برسوں پہلے جناب حمید نظامی نے کہا تھا کہ قلم کی بھی عصمت ہوتی ہے۔
بعد کے آنے والے برسوں میں محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے ثابت کیا تھا کہ قلم کی حرمت بھی ہوتی ہے۔ اپنے اخبار و افکار میں انہوں نے ان باتوں کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ کئی نسلوں کی تربیت بھی کی۔ ابھی تک ان کے تربیت یافتہ بے شمار اہل قلم دوسرے بہت سے اداروں میں کامیابی کے زینے چڑھ رہے ہیں۔ آگے بڑھ رہے ہیں۔
جدید زمانے کے کئی ادارے اب ترقی دیتے ہیں۔ تنخواہ دیتے ہیں مگر تربیت نہیں دیتے.... کل مجھے کسی نے کہا آپ دس سال قومی اسمبلی کی رکن رہی ہیں۔ مگر آپ سیاسی کالم کم لکھتی ہیں میں انہیں کیا بتاتی سیاسی کالم لکھنے کے لئے سیاسیات کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کسی بھی سیاسی شخصیت کا سنا سنایا فقرہ اٹھا لیں اور زور قلم دکھا دیں۔
اینکر پرسن بننے کے لئے بھی کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی.... صرف ”کھنچائی“ اور ”دھنائی“ کرنے کا نرالا ڈھنگ آنا چاہیے....
جب ہم پاکستان کی خوبصورتیوں کا ذکر کرتے ہیں تو کئی لوگ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں کیا یہ خوبصورتی نہیں کہ جس کا جہاں دل چاہے سکول کالج اور یونیورسٹی کھول کے مقامی رہائشیوں کی زندگیاں اجیرن کر دیتا ہے مگر مظلوم رہائشیوں کی فریاد اس لئے نہیں سنی جاتی کہ فریاد میں ”چمک“ نہیں ہوتی۔ کسی کا جہاں دل چاہے تکے کباب کی دکان کھول لیتا ہے۔ کوئی جب چاہے نئی سیاسی پارٹی بنا لیتا ہے۔
بہت پیارا ملک ہے۔ اس ملک میں قانون ضابطہ اخلاقیات، مروت، رواداری صرف نظریہ ضرورت کے تحت اختیار کی جاتی ہے۔ جب لوگ بڑی بڑی باتیں لکھتے ہیں تو ہمیں چھوٹی چھوٹی باتیں یاد آنے لگتی ہیں.... ان دنوں میں اطلاعات و نشریات کی سٹینڈنگ کمیٹی کی رکن تھی اور پیپلز پارٹی کے قمرالزمان کائرہ وزیر اطلاعات و نشریات تھے۔ حکم حاکم آیا تھا کہ پیمرا کے قوانین میں ترمیم کی جائے جو پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے تھے۔ یہ میٹنگ پیمرا کے دفتر میں ہو رہی تھی اور ایک ایک شق پر دستور کے مطابق بحث ہو رہی تھی۔ میں چونکہ ہوم ورک کرنے کی قائل تھی اس لئے مجھے بولنے کی سزا بھی ملتی تھی۔ ضابطہ اخلاق طے کرتے وقت میں نے چند باتیں کہی تھیں کہ صدر یا وزیراعظم کسی بھی پارٹی کا ہو۔ محترم ہوتا ہے۔ نقالی کے پروگرام پیش کرتے وقت حد سے نہیں گزرنا چاہئے۔ ٹھیک ہے کہ دنیا بھر کے کامیڈی پروگراموں میں اہل اقتدار کے مزاحیہ خاکے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے انداز کلام کی نقلیں اتاری جاتی ہیں۔ ان کے کارٹون بنائے جاتے ہیں۔ کیری کیچر بنائے جاتے ہیں مگر ہنسانے کی حد تک.... اس میں دل آزاری اور ہتک عزت کا پہلو نہیں ہونا چاہیے۔ ان پروگراموں کو پیش کرنے والے اور لکھنے والے اپنی نقلیں اور اپنے کارٹون کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں۔ اتنی حد رکھیں اور ہر کسی لیڈر میں کوئی جسمانی یا کلامی نقص ہو تو اسے بار بار پیش کر کے کیا بتانا چاہتے ہیں۔ بعض نقائص پیدائشی ہوتے ہیں۔ بعض حادثاتی ہوتے ہیں۔ آپ کے والد کا کوئی آپریشن ہو جائے اور ایسی خرابی پیدا ہو جائے کہ گلے سے ٹھیک آواز نہ نکل سکے۔ تو کیا آپ سارا دن اپنے والد بزرگوار کی نقلیں اتارتے رہیں گے بلکہ کوئی اور نقل اتارے گا تو اسے مارنے کو دوڑیں گے۔ ”حد چاہیے نقل میں عقوبت کے واسطے“
جب اینکرز والی شق آئی تو میں نے اعتراض اٹھایا کہ بے شک ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ دانشور قسم کے اینکرز ہیں مگر بعض لوگ جو حادثاتی طور پر اینکر بن بیٹھے ہیں وہ اس طرح کا رویہ اختیار کیے رکھتے ہیں کہ سامنے بیٹھی شخصیت کو دو کوڑی کا ثابت کر کے رہیں گے۔ وہ آپ کو سقراط اور بقراط ظاہر کرتے ہیں اور سیاسی شخصیت کو بونا بنا کے دکھاتے ہیں۔ کئی لوگ تاریخ پاکستان سے خود نابلد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخصیت نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ کے حوالے سے بات کرے تو خود اسی کے لتے لینے شروع کر دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک فاضل اینکر مجھے یہ کہہ کر عاجز کرتے رہے کہ اندراگاندھی نے کہہ دیا تھا میں نے دوقومی نظریہ بحیرہ عرب میں پھینک دیا ہے۔ آپ کونسا دو قومی نظریہ لئے پھرتی ہیں۔ ایسی سینکڑوں باتیں ہیں۔ جن کا اس کالم میں ذکر ممکن نہیں.... مثلاً قائداعظم اور علامہ اقبال کی ذات کو متنازع بنا دینا۔ جو شخص کہہ رہا ہے (ناعوذ باللہ) پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ اس کو بار بار بلوانا حالانکہ کسی ملک کے ٹی وی پر کوئی شخصیت اپنے ملک کے بارے میں ایسی باتیں کرنے کی مجاز نہیں.... وغیرہ وغیرہ اس لئے اینکر پرسنز کے لئے بھی ایک ضابطہ ہونا چاہئے۔
یہ میں آج بھی کہتی ہوں.... اس روز بھی اتنا ہی کہا تھا۔ معلوم نہیں جناب کائرہ صاحب جو اپنی پارٹی کے بہت ہی نفیس اور بااخلاق نمائندہ ہیں انہوں نے باہر نکل کر پریس کانفرنس میں کیا کہہ دیا تھا کہ ایک چینل پر میرے خلاف پتھروں کی بارش ہونے لگی.... اندر ہمارا سیشن چل رہا تھا۔ ایک فاضل رکن اندر آئے اور بولے بشریٰ صاحبہ: فلاں چینل پہ دو اینکر آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ آپ کی ناول نگاری افسانہ نگاری، کالم نگاری اور ڈرامہ نگاری سب کو رگید رہے ہیں۔ آپ نے کیا کہہ دیا ہے۔ میں بہت حیران ہوئی۔ شام کو بہت سے چینلز سے فون آنے لگے تو مجھے انداز ہوا کہ کائرہ صاحب نے سارا ملبہ مجھ پر گرا دیا ہے۔ مگر کہا کیا ہے یہ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ان سب لوگوں میں سب سے زیادہ مہذب اور شائستہ انداز جناب معید پیرزادہ کا تھا۔ انہوں نے پوچھا بشریٰ صاحبہ: آج آپ نے میٹنگ میں کیا کہا ہے۔ میں آپ کو ابھی لائیو لے کر بات کروانا چاہتا ہوں....
خیر شام تک پاکستان والے دو اینکر مجھے اتنی گالیاں دے چکے تھے کہ میں سوچ رہی تھی کیا اینکر پرسن مقدس گائے ہوتے ہیں کہ ان کی کارکردگی یا غلطی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ سارا دن بڑی بڑی شخصیات کے بخیے ادھیڑتے ہیں اور اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ اور بالا سمجھتے ہیں۔
میرا گلہ اور غصہ کائرہ صاحب سے تھا۔ میں نے انہیں احساس دلایا کہ وہ ایک محترم خاتون کا پلہ پکڑ کے سیاست میں آئے ہیں۔ ہر سانس کے ساتھ اس کو شہید بی بی کہتے ہیں مگر کسی دوسری محترم خاتون کے ساتھ ایسا سلوک کرواتے ہیں۔ آخر میں نے ایسا کیا کہہ دیا تھا اور کہہ دیا تھا تو بغیر تصدیق کے ہی سنگ باری شروع ہو گئی۔ غرض تین ماہ میں ان کی میٹنگ میں نہیں گئی اور کائرہ صاحب سے ناراض رہی۔ پھر ایک دن انہوں نے خود آ کر تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ میں نے اپنی جان بچانے کے لئے آپ کا نام لے دیا۔ انہوں نے پوری میٹنگ کے سامنے مجھ سے معافی بھی مانگی۔ یہ ان کے اعلیٰ اخلاق کی نشاندہی ہے....
یہ سب بتانے سے مقصد یہ تھا کہ جس فقرے پر سارا کالم استوار کیا جا رہا ہے معلوم نہیں وہ فقرہ اس سیاسی شخصیت نے کس زاویے سے، کس انداز سے، کن معنوں میں، کس بے خیالی میں کہہ دیا۔ آپ تک پہنچا تو ”شب دیجور“ بن گیا۔
بہت سے اینکر ٹی وی سکرین پر اپنے کالم بولتے ہیں اور اخبار کے صفحات پر اینکری کرنے لگتے ہیں۔ میں تو دس سال نیشنل اسمبلی میں رہ کر آئی ہوں۔ اور اندر کے بہت سے قصے کہانیاں لکھ سکتی ہوں۔ سمجھ سکتی ہوں لیکن ملک میں مسائل اور بھی بہت ہیں۔ پھر یہ کہ اچھی بات پر کالم کیوں نہیں لکھا جا سکتا۔ مثلاً جب میں نے 14 جون 2010ءکو اسی پارلیمنٹ میں 23 برس کے بعد کالا باغ ڈیم کا مدعا اٹھایا تو میرے خلاف ایک جماعت کی طرف سے حشر اٹھ کھڑا ہوا۔ میں اکیلی لڑ رہی تھی....
آخر میں میں نے صرف اتنا کہا کہ آج میں اپنی سانسوں سے اس پارلیمنٹ کے درودیوار پر لکھتی ہوں کہ کالاباغ ڈیم ضرور بنے گا۔ ہم نے نہ بنایا تو ہماری آنے والی نسلیں بنائیں گی۔
وہ جو کہہ رہے تھے ”یہ مردہ گھوڑا ہے“ آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری ہر مصیبت کا حل کالا باغ ڈیم میں ہے.... تب یہ سارے اینکر چپ بیٹھے رہے۔ اگر گالی دی تھی تو شاباش بھی دیتے۔ یہ سب ان کو بلواتے رہے جو کالا باغ ڈیم کے حق میں نہ تھے۔
یہ عالی ظرفی عالی قدر عزت مآب جنت مکانی ڈاکٹر مجید نظامی میں تھی کہ انہوں نے میرے اس اقدام کو ایڈیٹوریل میں سراہا۔ بات چل نکلی ہے نا؟ کالا باغ ڈیم بن کے رہے گا.... انشااللہ!
میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتی ہوں کہ سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی دیکھا ہے اور اب باہر بیٹھ کر بھی ان کو دیکھ رہی ہوں۔ میں اپنی سیاسی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھ رہی ہوں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہم داغ داغ اجالے کا ہی ذکر کریں۔ اس کے اندر صبح کی مانند بھی کچھ لوگ رہتے ہیں۔ ان کا بھی ذکر کریں۔ لذت کام و دہن کے لئے چٹ پٹی کہانیاں نہ پیش کریں.... کہانی سنانے اور سٹوری بنانے میں بڑا فرق ہے۔
میں آج کل جناب مجید نظامی کی یادیں ترتیب دے رہی ہوں جنہوں نے نظریہ پاکستان اور دوقومی نظریہ کو زندہ رکھنے کے لئے زندگی بھر جدوجہد کی۔ ہمارے خیالات کو سینچا اور کئی نسلیں پیدا کیں۔ اچھے لوگوں کی قدر کی۔ غلط لوگوں کو راہ راست پر لائے۔ ان میں بے پناہ حوصلہ تھا۔ سب کی سنتے تھے.... مگر ان کے منہ سے کسی کے لئے کبھی کوئی ناشائستہ لفظ تک نہیں سنا گیا۔
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024