بانی پاکستان کے کردار‘ ان کی دیانت اور صاف گوئی کے تو ان کے مخالفین بھی معترف تھے۔ ان کے معتمد اور ساتھی نوابزادہ لیاقت علی خان جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے ‘ کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ جب انہیں 1951 ءمیں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کیا گیا اور ان کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے لے جایا گیا تو ڈاکٹروں اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ ان کی پھٹی ہوئی قمیض دھاگے سے مرمت کی گئی تھی اور بتایا جاتا ہے کہ ان کی جرابیں بھی پھٹی ہوئی تھیں۔ لیاقت علی خان نوابزادہ تھے۔ وہ بھارت میں کروڑوں روپے کی جائیداد اور آسائشیں چھوڑ کر آئے تھے۔ پاکستان کے پہلے گورنرجنرل غلام محمد جنہیں پاکستان بننے کے بعد پہلی کابینہ میں وزیر خزانہ رکھا گیا تھا‘ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے۔ تاریخ دان غلام محمد کے گورنر جنرل بننے کو پاکستان میں جمہوریت کے لئے بدقسمتی کا آغاز قرار دیتے ہیں۔ غلام محمد نے عبوری آئین کے تحت حاصل اختیارات کے تحت وزیر اعظم ناظم الدین کو برطرف کر کے امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ میرا مقصد پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دوہرانا نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جو قیادت ملک کو میسر آئی اس میں کئی خامیاں تھی۔لیکن یہ قیادت بدعنوان نہیں تھی۔ غلام محمد پر یہ الزام توتھا کہ اس نے ملک کو جمہوریت کے راستے سے ہٹا کر یہاں فوجی اور سول بیورو کریسی کی حکمرانی کا راستہ ہموار کیا۔ گورنر جنرل غلام محمد کی اخلاقی کمزوریوں کا بھی تذکرہ ہوتا ہے‘ لیکن ان کے ناقدین بھی یہ مانتے ہیں کہ وہ مالی اعتبار سے بدعنوان نہیں تھے۔
وزیراعظم بوگرہ ‘ وزیر اعظم چودھری محمد علی اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی فیروز خان نون کے بارے میں ہی لکھا جاتا رہا ہے کہ وہ دیانت دار حکمران تھے۔پاکستان کے پہلے مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے ابتدائی سالوں میں 1958 ءسے 1962 ءتک حکومت کو ایک شفاف حکومت قرار دیا جاتا ہے لیکن جب وہ سویلین صدر بنے اور ان پر ملک کو اپنا آئین دینے کا جنون سوار ہوا تو حالات بدل گئے۔ فوجی وردی اتار کر انہوں نے جب جناح کیب اور سوٹ پہننا شروع کیا تو انہیں کئی سمجھوتے کرنا پڑے۔ بنیادی جمہوریتوں کے نظام اور اسمبلیوں کے قیام کے بعد انہیں جب سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو پھر لائسنس اور پرمٹ جاری کرنا ان کی ضرورت بن گئی۔ 1964 ءمیں محترمہ فاطمہ جناح نے جب ایوب خان کو صدارتی انتخاب میں چیلنج کیا تو یہ الیکشن جیتنے کے لئے ایوب خان کو بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں پر انحصار کرنا پڑا۔ ایوب خان کے مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان کو بھی ایک صاف ستھرا حکمران تسلیم کیا جاتا ہے ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب ان کے خاندان کے لوگ گورنرہا¶س میں قیام کرتے تھے تو گورنر امیر محمد خان ان کا خرچ بھی اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ یحییٰ خان تو تمام اخلاقی قدروں کو پھلانگ کرکہیں بہت آگے نکل گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خود توبدعنوانی نہیں کی‘ ان کے سیاسی مخالفین ان پر الزامات لگاتے رہے لیکن وہ بدعنوانی ثابت نہیں کر سکے۔ جنرل ضیاءالحق نے بھٹو حکومت پر جو وائٹ پیپر شائع کیا تھا اس میں مسٹر بھٹو پرمالی بدعنوانی کا کوئی بڑا الزام نہیں تھا۔ البتہ بھٹو مرحوم کے دور میں پی پی پی کے عہدیداروں اور کارکنوں کو راشن ڈپو‘ مٹی کے تیل اور سیمنٹ کی ایجنسیاں بطور سیاسی رشوت دی گئیں۔
جنرل ضیاءالحق کے دور میں بدعنوانی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ افغانستان کی جنگ کے دوران بہت سی قباحتوں کا پاکستان میں آغاز ہوا‘ اسلحہ اور ہیروئن کی سمگلنگ‘ سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ کے ذریعہ پیسہ بنانے کا اس دور میں آغاز ہوا۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بارے میں سیاسی حلقوں کی رائے یہ ہے کہ سیاست میں پیسہ لگا کر اسمبلی کا رکن بننے اور رکن بننے کے بعد انتخابات میں لگائے گئے پیسے سے کئی گنا زیادہ کمانے کا رجحان اسی دور میں شروع ہوا لیکن 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بننے والے سویلین وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت 1988ءکے بعد بننے والی حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ صاف شفاف حکومت تھی۔ جونیجو صاحب نے بدعنوانی کے الزام میں اپنی کابینہ کے تین وزراءکو نکال دیا۔ خود محمد خان جونیجو مرحوم کے دامن پر بھی کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔ نوے کی دہائی میں بننے والی حکومتوں میں سیاسی محاذ آرائی اور اپنے وجود کے بقاءکے لئے قومی خزانے سے ارکان کی وفاداریاں خریدنے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ کیا گیا فنڈز میں خورد برد بھی شروع ہوئی۔ نوے کی دہائی میں سرکاری سودوں میں کمیشن کھانے کی طرح ڈالی گئی۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں تو بدعنوانیاں ایک تسلسل کے ساتھ بڑھتی رہیں خاص طورپر جب انہوں نے سویلین حکومت قائم کی تو اس حکومت میں مال بنانے کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا۔ جنرل مشرف نے نیب کا ادارہ بھی بنایا لیکن یہ ادارہ بھی بدعنوانی نہیں روک سکا۔ نیب کے دائرہ اختیارات سے فوجی افسروں‘ ججوں اور میڈیا کو نکال دیا گیا۔ خود نیب میں بیٹھے لوگوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
2008ءمیں آصف علی زرداری کی حکومت نے”مفاہمت کی سیاست“ کے نام جو گل کھلائے ان سے قوم اچھی طرح واقف ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے طیب اردگان کی اہلیہ کا ہار تو چند روز قبل واپس کیا ہے۔ ادھر سندھ میں جہاں آصف زرداری اور پی پی پی کی حکومت ہے وہاں جو کچھ اب بھی ہو رہا ہے اس کی ہولناک داستانیں ہر روز سامنے آ رہی ہیں۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں سویلین لیڈر آج کے لیڈروں کے مقابلے میں تو فرشتے نظر آتے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے پہلے پاکستان پر بدعنوانی اور نااہلی کا وہ عذاب نہیں اترا تھا جو ان دنوں قوم جھیل رہی ہے۔