طیبہ کیس :بچوں سے جبری مشقت ناسور خاتمے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے :چیف جسٹس
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت+ صباح نیوز) سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے حکومت کو ڈومیسٹک چائلڈ لیبرکے خاتمہ کے مجوزہ بل پر سول سوسائٹی کی رائے لینے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیںکہ بچوں سے جبری مشقت کرانا معاشرتی ناسور ہے، جس کے خاتمہ کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ملزم راجہ خرم علی اور ملزمہ ماہین ظفر کے حوالہ سے کیس کا چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے، اور اب یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے خاتمے کا مجوزہ بل پیش کرے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت بچوں کے تحفظ کا بل تیار کرچکی ہے جو میں عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جس پر عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ وہ یہ اس مجوزہ بل کی کاپیاں تمام فریقین کو بھی فراہم کریں اور اس پر تمام فریقین(سول سوسائٹی ) کی رائے لے کر عدالت کو آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کیا جائے ، انہوںنے ریمارکس دیئے کہ ہمیں بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا، اسی بناء پر ہی عدالت نے از خود نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے اس مقدمے کو اس وقت اٹھایا جب تشدد کا شکار بچی کے والدین سمجھوتہ کر چکے تھے۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔ ڈومیسٹک ورکرز ایمپلائمنٹ بل 2013 ء میں سینٹ میں پیش ہوا تھا اس کا کیا بنا۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ حکومت اس حوالے سے کیا کر رہی ہے ہم بہت محتاط ہیں قانون سازی کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے ۔ اس معاملے کو عدالت کی طرف سے اٹھائے جانے کے بعد کم از کم یہ ادراک ضرور ہوا ہے کہ یہ معاشرتی ناسور موجود ہے جس کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔ اس کے لیے دو طریقے اپنائے جا سکتے ہیں ایک تو حکومت قانون سازی کرے اور دوسرا پرائیویٹ بل بھی پارلیمنٹ میں لایا جا سکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے بچوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے جو بل تیار کیا گیا ہے اس میں کون سے پہلو سامنے رکھے گئے ہیں۔