وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے جو یہ بات دردمندی اور جرات مندی کے ساتھ کی ہے کہ میں غلط کام نہ خود کروں گا نہ کسی کو کرنے دوں گا، کوئی دوسرا وزیر شذیر کسی حکومت کا ہو وہ ایسا بیان نہیں دے سکتا۔ اب تک سب حکومتوں میں کسی وزیر کا نام کسی کو اس طرح یاد ہو کہ اس نے کوئی اچھا کام کیا ہو تو اس وزیر کا نام بتائے؟ ہمارے ہاں لوگ وزیر شذیر بننے کے لئے مرے جاتے ہیں۔ ان سے جو کچھ کرا لو مگر وزیر بنا دو۔ خواہ چند ہفتوں کے لئے ہو تاکہ وہ باقی ماندہ زندگی سابق وزیر کے طور پر پر گزار سکیں۔ یہاں کئی سابق وزیر شذیر پھرتے ہیں۔ انہیں یہ تعارف کراتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی کہ میں سابق وزیر ہوں جبکہ ان کے وزیر شذیر ہونے کو 25 سال سے زیادہ ہو گئے ہوں گے۔ ان کو پتہ ہے کہ سابق وزیر تو سابق نہیں ہو سکتا۔
میرا خیال ہے کہ کسی بھی شعبے میں کوئی سربراہ ٹھیک ہو جائے تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔ یہ ’’ٹھیک‘‘ اس طرح کا نہیں ہے جو حکمرانوں کے خوشامدی استعمال کرتے ہیں جی آپ فکر نہ کریں ’’سب ٹھیک ہے‘‘ چودھری نثار کی یہ بات بھی قابل غور اور قابل تحسین ہے کہ ایف آئی اے اگر کرپشن نہیں پکڑ سکتی یا پکڑنا چاہتی نہیں تو یہ ادارہ بند کر دیا جائے۔ ایف آئی اے چوروں اور لٹیروں کے لئے موت کی علامت اور شریف شہریوں کے لئے تحفظ کی علامت ہے۔ غبن کرنے والے ضمانتوں پر پھر رہے ہیں۔ یہ تماشا ختم ہونا چاہئے۔ میں خود یہ ادارہ بند کرنے کی سفارش کروں گا۔ کوئی وزیر یہ جملہ کہہ سکتا ہے۔ رحمن ملک بھی وزیر داخلہ تھا۔ وہ مشیر داخلہ ہوتا تھا تو کوئی وزیر داخلہ نہیں ہوتا تھا اور جب وزیر داخلہ ہوتا تھا تو کوئی مشیر داخلہ نہیں ہوتا تھا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ ڈبل سواری پر پابندی مجھ سے پوچھے بغیر لگائی گئی ہے۔ وہ استعفیٰ نہیں دے سکتے۔ یہ اعلان بھی جھوٹ موٹ کا نہیں کر سکتے۔ مگر یہ تو کر سکتے ہیں ردعمل میں خود کسی موٹر سائیکل پر پیچھے ڈبل سواری کی طرح بیٹھ جاتے اور سارے شہر میں پھرتے بے شک کوئی بیس بچیس گاڑیاں اپنی سکیورٹی کے لئے ساتھ چلواتے۔ کوئی پولیس والا ان کا چالان کیسے کر سکتا تھا مگر کیا پتہ کوئی پولیس والا ان کو پہچانتا ہی نہیں۔ وہ کہتے کہ میں وزیراعلیٰ سندھ ہوں تو وہ سمجھتا کہ یہ مذاق کر رہا ہے مگر بچت ہو جاتی کہ ’’صدر‘‘ کہتے ہیں پارٹی جوان چلائیں گے۔ اور حکومت میں اور قائم علی شاہ چلائیں گے۔ جوان قیادت میں انہیں بلاول کا نام لینے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ بے شک اس کے ساتھ آصفہ کا نام بھی لے لیتے۔
چودھری نثار نے کہا کہ کرپشن کے بڑے بڑے سو کیس جوں کے توں پڑے ہیں۔ مجھے خبر ہی نہیں ہوتی اور تحقیقات بدل دی جاتی ہیں۔ یہ مداخلت کہیں اوپر سے ہوتی ہو گی کیونکہ کوئی نیچے سے تو یہ جرات کر نہیں سکتا جبکہ رحمن ملک ہر محکمے میں مداخلت کرتا تھا۔ چودھری نثار علی خان نے کبھی یہ نہیں کہا اور یہ بھی ایک بہت بڑا کریڈٹ ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی وزیراطلاعات شیری رحمن بھی رحمان ملک کی مداخلت سے گئی تھی اور پھر اسے امریکہ میں سفیر بھی رحمن ملک کی ’’مداخلت‘‘ پر بنایا گیا تھا۔ حسین حقانی کے بعد ایسا ہی سفیر چاہئے تھا۔
چودھری نثار نے کہا کہ کوئی ذمہ دار افسر یا اہلکار کسی بے ضابطگی میں ملوث پایا گیا تو وہ جیل جائے گا۔ وزارت داخلہ کے علاوہ ہر وزارت میں ایسے افسران اور اہلکاران کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی معرکہ آرائی ہو گی کہ انہیں تلاش کر لیا جائے اور پھر نکال باہر کر دیا جائے۔ میری گذارش ہے کہ ایسے لوگوں کو معطل نہ کیا جائے یہ تو سیاسی قسم کی سزا ہے۔ کبھی کبھی معطلی بڑی مبارک ثابت ہوتی ہے۔ خدا کی قسم مستحکم برطرفی کے بعدیہ افسران خود بخود ملک کی جان چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ ان کا سب کچھ ملک سے باہر ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں اکثر پاکستان میں بہت خراب ہوتے ہیں؟
ایک صحافی نے لکھا ہے کہ قومی اسمبلی میں چودھری نثار کی آمد خوشگوار جھونکے کی طرح ہوتی ہے۔ ان کی راست گوئی، ثابت قدمی، جرات مندی، خودداری سے انہیں پسند کیا جاتا ہے۔ اراکین اسمبلی ان کے آس پاس تھے۔ وہ محبتیں وصول کر رہے تھے اور لگتا تھا کہ بانٹ رہے ہیں۔ عمران خان نے چودھری نثار کو بہت منت سے کہا کہ تم تحریک انصاف میں آ جائو۔ تمہیں وہی مقام ملے گا جو مجھے حاصل ہے۔ مگر مقام وہ ہے جو حاصل کیا جاتا ہے۔ کسی کی دی ہوئی چیز خیرات ہوتی ہے۔ نعمت نہیں ہوتی۔ جس شخص نے زندگی خود ایک اور زندگی بنائی ہو وہ کس طرح ایسی زندگی قبول کر سکتا ہے؟ جو ادھار میں دی جائے۔ چودھری صاحب نے انکار کر دیا۔ میں سیاستدانوں کے لئے بہت محتاط ہوں مگر چودھری صاحب شاید اکیلے آدمی ہیں جس نے کبھی اپنی پارٹی تبدیل نہیں کی۔ انہوں نے نواز شریف کو کبھی نہیں چھوڑا۔ وہ وفا والے آدمی ہیں ورنہ یہاں تو ایک آدمی سیاست کے میدان میں نہیں ہے جو لوٹا نہ بنا ہو۔ شکر ہے کہ حکومت میں ایک آدمی تو ہے جس کی تعریف کرتے ہوئے اطمینان محسوس ہو رہا ہے۔ یہ ضرورت تھی یا کیا تھا کہ خود نواز شریف کو بھی پارٹی تبدیل کرنا پڑی۔ وہ تحریک استقلال میں گئے تھے۔ جب اس کی حیثیت آج کی تحریک انصاف جیسی تھی تو کیا کبھی تحریک انصاف بھی تحریک استقلال بن جائے گی۔ نجانے کیوں عمران کے لئے کچھ اختلافات کے باوجود یہ اعتراف بھی ہے کہ وہ تبدیلی لا سکتا تھا۔ ’’تھا‘‘ ’’ہے‘‘ پڑھا جا سکتا ہے۔ بس وہ ذرا اپنی تھوڑی سی اصلاح کر لے۔ وہ خود یہ کام نہیں کر سکے گا۔ اس کے ارب پتی ساتھی اور نہ عرب پتی ساتھی بھی؟ عرب پتی میں نے برادرم شیخ رشیدکے لئے استعمال کیا ہے۔ چودھری نثار علی تبدیلی چاہتے ہیں مگر عمران خان کی طرح نہیں چاہتے۔ البتہ بھابھی ریحام خان سے امید ہے وہ پشاور زخمیوں کی عیادت کے لئے گئی۔ نہ پروٹوکول نہ سکیورٹی تھی۔ خود گاڑی ڈرائیور کر کے لے گئی۔ اس طرح میرے پاس ایک ٹی وی پروگرام کے لئے وزیر اطلاعات پرویز رشید سوزوکی گاڑی خود ڈرائیور کرتے ہوئے پہنچے تھے۔ تب وہ پنجاب حکومت کے مشیر کے منصب پر فائز تھے اور مشیر کبھی کبھی وزیر سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ ریحام خان عمران خان کی تربیت بھی کریں اور پرویز خٹک کو بھی سمجھائیں۔ عمران یہ کام بھی نہیں کر سکتا۔ وہ بھلا جہانگیر ترین کو کیا سمجھائے گا۔ پرویز خٹک تو ایچی سن کالج کا ساتھی ہے اور کئی بار وزیر شذیر بھی رہ چکا ہے۔ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوئے کچھ باتیں چودھری نثار کی مان لی ہوتیں تو یہ نہ ہوتا جو اس کے ساتھ ہوا اور سب کے ساتھ ہونے والا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024