قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے احتساب قوانین میں تبدیلی کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اس تجویز پر غور کیا ہے کہ ججوں اور جرنیلوں کو بھی احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔ یہ تجویز ایک عرصہ سے زیر بحث چلی آ رہی ہے۔ راقم کو یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے پہلی مرتبہ نیب کے قیام کا اعلان پی ٹی وی میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا تو اس خاکسار نے جنرل پرویز مشرف سے سوال کیا تھا کہ نیب سویلین اداروں‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا احتساب کرے گا تو فوجی افسروں کا احتساب کون کرے گا تو جنرل مشرف نے جواباً کہا کہ فوج کے اندر ایک داخلی احتساب کا نظام موجود ہے جس سے فوجی افسروں کا احتساب ہوتا رہتا ہے اور انہیں سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ ججوں کے احتساب کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل موجود ہے جو ججوں کے کنڈکٹ اور ان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کر کے سزا دیتا ہے۔
محسوس یہ ہو رہا ہے کہ احتساب قوانین میں تبدیلی پر غور کرنے کے لئے بلائے گئے اجلاس میں ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کی تجویز پانامہ کیس میں مسلم لیگ ن کے سابق صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے ملنے والی سزا کا ایک ردعمل ہے۔ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران اور پھر جے آئی ٹی کے قیام اور اس کے سامنے پیشی کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت کا یہ بیانیہ سامنے آیا کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ اس سازش میں بالواسطہ طور پر فوج اور عدلیہ کی طرف انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے۔ اس عرصہ میں جب مسلم لیگ ن کے ترجمان اور وزراءبار بار عدلیہ اور فوج پر اشارتاً نکتہ چینی کرتے رہے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تجویز دی تھی کہ عدلیہ اور فوج کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی مسلسل سابق وزیراعظم کو مشورہ دیتے رہے کہ عدلیہ اور فوج پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں‘ لیکن ان دونوں حضرات کی باتیں نہیں سنی گئیں۔ سابق وزیراعظم اور ان کے بعض قریبی ساتھیوں کا اب بھی یہی بیانیہ ہے کہ ان کیخلاف سازش ہوئی ہے۔ احتساب عدالت میں پیشی کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کیخلاف سازش کیوں کی گئی۔ اس بات پر کسی کو اعتراض نہیں کہ پاکستان میں ایک ایسے احتسابی نظام کی ضرورت ہے جو سب کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ احتساب کی ماضی میں جو بھی کوششیں ہوئیںان میں بھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو ایوب خان نے جب مارشل لاءلگایا تو ان سیاستدانوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا گیا جن کے خلاف مارشل لاءلگایا گیا تھا۔ ایبڈو کے قانون کے تحت ان سیاستدانوں پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی اور ایوب خان نے سینکڑوں سول سرونٹس کو بھی کرپشن کے الزام میں برطرف کر دیا تھا۔ یحییٰ خان نے مارشل لاءلگایا تو انہوں نے بھی سینکڑوں مزید سول افسروں کو بدعنوانی کے الزام میں ملازمت سے نکال دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے بھی بیوروکریٹس کو بدعنوانی کے الزام میں فارغ کر دیا اور مقدمات چلائے۔ جنرل ضیاءالحق نے تو ”پہلے احتساب پھر انتخابات “کا نعرہ لگاکر صرف پیپلز پارٹی اور اس سے ہمدردی رکھنے والوں کی زندگی عذاب کر دی۔ صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کو بدعنوانی اور آئین اور قانون کی خلاف ورزی پر برطرف کیا۔ نوازشریف نے اپنی پہلی اور دوسری حکومت میں انتقامی احتساب کا نشانہ پیپلز پارٹی کو بنائے رکھا اور پیپلز پارٹی نے 1993ءسے 1996ءتک دوسری حکومت میں مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کا احتساب کیا۔ ان سارے ادوار میں احتساب انتقام کی شکل اختیار کرتا رہا۔
جنرل مشرف نے جب قومی احتساب بیورو NAB بنایا تو انہوں نے کہا تھا کہ "NAB Will NAB the corrupt ones"
نیب نے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سیاست دانوں اور سرکاری افسران کو بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا اور ان سے بھاری رقوم بھی وصول کیں۔ مشرف دور کے خاتمے کے بعد بھی نیب کا ادارہ قائم ہے اور کام کر رہا ہے۔ نیب کے ادارے اور قوانین میں مسلم لیگ ن‘ پی پی پی اور دوسری جماعتوں نے تبدیلیاں لانے کا بار بار اعلان کیا۔ ایک پارلیمانی کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن ابھی تک نیب قوانین میں نہ تبدیلی ہوئی نہ ان قوانین میں اصلاح کی گئی۔ نیب کے موجودہ چیئرمین کو حکومت اور اپوزیشن دونوں نے مشورے سے مقرر کیا تھا پانامہ کیس کے بعد اب مسلم لیگ ن بھی نیب قوانین کو تبدیل کرنے کے لئے سرگرم ہو گئی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں ہر حکومت احتساب کی بات کرتی ہے لیکن وہ اپنے مخالفین کا احتساب چاہتی ہے‘ لیکن اپنے آپ کو احتساب سے ماورا سمجھتی ہے۔ وطن عزیز میں صورت حال یہ ہے کہ کوئی شہری اگر کونسلر منتخب ہو جائے تو چند سال بعد وہ کروڑ پتی بن جاتا ہے۔ قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن یا وزیر بن جائے تو اپنی سات نسلوں کے لئے کمائی کر کے چھوڑ جاتا ہے۔ اب تو یہ جملہ عام طورپر سننے کو ملتا ہے کہ ”سیاست اب انوسٹمنٹ ہے“ رکن اسمبلی بننے پر کروڑوں لگا¶ اور اربوں کما¶‘ سول بیورو کریسی تو سیاست دانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ بلوچستان کے ایک صوبائی سیکرٹری کے گھر سے کروڑوں روپے کی کرنسی اور زیورات برآمد ہوئے ہیں۔ کچھ باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایسے لاتعداد بیورو کریٹس ہیں جنہوں نے ” محنت سے کمائے ہوئے“ کروڑوں روپے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں‘ جنہیں وہ ملک سے باہر منتقل کرتے رہتے ہیں۔
سرکاری خزانہ پر ہاتھ صاف کرنا اور اپنی جیبیں بھرنا اب کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی "Say no to corruption" اور ”احتساب سب کا“ نعروں کی حد تک تو بہت بھلے لگتے ہیں‘ مگر عمل کی ضرورت ہے۔
دنیا کے ہر جمہوری نظام میں احتساب کا کڑا نظام موجود ہے منتخب رکن ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ احتساب سے ماورا ہے حالیہ چند برسوں میں مغربی ملکوں‘ جنوبی کوریا ‘ اسرائیل‘ تھائی لینڈ میں حکومت کے سربراہ کرپشن میں جیل جا چکے ہیں۔ سیاستدانوں‘ بیورو کریٹس‘ ججوں‘ جرنیلوں سب کا احتساب ہونا چاہئے لیکن صرف نعروں کی حد تک نہیں علمی اقدامات بھی ہونا چاہئیں۔آخری بات یہ کہ چاروں خلفائے راشدین نے اپنے آپ کو کڑے احتساب کیلئے ہمیشہ پیش کیا اور اس میں سرخرو بھی ہوئے۔
٭٭٭٭٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024