سینیٹ کے انتخابات میں ”Horse Trading“ روکنے کے لئے سیاسی جماعتیں آئِین میں 22وِیں ترمیم لانے پر مُتفق نہیں ہو سکِیں۔ اِس طرح کی صُورتِ حال کو ”جمہوریت کا حُسن“ کہا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت جمعیت عُلماءاسلام (فضل اُلرحمن گروپ) اور ”Friendly Opposition“ پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کے لئے رضا مند نہیں ¾ البتہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے پرہیز کرنے والی جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم ¾ مسلم لیگ فنکشنل اور جماعتِ اسلامی حکومت کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ دو دِن قبل مولانا فضل اُلرحمن نے کہا تھا کہ ”ہم پہلے ہی21وِیں آئینی ترمیم کے ڈسّے ہُوئے ہیں۔ گویا آئینی ترمیم نہ ہُوئی سانپ ہو گیا؟ اگر آئین میں 21وِیں ترمیم سانپ تھی/ ہے تو مولانا صاحب کی جمعیت کو تو فی اِلحال اُس سانپ نے کاٹا ہی نہیں؟ وہ تو سانپ کے تماشے سے باہر تھی۔ سیانے کہتے ہیں کہ ”جِس سانپ کے مُنہ میں پھپھولا/ آبلہ ہوتا ہے صِرف اُس کے کاٹنے سے انسان مرتا ہے ¾ مِٹّی کھانے والے سانپ کے کاٹنے سے نہیں۔ پہلوان سُخن استاد ناسخ سیفی نے دعویٰ کِیا تھا کہ
خُوش ہوا ہے ناسخ پھپھولا مَیں نے توڑا سانپ کا
مولانا فضل اُلرحمن ہمیشہ سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں شامل رہے ہیں پھر اُن کی جمعیت کو آئینی ترمیم کے سانپ نے کیسے ڈس لِیا؟ اگر ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لئے مولانا صاحب کی جمعیت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ساتھ نہیں دیتی تو اُن کے پاس حکومت میں رہنے کا ”شرعی جواز“ کیا ہے؟ اگر جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے ”رُوحانی فرزند“ اور ”دُخترِ مشرق“ کے شوہرِ نامدار نے اُن کے نقوشِ قدم پر ہی چلنے کا فیصلہ کر لِیا ہے تو کوئی اُن کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ اور جب وزیرِاعظم نواز شریف نے ہارس ٹریڈنگ سے توبہ کرنے کا اعلان کر دِیا ہے تو مولانا فضل اُلرحمن اور جناب ِ زرداری ”تقریبِ توبہ“ میں شرِیک ہو کر دُعائے خیر کیوں نہیں کرتے؟ جناب وزیرِاعظم نے کہا کہ ”ہم سب کو ضمیر فروشی اور ووٹ خریدنے کا مکرُوہ کاروبار روکنا ہو گا۔“ ضمیر فروشی اور ووٹ فروشی میں ضروری نہیں کہ کوئی ”Middleman“ بھی ہو کیونکہ ”خُود فروش گھوڑے“ بھی اپنی مُنہ مانگی قِیمت خُود طے کرتے ہیں۔ پھر ”جیسا مُنہ ویسی چپیڑ“۔ شاعروں ¾ ادیبوں اور دانشوروں نے گھوڑوں کی تعریف و توصِیف میں بہت کچھ لِکھا ہے۔ فارسی کے نامور صُوفی شاعر شیخ سعدی کہتے ہیں
اسپِ لاغرمیاں بکارآید
رُوزِ میداں نہ گاﺅ پَرواری
یعنی میدانِ جنگ میں پتلی گردن والا گھوڑا ہی کام آتا ہے نہ کہ کوئی موٹا تازہ بَیل۔ شیخ سعدی ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ
اسپِ تازی اگر ضعِیف بوَد
ہمچُناں از طویلہ¿ خَربِہ!
یعنی ”عربی گھوڑا اگرچہ کمزور ہے پھر بھی وہ گدھوں کے طویلے سے بہتر ہے۔“ عام طور پر گھوڑے کو گدھے سے افضل سمجھا جاتا ہے لیکن فارسی کے ایک اور شاعر جناب حافظ شیرازی کہتے ہیں کہ
اسپِ تازی شُدہ مجرُوح بزیرِ پالاں
طوقِ زرّ ِیں ہمہ دَر گردنِ خَرمی بِینم
یعنی ”عربی گھوڑا پالان کے نیچے زخمی ہو گیا اور مَیں گدھے کی گردن میں سونے کا طوق دیکھ رہا ہُوں۔“ کسی گدھے کی گردن میں سونے کا طوق ڈال کر اُسے اقتدار کی کُرسی پر بٹھا دِیا جائے یا کسی عربی النسل گھوڑے کو پالان کے نیچے، اِس کا فیصلہ پرانے زمانے میں بادشاہ اور جمہوری دَور میں بااختیار صدرِ مملکت یا وزیرِاعظم کو کرنا ہوتا ہے۔ ”خر آمد و گاﺅ رفت“ کی ضرب اُلمِثل بھی مشہور ہے۔ یعنی ”گدھا آ گیا اور بَیل چلا گیا۔“ کئی بار عوام نے فوجی اور جمہوری حکمرانوں کو ”کُتا ¾ ہائے ہائے“ کے نعرے لگا کر بھی رُخصت کِیا۔ اُدھر فُٹ پاتھ پر کھڑے مختلف نسلوں کے کُتّے ایک دوسرے سے ”باہمی دِلچسپی کے امُور“ پر تبادلہ¿ خیالات کرتے ہُوئے کہہ رہے ہوتے تھے کہ ”یارو! اگر یہ حُکمران اپنے دَور میں عوام کے مسائل حل نہیں کر سکا تو اِس میں ہمارا کیا قصُور؟۔ ہمارا نام لے لے کر ”ہائے ¾ ہائے کے نعرے کیوں لگائے جا رہے ہیں؟“
اپنے گھروں میں کُتّے پالنے کے شوقِین اپنے پالتو کُتّوں کے خُوب صُورت نام بھی رکھتے ہیں۔ دُبئی میں مُقِیم میرے سب سے چھوٹے بیٹے شہباز علی چوہان نے مجھے ایک لطِیفہ ایس ایم ایس کِیا۔ لطِیفہ یہ ہے کہ ”ایک چُوزے نے اپنی ماں (مُرغی) سے پُوچھا ”ماں! انسانوں کے نام ہوتے ہیں اور انسان اپنے پالتو جانوروں کے نام بھی رکھتے ہیں لیکن ہمارے قبِیلے کے افراد کے نام کیوں نہیں ہوتے؟“ ماں نے جواب دِیا۔ اے میرے نُورِ نظر اور لختِ جِگر! ہمارا نام اشرف اُلمخلوقات کی خواہش پر قُربان ہونے کے بعد روشن ہوتا ہے۔ مثلاً چِکن تِکّا¾ چِکن بوٹی ¾ چِکن تنُوری ¾ چِکن پلاﺅ اور چِکن کڑاہی“۔ وغیرہ۔ پاکستان کے عوام کے نام بھی خُودکش حملوں میں مارے جانے یا خُودکشی کرنے کے بعد ¾ مِیڈیا پر آتے ہیں۔ شاعرِ سیاست کہتے ہیں
میرے گھر آیا سیاستدانوں کا جَمِّ غفِیر
مَیں ہُوا مشہُورِ عالم خُودکُشی کرنے کے بعد“
ایک پادری نے چرچ میں ”Sermon“ کے بعد اپنے ایک دوست سے کہا ”یار! آج تو عجِیب قِسم کے گدھوں سے پالا پڑا۔“ دوست نے مُسکراتے ہُوئے کہا ”وہی گدھے جِنہیں تُم ”My Sons“ اور ”My Dear Sons“ کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔“ یہ بھی ضرب اُلمِثل ہے کہ ”نظریہ¿ ضرورت کے تحت بعض انسان گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔“ سوال یہ ہے کہ گھوڑے کو کیوں نہیں؟ شاید اِس لئے کہ گدھا گھوڑے کی نِسبت شریف اور معصُوم جانور ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کی ڈیمو کریٹک پارٹی کا انتخابی نشان ”Kicking Donkey“ (دولتّی مارتا ہُوا گدھا) ہے۔ سابق وزیرِاعظم اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ”سینیٹ کے انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ نہیں بلکہ بدترین ”کھوتّا ٹریڈنگ“ شروع ہو گئی ہے۔“
اصُولاً چودھری صاحب کو ”Donkey Trading“ کہنا چاہیے تھا لیکن چُونکہ وہ عام طور پر مادری زبان پنجابی بولتے ہیں اور پنجابی زبان کو فروغ بھی دینا چاہتے ہیں اِس لئے انہوں نے ”کھوتّا ٹریڈنگ“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ الیکشن کمِشن کی طرف سے چھان پھٹک کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود تمام ارکان کو ”صادق اور امِین“ تسلیم کِیا جا چُکا ہے۔ پھر سینیٹ کے انتخاب میں اگر کچھ ”صادق اور امِین“ سینیٹ کے اُمیدواروں سے مُنہ مانگی قِیمت مانگ رہے ہیں تو یہ اُن کا حق ہے۔ میرے ایک (مرحوم) دوست شاعر سیّد ضامن علی حیدر نے اپنی ایک نظم میںکہا تھا
اے تبسّم فروش دوشِیزہ !
اپنی عِصمت کو اور اَرزاں کر!
مَیں غرِیب اُلدّ ِیار شاعر ہُوں
تیری قِیمت ادا نہیں ہوتی
لیکن ہارس ٹریڈنگ/ کھوتّا ٹریڈنگ کے سوداگر تو ارب/ کھرب پتی ہیں تبھی تو وہ ”نِرخ بالا کُن کہ اَرزانی ہنُوز“ کے مُوڈ میں ہیں۔ آخری بات یہ کہ وزیرِاعظم نواز شریف غیر ممالک کو ہر روز یہ پیغام بھیجتے ہیںکہ ”ہمیں ”Aid“ نہیں ”Trade“ چاہئے تو وہ کھوتّا ٹریڈنگ کو کیسے روکیں گے؟ کیونکہ اِس ”Trade“ سے بعض صادق اور امین ارکانِ اسمبلی کو بھی ”Aid“ مِل جائے گی۔ لیکن چودھری شجاعت حسین کا ”مِنّت ترلا“ کر کے انہیں راضی کرنا پڑے گا کہ وہ ”Aid And Trade“ کے اِس کاروبار کو کھوتّا ٹریڈنگ کے بجائے ”Donkey Trading“ کہا کریں کہ آخر بیرونِ مُلک بھی تو جمہوریت کے حوالے سے ہماری بہت عِزّت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024