گردشی قرضے لوڈشیڈنگ :وزارت بجلی کے حکام پبلک اکائونٹس کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزارت پانی و بجلی کے حکام گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کیلئے معاملے پر پبلک اکائونٹس کمیٹی کو دوسرے روز بھی مطمئن کرنے میں ناکام ہو گئے، وزارت کے افسران کمیٹی کے سوالوں کے جواب کیلئے ایک دوسرے کو آگے کرتے رہے، سیکرٹری پانی و بجلی یوسف نسیم کھوکھر نے گردشی قرضوںکے معاملے پر وزارت کی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے تیاری کیلئے مزید وقت مانگ لیا۔ چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے حکام کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی اے سی کے ایک اجلاس پر ایک کروڑ تک خرچہ آتا ہے، آپ نے 2 دنوں میں 2 کروڑ کا خرچہ کروایا ، جواب ایک بھی نہیں دیا، گزشتہ 3 سالوں میں پٹرول کی قیمت آدھی ہوئی، لائن لاسز میں کمی ہوئی، بجلی کی قیمت دوگنا سے بھی بڑھ گئی، پھر بھی گردشی قرضے 402 ارب تک کیسے پہنچ گئے، پی اے سی قوم کے پیسے کا حساب لینے کیلئے بیٹھی ہوئی ہے، مزید دن دینے کیلئے تیا ر ہیں تاہم ہر صورت معلومات فراہم کی جائیں کہ لوڈشیڈنگ میں کیا کمی آئی۔ گردشی قرضے کیسے بڑھے، اس معاملے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں وزارت پانی و بجلی کے حکام کی طرف سے گردشی قرضوں اور بجلی کی پیداوار سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پانی و بجلی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت گردشی قرضے 400 ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں، آئی پی پیز کو بجلی کی پیداوار کی مد میں 237 ارب روپے ادا کرنے ہیں، گیس کی مد میں 11 ارب روپے اور تیل کی مد میں 99 ارب روپے واجب الادا ہیں، اس وقت بجلی کی پیداواری لاگت 8 روپے 52 پیسے فی یونٹ ہے، صارفین کو 11 روپے 97 پیسے فی یونٹ دی جا رہی ہے، ہائیڈل سے 4 روپے 11 پیسے، آئی پی پیز ہائیڈل سے 8 روپے 80 پیسے اور کوئلے سے 11 روپے 65 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے، ڈیزل سے 16 روپے 19 پیسے، فرنس آئل سے 11 روپے 76 پیسے اور گیس سے 8 روپے 86 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے،نیوکلئیر سے 5 روپے 36 پیسے، ہوا سے 17 روپے 34 پیسے، سولر 16 روپے 92 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے، نیپرا کی جانب سے 15.3 فیصد نقصانات کی اجازت ہے جبکہ اصل نقصانات 17.9 فیصد ہیں، ترسیلی نقصانات کے باعث چار سال میں 135 ارب 54 کروڑ روپے سے زائد نقصان ہو چکا ہے، موجودہ حکومت نے2013ء میں 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا جو اب دوبارہ402 ارب تک پہنچ گیا ہے، گردشی قرضوں میں 135 ارب روپے کے ترسیلی نقصانات، 182 ارب روپے بلوں کی مد میں جبکہ 62.45 ارب سبسڈی کی مد میں بقایا ہے، اسکے علاوہ کے الیکٹرک کے ذمے بھی 22 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ رکن کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہا کہ کے الیکٹرک خود بجلی پیدا کیوں نہیں کررہا ، الٹا معاہدہ ختم ہونے کے باوجود وفاق سے 600 میگاواٹ سے زائد بجلی لے رہا ہے، کے الیکٹرک نہ کراچی کو بجلی دے رہا ہے نہ پیسے دے رہا ہے، سارے پیسے باہر منتقل کر رہے ہیں۔حکام وزارت پانی وبجلی نے بتایا کہ کے الیکٹرک کا شنگھائی الیکٹرک سے معاہدہ رکا ہوا ہے، کے الیکٹرک کے ساتھ 650 میگاواٹ کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے، معاہدہ ختم ہونے کے باوجود سپلائی دے رہے ہیں ، وزارت خزانہ سے سبسڈی والے 62 ارب مل گئے تو آئی پی پیز اور پی ایس او کے کافی حد تک واجبات ادا کردیں گے۔ رکن کمیٹی سید نوید قمر نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ سسٹم میں مزید پانچ ہزار میگاواٹ اضافی بجلی شامل کی گئی ہے، اسکے باوجود لوڈشیڈنگ وہیں پر ہے، حکام نے جواب دیا کہ طلب بڑھ گئی ہے جس پر نوید قمر نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ طلب بڑھ گئی، اگر اضافی بجلی آئی ہے تو صارفین تک کیوں نہیں پہنچ رہی، میں طلب بڑھنے کے جواز کو نہیں مانتا۔ سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ بجلی پیدا کرنیوالے ذرائع کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جا رہی، سٹیٹ بنک نے سولر انرجی کیلئے قرضے دینے اعلان کیا تھا ، پھر اس پر کام نہیں ہوا، پنجاب میں لوگ بڑی تیزی سے سولر انرجی کی طرف جارہے ہیں، حکومت کو سولر انرجی کیلئے لوگوں کو قرضے دینے چاہیں۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ لوگ خود بھی سولر انرجی کی طرف جانا چاہتے ہیں ، کیا حکومت عوام کو اس معاملے پر سبسڈی دے رہی ہے۔ جنید انوار چودھری نے کہا کہ دو سال قبل حکومت نے ریورس میٹرنگ کا منصوبہ شروع کیا تھا، بعد ازاں لوگوں کو اسکی اجازت بھی نہیں دی جارہی ، بہت سے لوگ سولر سسٹم کے ذریعے بجلی پیدا کرکے بیچنا چاہتے ہیں، محکمے کی طرف سے انکی حوصلہ افزائی نہیں ہورہی۔ سیکرٹری وزارت نے کہا کہ معاملہ نوٹس میں آگیا ہے اسکا جائزہ لیں گے۔ وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ 2013ء سے اب تک 5447 میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل ہوئی، 3111 میگا واٹ دسمبر 2017ء تک مزید بجلی سسٹم میں آئیگی۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزارت داخلہ کا ترجمان بچہ ہے، اسے کیا کہوں، چوہدری نثار میں ہمت ہے تو خود سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وزارت پانی و بجلی کے حکام کی بریفنگ سے مطمئن نہیں، واپڈا نے مزید وقت مانگا ہے ، ہم نے دیدیا ہے کیونکہ ہم اس معاملے کو سیاست کی نظر نہیں کرنا چاہتے، ہم نتائج چاہتے ہیں۔