پولیس‘‘ لفظ استعمال کیاجاتا ہے۔طاہرالقادری بری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں ۔ اسلام آباد میں ان کے اصلیت دیکھ کر واقعہ ماڈل ٹائون مزید مشکوک ہو گیا ہے۔ ہلاکتوں پر دلی صدمہ ہے ،اپنے لوگوں کومروانے والوں نے پارلیمنٹ کو بھی نہ بخشا۔’’واجاں ماریاں بلایا کئی وار میں، کسے نے میری گل نہ سنی‘‘ قادری اور خان آخری حد تک جائیں گے جبکہ فوج ابھی تک باہر ہے ۔ہم نے بھی ’’اندر کی کہانی‘‘ لکھی تھی جبکہ جاوید ہاشمی کی زبانی پوری دنیا نے سن لی۔مسلم حکمرانوں کی بہت سی کہانیاں وائٹ ہائوس میںبکھری پڑی ہیں ۔امریکی بھی اسرائیلیوں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں،دوسری جانب جماعت احمدیہ بھی ناراض ہے کہ پاکستان نے نہ صرف انہیں غیر مسلم قرار دیا بلکہ ان کی کمیونٹی کے لوگوں کو قتل کیا جاتاہے۔اندرون ملک قادری اور خان کا دشمن ’’ایک ‘‘ ہے اور بیرون ملک اسرائیل اور احمدی کمیونٹی کا دشمن’’ایک‘‘ ہے،گو کہ دشمنوں کے نام مختلف ہیں مگر دشمنی اور انتقام ایک نہ ایک مقام پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ قادری کے پاس بہت پیسہ ہے ،امریکہ اورکینیڈا میں احمدیہ جماعت بہت مضبوط ہے ۔ان ممالک میں کئی پاکستانیوں نے جماعت احمدیہ کی مدد سے سیاسی پناہ لے رکھی ہے۔جو لوگ مالی مفاد اور سیاسی پناہ کی خاطر اندر کھاتے مذہب ، عقیدہ،حب الوطنی کا سودا کر سکتے ہیں،وہ سیاسی مفاد کی خاطر ملک و قوم کا سودا کر سکتے ہیں۔ آگ اور خون کی ہولی کی پہلی سیاہ رات کے بعد عمران خان کو اپنے کارکنوں کی واپسی کی آس لگ گئی جبکہ خواتین کانسرٹ کے لئے اکٹھی ہوا کرتی تھیں ۔حالیہ افسوسناک صورتحال کے پیش نظر خان صاحب گانے بجانے کا سوچ بھی نہیں سکتے لہذا مجمع اپنی موت آپ مر گیاہے ۔ٹرک پر کھڑے ہو کر خان صاحب کو ٹائیگرز کو آوازیں دے رہے تھے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے کارکنوں کو نعرے بازی کرتے سن لیا اور ٹرک کی چھت پر آکر کہا’’ بند کرو یہ نعرے بازی،ہم نے کل رات تمہارے کرتوت دیکھ لئے ہیں،تم کہتے تھے کہ خان صاحب کے ساتھ ایک لاکھ کارکن ہیں،کہاں گئے یہ ایک لاکھ بندے ؟پرویز خٹک کی زبان سے لفظ ’’کرتوت‘‘ سن کر پرانا محاورہ یاد آگیا ’’جیسا لیڈر ویسی قوم‘‘۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38