میرے سسر مرحوم ڈاکٹر محمود سلیم جیلانی کو علم حاصل کرنے کی بہت تڑپ اور ادب سے تقریباََ عشق تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے ہونہار مانے طالب علم تھے۔ اس کالج کے شہرئہ آفاق میگزین’’راوی‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اس کالج سے فراغت کے بعد انہوں نے شکاگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں سے سات افراد کو علم معاشیات میں نئے خیالات متعارف کروانے کی وجہ سے نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا تھا۔ جیلانی صاحب نے اپنی پی ایچ ڈی کے لئے آبادی میں اضافے سے جڑے مسائل پر تحقیق کی اور غالباََ وہ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے نصابی حوالے سے اس موضوع کو علمی لگن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں کراچی یونیورسٹی میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ موصوف نے صوفی تبسم جیسے اساتذہ کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ اس نوعیت کے استاد اپنے طالب علموں کو دوستوں کی طرح اپنے قریب رکھتے تھے۔ جیلانی صاحب کے شاگردوں نے بھی ہمیشہ ان کی شفقت ومحبت کی وجہ سے انہیں بہت احترام وپیار دیا۔ اس احترام وپیار کی اہمیت کا اندازہ مجھے اس وقت بہت شدت کے ساتھ ہوا جب جماعتِ اسلامی کے سابقہ امیر منور حسن صاحب نے منصورہ میںمیری ضرورت سے زیادہ پذیرائی کی۔ میں ایک ٹی وی انٹرویو کے لئے وہاں گیا تھا اور ملاقات ہوتے ہی انہوں نے ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ یعنی میرے سسر کا ذکر چھیڑدیا۔
منور حسن جب کراچی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو وہاں کے طلباء دائیں اور بائیں بازو میں دشمنی کی حد تک تقسیم ہوچکے تھے۔میرے سسر اس تقسیم سے بالکل لاتعلق اور بالاتر رہے۔ شاید اسی لئے بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ان کے کئی پرانے شاگرد بھی میرے ساتھ صرف جیلانی صاحب کے ساتھ تعلق کی وجہ سے کافی احترام کے ساتھ پیش آتے رہے۔
میرے سسر مگر کراچی یونیورسٹی میں طویل عرصے تک قیام نہ کرپائے کیونکہ ایوب خان حکومت کے آغاز ہی میں انہیں راولپنڈی بلاکر پلاننگ ڈویژن کے لئے منصوبہ جات بنانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو بہت دیانت داری سے نبھایا اور بالآخر وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
ابتداء ہی میں عرض کرچکا ہوں کہ جیلانی صاحب بہت شفیق آدمی تھے۔ نرم دل اور عام انسانوں سے پُرخلوص محبت کرنے والے۔ میرے ساتھ ان کا برتائو روایتی سسر والا ہرگز نہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت بے تکلف تھے۔کوئی اجنبی ہمیں اکٹھے بیٹھا دیکھ کر ہمارے رشتے کا اندازہ ہی نہیں لگاسکتا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان یہ بے تکلفی اگرچہ میری ساس کو اکثر اشتعال دلادیتی۔ وہ رشتوں میں روایتی اقدار کی ہر صورت پیروی کرنے پر تاحیات بضد رہیں۔
اس لمبی تمہید کا اصل مقصد آپ کے ساتھ وہ دُکھ بانٹنا ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد میرے سسر مرحوم کو اپنے مرنے تک اداس رکھے رہا۔انہیں ملال تھا کہ انہوں نے تعلیم وتدریس کے شعبے سے سرکاری نوکری کی وجہ سے دوری کیوں اختیار کی اور اس سے بھی زیادہ رنج اس بات پر کہ وہ پاکستان میں آبادی کے بے تحاشہ بڑھنے کے رحجان کو روکنے میں قطعاََ ناکام رہے۔ انہوں نے میرے ساتھ انتہائی بے تکلف تعلقات ہونے کے باوجود کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا کہ میں کونسے معاملات پر اخبارات میں لکھوں یا نہ لکھوں۔ پاکستان کی آبادی میں وحشیانہ اندازمیں ہوتا ہوا اضافہ لیکن وہ واحد موضوع تھا جس کے بارے میں بہت دُکھ کے ساتھ وہ اکثر شکایت کرتے کہ میں اور دیگر صحافی پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے رحجان پر وہ توجہ ہرگز نہیں دے رہے جو اس رحجان کا تقاضہ ہے۔
بے تحاشہ انداز میں بڑھتی آبادی کے مسئلے پر مجھ ایسے صحافیوں کی لاتعلقی کا گلہ انہوں نے 90ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی شروع کردیا تھا۔ انتقال ان کا 2005ء میں ہوا۔ ان کی رحلت کے کئی برس گزرجانے کے بعد اب میرا دل بھی اکثر اس بات پر ندامت محسوس کرنا شروع ہوگیا ہے کہ میں نے پاکستان کی آبادی میں تیزی سے ہونے والے بے ہنگم اضافے پر کماحقہ توجہ نہیںدی۔ اپنی صحافیانہ صلاحیتوں کو اقتدار کے کھیل میں مبتلا اشرافیہ اور ان کی درباری سازشوں کا سراغ لگاکر انہیں نمک مرچ لگاکر بیان کرنے میں ضائع کردیا۔
اب پچھتائے مگر کیا ہوت؟آبادی میں بے تحاشہ اضافے نے پاکستان میں جو تباہی مچانا تھی وہ ایک خوفناک بم کی صورت میں پھٹ کر ہمارے سامنے آچکی ہے۔ حکومت ہماری اب ’’جمہوری‘‘ رہے یا ’’کرپشن کو بے رحمانہ انداز میں ختم کرنے‘‘ کے دعویٰ کے ساتھ قائم ہوئی ایک اور فوجی آمریت، یہ ملک ان وسائل سے مکمل طورپر محروم ہوچکا ہے جنہیں استعمال کرتے ہوئے خرگوشوں کی افزائش کے انداز میں پیدا ہوتے ہوئے بچوں کے لئے تعلیم کا معقول بندوبست ہوسکے۔ ماں باپ ان بچوں کو دینی مدارس کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں تاکہ انہیں کم از کم دو وقت کی روٹی اور سونے کو جگہ مل سکے۔ مدرسہ میں جاکر بچہ اپنے خاندان سے مکمل طورپر کٹ کر ایک نئے خاندان کارکن بن جاتا ہے۔ اس کا یہ نیا خاندان اگر مذہبی انتہاء پسندی کی طرف مائل ہوجائے تو وہ اس انتہاء پسندی کو اپنے دل میں کئی برسوں سے بڑھتے احساسِ محرومی کی وجہ سے شدت کے ساتھ اپنالیتا ہے۔خودکش بمبار ایسے بچے ہی تو بنتے ہیں۔
بچوں کی تعلیم ہماری اشرافیہ کی ترجیحات میں ہرگز شامل نہیں۔ سیاسی قیادت کو اگر سگنل فری سڑکیں اور فلائی اوورز وغیرہ درکار ہیں تو عسکری قیادت کو نت نئے میزائلوں کی ضرورت تاکہ وہ بھارت کی روایتی جنگ کے حوالے سے برتری کا توڑ مہیا کرسکیں۔ پانی تو ہمارے ہاں اب بھی تقریباََ اتنا ہی ہے جو کئی دہائیوں سے مہیا تھا۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے مگر اس میں نظر آنے والی خوفناک حد تک کمی درحقیقت فی کس کے تناظر میں نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آرہی ہے۔
ایک زمانے کے دریا راوی کے کناروں پر بسے لاہور میں اگر ایک ہزار فٹ تک بورنگ کرنا پڑے تو پھر اللہ ہی ہماری مدد کرسکتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ پانی مہیا کرنے کا کوئی طریقہ فی الحال جدید سائنس نے دریافت نہیں کیا ہے۔ مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جن کا واحد سبب اس ملک میں 1950ء سے بے ہنگم انداز میں بڑھتی آبادی ہے۔ ہم صحافی مگر اس معاملے پر غور کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ پانامہ لیکس آچکی ہیں اور لطیف کھوسہ نے وزیر اعظم کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کردیا ہے۔ آئیے ان دونوں پر توجہ دیں اور آج کا روزہ بہلائیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38