وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب مجموعی اعتبار سے مثبت رہا۔ مسئلہ کشمیر اور بھارتی دہشت گردی کے ایشو کو اٹھایا گیا تو بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کے ترجمان نے بیان جاری کر دیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا معاون ہے اور اسلام آباد کو اپنے زیرقبضہ کشمیر خالی کر دینا چاہئے۔ پیٹ کا مروڑ وزیراعظم پاکستان کے خطاب کے بعد بھارتی میڈیا کے چہروں سے صاف عیاں تھا۔ ہمارے قریب کھڑی ایک بھارتی اینکر نے جب ہم سے پوچھا، آپ کو اپنے وزیراعظم کی تقریر کیسی لگی؟ تو ہم نے کہا ’’آپ نے کبھی گائے کا گوشت کھایا ہے؟ وہ پریشان ہو گئی کہ یہ کیا جواب ہے، ہم نے کہا ’’جب تک کسی چیز کو چکھا نہ ہو، اس کے ٹیسٹ کے بارے میں بیان کرنا ناممکن ہے ۔ کشمیر پاکستان کی زندگی موت کا مسئلہ ہے، جموں وکشمیر پاکستان کے لئے ہندو کی گائے کی طرح محترم ہے، آپ گائے کٹتے نہیں دیکھ سکتے اور ہم کشمیر ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتے‘‘۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے وطن روانگی سے قبل میڈیا سے ملاقات کی۔ ہمارے گزشتہ کالم ’’وزیراعظم پی ٹی وی پر‘‘ کے بعد موجودہ کالم کو ’’گذشتہ سے پیوستہ‘‘ سمجھا جائے۔ گذشتہ کالم میں دو اوورسیز پہلوئوں کی جانب توجہ مبذول کرانا مقصود تھا، اول مسلم لیگ (ن)ن امریکہ کے اندرونی حالات اور دوم وزیراعظم کا امریکی پاکستانی میڈیا سے ملاقات کو اپنے شیڈول میں لازمی جزو قرار دینا۔ یہ کہنا معیوب لگتا ہے کہ ’’وزیراعظم نے ہمارے کالم کا نوٹس لیتے ہوئے میڈیا سے ملاقات کر لی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کے فوری بعد اوروطن روانگی سے پہلے میڈیا سے ایک شفقت بھری ملاقات کی اور ہم نے کھل کر اپنا موقف بیان کیا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی توجہ اس ایشو کی طرف دلائی تھی، دوسری جانب واشنگٹن سفارتخانے کے پریس منسٹر ندیم ہتیانا نے بھی ہمارا احتجاج ریکارڈ کرانے میں مدد کی اور یوں معاملہ وزیراعظم تک پہنچا اور انہوں نے وطن واپسی سے پہلے ہوٹل میں میڈیا سے ملاقات کی اور سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ ہم نے وزیراعظم سے شکوہ کیا کہ جو حکمران آتا ہے، میڈیا کو نظرانداز کرتا ہے۔ مشرف اور زرداری کے بارے میں تو کہا جاتا رہاکہ چور دروازوں سے آتے ہیں مگر آپ تو سامنے دروازے سے آئے ہیں پھر آپ کو میڈیا سے دور کیوں رکھا جاتا ہے جبکہ وزیراعظم جب بھی امریکہ تشریف لایا کریں، پہلے اپنے میڈیا سے ملاقات کیاکریں تا کہ یہاں کا میڈیا دورے کو کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ مقامی اور قومی میڈیا میں تفریق کو بھی ختم ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے پوچھا کہ ’’مقامی اور قومی میڈیا‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے ۔ ہم نے وضاحت سے بیان کیا کہ امریکہ کا مقامی اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی پاکستانیوں کے لئے کام کرتا ہے، ان کے اخبارات شائع ہوتے ہیں جبکہ قومی میڈیا کے امریکہ میں مقیم نمائندے پاکستانی میڈیا گروپس کے لئے کام کرتے ہیں۔ سرکاری ملاقاتوں میں مقامی اور قومی میڈیا کے صحافیوں کو یکساں مقام دیا جائے۔ وزیراعظم نے ہماری بات بڑی توجہ اور تحمل سے سنی اور کہا کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی خود ایک صحافی ہیں، مقامی اور قومی میڈیا میں تفریق کو حائل ہونے نہیں دیں گی۔ وزیراعظم نے آن ریکارڈ بیان دے کر صحافیوں میں تفریق کو ختم کر دیا ہے۔ امید ہے اس اصول پر صرف امریکہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پرعمل کیا جائے گا۔ جب تک صحافیوں کے دل نہیں جیتے جائیں گے، وہ مثبت پہلوئوں کو ہائی لائٹ کرنے میں بخل سے کام لیں گے۔ یہ انسانی فطرت ہے، عزت دو عزت لو! حکمران اقتدار میں ہوتے ہیں تو میڈیا میں تفریق کر جاتے ہیں مگر حزب اختلاف کے قائدین کا دماغ بھی کم نہیں۔ ان کے ’’چمچے‘‘ بھی قیادت کو ذلیل کراتے رہتے ہیں۔ عمران خان کے اطراف عملہ بھی پارٹی کے کارکنان کو ملنے کا موقع فراہم نہیں کرتا۔ یہ لوگ اپنی قیادت کے دشمن ہیں۔ عمران خان سے کہیں ملاقات ہوئی تو ان کے اطراف ’’چمچوں‘‘ کے رویے پر بھی کھل کر بات کروں گی۔ ان لوگوں کا ابھی سے یہ رویہ ہے تو اقتدار کے بعد کیا حال ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو پارٹی کارکنان اور عوام کے قریب ہو جاتی ہے۔ میاں نواز شریف کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں، وہ اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ میاں صاحب نرم خو، تحمل مزاج اور انکساری سے پیش آتے ہیں البتہ ان کے ’’چمچے‘‘ ان کا تاثر خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ اجلاس کی کوریج کے لئے پاکستان، نیویارک اور واشنگٹن سے آئے صحافی ہوٹل کی لابی میں جمع تھے۔ سفید بالوں والے ایک صحافی شکل سے جانے پہچانے لگے توہم نے سلام کیا، معلوم ہوا کہ ایک نجی چینل میں پروگرام کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارا نام پوچھا اور ہم نے نوائے وقت کا بتایا تو موصوف بولے انہیں نوائے وقت پڑھے بیس سال ہو گئے ہیں۔ ہم نے تعجب سے ان کا منہ دیکھا اور کہا ’’آپ صحافی ہیں، یہ جان کر حیرت ہوئی‘‘۔ بعض لوگ جہالت اور احساس کمتری کو بددماغی سمجھتے ہیں۔ موصوف نے وزیراعظم سے سوال بھی ایسا کیا جو کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ اللہ کی شان! ایسی ایسی چیزیں بھی پاکستانی سکرین پر تجزیئے پیش کر تی ہیں۔ ہم نے صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی ایک حقیر کوشش کی ہے اور وزیراعظم نے اس پر مہر ثبت کرکے صحافیوں سے ملاقات کا دروازہ کھول دیا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024