ملا عمر اور جارج بش تاریخ کے دو ایسے نام ہیں جن کے تصادم سے شعلے برسے، آتش فشاں پھوٹے ،لہو کی ندیاں بہہ گئیں ،ظلم کی ایسی ایسی داستانیں رقم ہوئیںکہ دنیا کی نام نہادمہذ ب ریاست نے اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ پر کالک مل لی ۔ ایک پرائے ملک جا کر ان کے رہن سہن ،مذہبی اقدار اور ثقافت کو تہس نہس کر دیا۔ آزادی کو جواز بنا کر پرائے دیس کے امن و سکون کو گولے بارود سے خاکستر کر ڈالا۔ہمیں یاد ہے وہ ہولناک کہانیاں جو ہم شب و روز امریکی چینلز پر دیکھا اور سنا کرتے تھے کہ ایک دجال مسیحا کے بھیس میں افغانستان پہنچ گیا ہے ۔ ایک انسان کی تلاش کو جواز بنا کر اس نے لاکھوں انسانوں کو مسل ڈالا ، نفرت کی آگ پھر بھی ٹھنڈی نہ ہوئی تو کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کو جواز بناکر کسی اور ملک پر بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ افغانستان کے پہاڑوں اور وادیوں سے مظلوموں کی آہ و بکا کی بازگشت آج بھی سنائی دےتی ہے۔امریکی تاریخ دان چارلس برڈ کا مقولہ ہے ” دیر پا امن کے لیئے دیر پا جنگ“۔1945سے لے کر عراق حملہ تک امریکہ قریبََا 200 حملوں کا مرتکب ہوا ۔معروف رائٹر” گور وائڈل“ نے گیارہ ستمبر کے واقعہ سے متاثر ہو کر تنقیدی کتاب تصنیف کی مگر امریکہ میں اسکی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی جس بنا پر یہ کتاب جرمنی میں شائع ہوئی۔اس تصنیف کی اشاعت سے پہلے ایک امریکی دہشت گرد ”ٹم تھی میک وے“ نے اوکلا ہوما میں ایک فیڈرل بلڈنگ کو بم سے اڑا دیا تھا ۔اس پر رائٹر وائڈل نے ٹم تھی میک وے کا اسامہ بن لادن کی دہشت گردی سے موازنہ کیا لیکن نام نہاد آزادی اظہار رائے کو یہاں بھی روک دیا گیا حتیٰ کہ امریکی اخبار ”دی نیشن“ میں بھی شائع ہونے پر پابندی لگا دی جس کا نائب ایڈیٹر گور وائڈل خود تھا۔وائڈل اپنی رائے اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ”ہماری حکومتی پالیسی نے ”ٹم تھی میک وے“اور اسامہ بن لادن کے ساتھ انصاف پسندانہ سلوک روا نہ رکھتے ہوئے انتہاءپسندی کا ثبوت دیا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں بن لادن کے ہمدرد پائے جاتے ہیں ۔ میک وے نے امریکی سول آزادی کی خاطر جان کی قربانی دی جبکہ بن لادن کا امریکہ پر حملہ اسی طرح تھا جس طرح اس کے بعد امریکی حکومت کا دہشت گردی کی آڑ میں امریکی قوم کے سول حقوق پر حملہ اور انہیں پامال کرنا تھا۔ وائڈل بُش پر تنقید کرتے ہوئے مزید لکھتا ہے کہ امریکہ ہٹلر کی تاریخ دہراتے ہوئے در اصل اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے ۔بقول صدر بُش کے دہشت گردی کی جنگ برائی کے خلاف ہے جبکہ یہ ایک ناقابل فہم خیال ہے۔ٹم تھی میک وے اور اسامہ بن لادن کے حملوں کو ایک ہی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ ہر رد عمل کسی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے “۔اس وقت چند ایک تجزیہ کاروں نے بُش پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم خود امریکہ ہے “۔ یہ وہ ہولناک دن تھے جب ہم بھی ” گیارہ ستم بر“ کے عنوان سے ڈائری لکھا کرتے تھے ۔ملا عمر کے انتقال کی خبر سے اس صدی کی ایک تاریخ وابستہ ہے۔ ڈائری کے اوراق پلٹے تو جیسے لہو کی روشنائی سے لکھا تھا ”جنگوں کی تاریخ کے بد ترین واقعات شمالی اتحاد کے ہاتھوں جو اس صدی میں رونما ہو رہے ہیں ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔مزار شریف کے پنا ہ گزین کیمپوں میں مسلح گروپوں نے خواتین کی آبرو ریزی کا نفسانی بازار گرم کر رکھا ہے ۔ درندگی کے علاوہ بھی دس لاکھ کے لگ بھگ بارودی سرنگیں ایک مدت سے انسانی زندگیوں کی پیاسی ہیں ۔ساٹھ لاکھ مہاجرین ہمسایہ ممالک میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور اسّی لاکھ افغان وطن بدر ہو کر رہ گئے ہیں ۔ یہ وہی افغان طالبان ہیں جو امریکہ کے حملے کے بعد انتہاءپسند کہلانے لگے۔ جنہوں نے اپنی عورتوں کو بُش کی مرضی کے مطابق آزادی نہیں دے رکھی تھی۔جنہوں نے لمبی لمبی داڑھیاں رکھی ہوئی تھیں مگر یہ یہودی نہیں تھے۔بُش دہشت گردی صرف یہودیوں کی داڑھیوں کو سلام کرتی ہے۔
ملا عمر کے طالبان امریکہ کی نظر میں ظالم لوگ تھے لہذا ان کا وجود ہمیشہ کے لیئے ختم کر نا ضروری تھا اور پھر دنیا نے بُش دہشت گردی کی جارحیت کے مناظر دیکھے ۔افغانستان کی ندیاں پانی کی بجائے خون بہانے لگیں۔ افغان عورتیں مردوں کی للچائی نظروں سے خود کو چھپا نا چاہتی تھیں مگر بُش کی نظریں انہیں تلاش کر رہی تھیں۔امریکی دہشت گردی انہیں آزادی دلانے نکلی تھی،ان سے ان کے بچے تک چھین لیئے ،ان کے گھر برباد کر دیئے، ان کے خاندان مار دیئے ۔ امریکہ کے سامنے کس کی مجال کہ ”اُف “ کر سکے،ان انتہاءپسندوں کو مرنے دو،کٹنے دو، یہ کوئی نئی داستان نہیں ،اک روز یہ ظلم بھی ماضی ہو جائے گا ۔ ظالم مسیحا کہلائے گا اور مظلوم ظالم کے روپ میں سامنے آجائے گا۔بُش کی انتہاءپسندی نے نہ ختم ہونے والی انتہاءپسندی کو جنم دیا اور تب سے اب تک امریکہ آسیب کے تعاقب میں ہے جس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ اختتام۔افغان طالبان سے پاکستانی طالبان،کراچی طالبان،پنجابی طالبان، پشتون طالبان ، کئی نام رکھے گئے اور ان کو ٹارگٹ کرنے کے بہانے پورا پاکستان دہشت گردی کے جہنم میں دھکیل دیا گیا۔نائن الیون کا واقعہ امریکہ کے شہر نیویارک میں رونما ہوا اور اس کے نتائج افغانستان سے عراق ، پاکستان اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئے۔ سابق صدر جونیئر جارج بُش تو جیسے نائن الیون کی دہشت گردی کا منتظر تھا۔واقعہ ہوتے ہی اس نے وہ فیصلے کر ڈالے جو بُش پالیسی کہلاتے ہیں۔ دنیا جس آگ میں جھلس رہی ہے اس کا بانی جونیئر جارج بُش ہے۔ دہشت گردی کی ماسٹر مائنڈ بُش حکومت ہے۔ افغان طالبان لیڈر ملا عمرکا انتقال ہو گیا،یہ خبر نہیں ، خبر یہ ہے کہ افغانستان سے شروع ہونے والی بُش دہشت گردی کی عمر بہت دراز ہے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38