30 اگست کی شب جناب عمران خان اپنے حلیف علّامہ القادری کی نسبت ’’بہادر‘‘ نکلے جب پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے ’’پرُامن کارکُن‘‘ ہتھوڑوں، ڈنڈوں، پتّھروں اور غُلیلوں کو ہاتھوں میں لئے پارلیمنٹ ہائوس، ایوانِ صدر اور وزیرِاعظم ہائوس پر قبضہ کرنے کے لئے مسلسل حملے کر رہے تھے۔ عمران خان اپنے "Tigers" کا حوصلہ بڑھانے کے لئے وقفوں وقفوں کے بعد اپنے بُلٹ پرُوف ایئر کنڈیشنڈ کنٹینر سے، جھروکا درشن دیتے رہے۔ لیکن علّامہ طاہراُلقادری اپنی جان کے خوف سے اپنی بُلٹ پرُوف گاڑی میں دبکے بیٹھے رہے۔ ’’دبکے بیٹھنا‘‘ کا مطلب ہے ’’ڈر سے چھُپ جانا‘ خاص طور پر جان کے خوف سے۔ ایسے شخص کو دبکیلا، کم ہِمّت اور بُزدِل کہتے ہیں۔ ’’بُز‘‘ بکرے اور بکری کو کہتے ہیں اور ’’بُزدِل‘‘ بکری یا بکرے کے دِل والا۔ اُستاد شاعر انشأاللہ خان اِنشاؔ کا واسطہ اپنے دَور کے ’’واعظ‘‘ کی ایک گنجی سی لونڈی سے پڑا تھا جب انہوں نے کہا کہ ؎
’’پڑی پھِرتی تھی گھر گنجی سی اِک لونڈی جو واعظ کی
بُزِ اخفش بنائے اپنی صُورت خاکساری کی!‘‘
علّامہ طاہر اُلقادری، عیّاروں، مکّاروں اور چالبازوں کے ’’شیخ اُلاسلام‘‘ ہیں۔ انہوں نے بھائی چارے کا دام بچھا کر میانوالی کے جذباتی نیازیؔ پٹھان کو پھانس لِیا ہے اور جوشِ خطابت کی آڑ میں انہیں ’’گالیوں کی ڈکشنری‘‘ زبانی یاد کرا دی ہے۔ جناب ِعمران خان نے اپنے مُنہ بولے بڑے بھائی سے ایک اور فن بھی سِیکھا ہے اور وہ یہ کہ ’’پارلیمنٹ ہائوس، ایوانِ صدر اور وزیرِاعظم ہائوس پر قبضہ کرنے کی جنگ میں اُترنے سے پہلے اپنے دونوں بیٹوں، سُلیمان خان اور قاسم خان کو، پکنک منانے کے لئے بھجوا دیا ہے۔ وہ علّامہ القادری کی اِس ادا پر بھی فریفتہ ہیں کہ موصوف نے اپنی اہلیہ، دونوں بیٹوں، بہوئوں، بیٹیوں اور دامادوں کو اِنقلاب مارچ اور دھرنے میں شریک ہونے کی زحمت نہیں دی کیونکہ انہیں ’’اِنقلاب‘‘ کی کامیابی کے لئے چِلّہ کاٹنا ہے۔
یُونان کے سکندر اعظم نے ایران کے (Dariusiii) دارا سوم سے جنگ شروع کی تو دارائے سوم جب میدانِ جنگ میں اُترا تو اُس کے ساتھ اُس کی ماں، ملکۂ خاص، بیٹیاں شاہی خاندان کی دِیگر خواتین اور کنیزوں کی ایک بڑی تعداد سب سے آگے تھی۔ لڑنے والے فوجی سرداروں کے ہاتھوں میں زرق برق انگوٹھیاں تھیں اور شاہی گارڈز کے نیزوں کی شامیں سونے کی تھیں۔ دارائے ایران ارغوانی خِلعت پہنے ہُوئے تھے۔ جس پر کثرت سے جواہرات ٹکے تھے جو جگ مگ کر رہے تھے۔ 330 ق م کے اختتام پر دارائے ایران یُونانی فوج کے ہاتھوں قتل ہو گیا لیکن اُس کی بہادری اور عظمت کی کہانیاں عالمی تاریخ کا حِصّہ ہیں۔ علّامہ القادری (اپنی فِقّہ کے مطابق) ’’شہادت‘‘ کے طلبگار تو ہیں لیکن وہ اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ پاپائے روم کی نقل کرتے ہُوئے، فاخرہ لباس پہن کر مخالفین کو جی بھر کر گالِیاں دے کر اپنے پَیروکاروں کا حوصلہ بڑھائیں۔
جناب عمران خان نے اپنے لشکر کو وزیرِاعظم ہائوس کی طرف مارچ کرنے کا حُکم دیتے ہُوئے کہا کہ ’’میرے ساتھ صِرف نوجوان مرد‘‘ "Tigers" آگے بڑھیں گے۔ عورتیں اور بچّے یہیں رہیں گے۔‘‘ لیکن علّامہ القادری تو عورتوں اور بچّوں خاص طور پر شِیر خوار بچّوں کو اپنے ’’اِنقلاب‘‘ کا اِیندھن‘‘ بنانے کے لئے لائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اِس طرح کا کوئی اعلان نہیں کِیا۔ انہیں تو عورتوں اور بچّوں کی لاشوں کی ضرورت بہت ضرورت ہوتی ہے۔ شاید اُن کا یہ خیال ہو کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے نتیجے میں دستیاب لاشیں بہت ہی کم ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو جب پولیس اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی تو جواب میں اُن پر ہتھوڑوں، ڈنڈوں ، پتّھروں اور غُلیلوں سے حملہ کِیا گیا۔ جواباً پولیس نے ہوائی فائرنگ کی اور آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ گھُمسان کا رَن پڑا (اب بھی یہی صورت ہے)۔ جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے، نہ جانے دونوں طرف سے کتنے لوگوں کا کیا کیا نقصان ہو چُکا ہوگا؟
جناب عمران خان کی اُٹھان اچھی تھی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان واحد لِیڈر ہیں جو نوجوان طبقے کو Attract" کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اُن کی کمائی کو روایت پسند اور ہر دور میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے، پِیر زادوں ٗ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں نے لُوٹ لِیا جو ہر تھالی کے بینگن رہے ہیں اور جب ’’بینگن پسند حُکمرانوں‘‘ کو زوال آیا تو اُن کے بعد آنے والوں کی تھالی کا بینگن بن گئے۔ جناب عمران خان کی پارٹی کے لئے قومی اسمبلی میں 35 پنجاب اسمبلی میں 30 اور خیبر پی کے کی حکومت کافی تھی۔ وہ اگر اچھی کارکردگی دِکھاتے تو آئندہ عام انتخابات میں قومی سطح پر بھاری مینڈیٹ بھی لے سکتے تھے۔ علّامہ طاہراُلقادری کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی صِفر کے برابر ہے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ ’’اُن کی مرضی کا اِنقلاب آئے اور وہ ’’قائدِ اِنقلاب‘‘ کی مسند پر رونق افروز ہو کر اپنے ایک ایک ناپسندیدہ شخص کو خُود اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کا شوق پُورا کریں!‘‘
’’کینیڈین شیخ اُلاسلام‘‘ علّامہ طاہراُلقادری ریاستِ پاکستان کے "Stake Holder" نہیں ہیں۔ کینیڈا کی شہریت اختیار کرنے کے لئے اُن کے ملکۂ الزبتھ دوم کی وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد اُن کے اِس دعوے کی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ ’’مَیں تو صِرف اللہ اور اُس کے رسولؐ کا وفادار ہُوں‘‘۔ جناب الطاف حسین کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ انہیں پارلیمنٹ، ایوانِ صدر اور وزیرِاعظم ہائوس پر چڑھائی کرنے والے ہتھوڑا گروپوں، ڈنڈا برداروں، سنگ زنوں اور غُلیل باز شر پسندوں سے بہت ہمدردی ہے اور ان کے خلاف پولیس کی جوابی کارروائی سے بہت دُکھ ہُوا ہے چنانچہ انہوں نے ایم کیو ایم کو سوگ منانے کا حُکم دے دِیا ہے اور وزیرِاعظم کو بھی مشورہ دے دِیا ہے کہ وہ اپنے منصب سے مستعفی ہو کر مسلم لیگ (ن) کے کسی اور لیڈر کو وزیرِاعظم منتخب کروا لیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ الطاف بھائی فوری طور پر وطن واپس آ کر عمران خان اور علّامہ القادری کے شانہ بشانہ ایک ’’بُلٹ پرُوف اور ایئر کنڈیشنڈ کنٹینر‘‘ میں رونق افروز ہو جائیں اور اپنی مترنّم تقریروں سے اِنقلابیوں کا دِل بہلائیں۔
پاکستان میں دُہری شہریت کے حامل اشخاص پر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا رُکن منتخب ہونے پر پابندی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ دُہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص پاکستان میں یا پاکستان سے باہر رہ کر کسی بھی سیاسی پارٹی کا چیئرمین یا صدر ہو سکتا ہے۔ علّامہ القادری نے جنوری 2013 ء میں اسلام آباد کے ڈی چوک میں (بقول اُن کے) لاکھوں انسانوں کے سمندر سے خطاب کرتے ہُوئے صدر زرداری، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف، تمام وفاقی وزیروں اور مُشیروںکو برطرف اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دِیا تھا۔ اگر یہ فیصلہ اُس وقت کر لِیا جاتا کہ غیر مُلکی شہری پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا تو علّامہ القادری کو دوسری بار پاکستان تشریف لا کر ’’اِنقلاب اِنقلاب‘‘ لانے کی جرأت نہ ہوتی اور نہ ہی جناب الطاف حسین کو ریاستِ پاکستان کے مقدّس اداروں کی بے حرمتی کرنے والوں سے ہمدردی تادمِ تحریر عمران والقادری چھاپ! ’’گُلّو بٹ، اِنقلاب اور آزادی‘‘ کے حصول کے لئے، کفن یا کفن کے بغیر سرگرمِ عمل ہوتے۔ صورت یہ ہے کہ ہر سیاسی، مذہبی جماعت کو ’’گُلو بٹ سکول آف تھاٹ‘‘ کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے اور چاروں طرف مُنہ کر کے صدا دی جاتی ہے کہ ؎
’’گُلّو آ تینوں اکھیاں اُڈیکدِیاں‘‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024