ہلاکوخان نے بغداد پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کھیت کھلیان‘ بستیاں اور مکان‘ مساجد اور مزار کچھ بھی باقی نہ بچا۔ نامور مؤرخ گبن نے شہر کی تباہی کا جو حال بیان کیا‘ اس سے اوراق تاریخ بھی روتے نظر آتے ہیں۔ عباسی خلیفہ مستصم باللہ کو جب پابہ زنجیر پیش کیاگیا تو خون آشام بھیڑیئے نے خلیفہ کو قتل کرنے کا فرمان صادر کیا۔ کچھ درباریوں نے دست بستہ عرض کی۔ حضور ! حکم نامہ واپس لیں۔ خلیفہ کی موت سے چارسُو تباہی پھیل جائے گی۔ زمین پھٹ جائے گی۔ آسمان دھڑام سے دھرتی پر آن گرے گا۔ ہوائیں چلنا بند ہو جائیں گی اور آفتاب اپنی تمازت اور روشنی کھو دے گا۔ حتی لکھتا ہے۔
Thanks to His Advisers, Knew the Operation of Forces of Nature Very Well.
جو بات ہلاکو کو درباریوں نے کہی تھی‘ وہ بات سیاسی شہادت کے بعد ’’امیرالمومنین‘‘ نے خود کہنی شروع کر دی ہے۔ میرے نکالے جانے سے سقوط ڈھاکہ جیسا المیہ رونما ہو سکتا ہے۔ ملکی معیشت ایڑیاں رگڑنے لگے گی۔ سویا ہوا ہمالہ رونے لگے گا جس سے سیلاب بلا ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیگا۔ بیس کروڑ عوام کے دلوں کی دھڑکن بند ہو جائیگی کیونکہ میں ان سے ہوں۔ میرا پیار ان کی نس میں خونِ ناب کی طرح بہتا ہے۔ میں پسے ہوئے لوگوں کی امیدوں‘ امنگوں‘ آرزوئوں اور ارادوں کا مظہر ہوں۔ جوش خطابت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں پیسا کس نے دیا ہے۔ ان کو کچلنے والا کون ہے؟ بیس کروڑ لوگوں کا یہ گروہ‘ جسے بدقسمتی سے قوم بھی نہیں کہا جا سکتا‘ کب تک فریب وعدہ فردا کا شکار ہوتا رہے گا۔ کب تک طفل تسلیوں سے بہلتا رہے گا۔
آج ہلاکو خان نہیں ہے۔ آمریت کی جگہ جمہوریت نے لے لی ہے۔ چارسُو قانون کی حکمرانی ہے۔ دنیا گلوبل ولج بن گئی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ظلم اور زیادتی ہو‘ ذرائع ابلاغ فوراً وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ظالم کا ہاتھ پکڑتے ہیں۔ مظلوم کے حق میں منظم مہم چلاتے ہیں۔ مہذب ملکوں میں حکومتیں‘ ہمہ وقت ایک فلاحی ریاست کے قیام کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ باایں ہمہ اب بھی دنیا میں ایسے ملک ہیںجہاں آمریت نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ بھیڑ کے روپ میں بھیڑیئے چھپے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کی حرص اور ہوس ختم نہیں ہوتی۔ انکے قول اور فعل میں واضح تضاد ہوتا ہے۔ یہ کبھی بھی ذات کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتے۔ جھوٹ‘ فریب‘ مکاری‘ عیاری کو آرٹ کے زمرے میں نکال کر سائنس بنا دیا ہے۔ ان کی سوچ کے قافلے صرف ایک ہی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ کیسے نسل در نسل مغلوں کی طرح حکمرانی کی جائے۔ کیسے مثبت سوچ کو مفلوج کیا جائے۔ کس طرح ضمیروں کو خریدا جائے۔ ایک ایسا سفوف تیار کیا جائے جس سے ساری قوم پر بے حسی اور غنودگی طاری ہو جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے۔ حکمرانوں نے ایک تاریخی حقیقت کوجھٹلایا ہے۔ ابراہم لنکن یہ سوچ کر ضرور قبر میں کروٹیں لیتا ہوگا کہ باکمال حاکموں نے سب لوگوں کو بیک وقت بے وقوف بنانے کا گر سیکھ لیا ہے۔
قرائن اور شواہد سے کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ میاں نوازشریف جا کر بھی نہیں گئے۔ اب بھی ’’منبر سے نہ اترا یہ خطیب‘ اب بھی گھوڑے سے نہ اترا یہ سوار‘‘ نیا وزیراعظم اپنی ہر صبح کا آغاز انکے نام سے کرتا ہے اور ہر شام کا اختتام بھی اسی بابرکت نام سے ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے ہندومتھالوجی پڑھی ہے‘ انہیں علم ہے کہ جب رام چندر جی کو بن باس کاٹنا پڑاتو ان کے چھوٹے بھائی نے تخت پر انکی کھڑاویں رکھ کر حکومت کی۔ عباسی صاحب نے بھی کچھ ایسی روش اختیار کر رکھی ہے۔ صبح و شام ایک ہی وظیفہ ورد زبان ہوتا ہے۔ اصل وزیراعظم تو میاں نوازشریف ہیں‘ میں تو بس دعاگو ہوں‘ ان الفاظ میں محبت کم اور خوف زیادہ ہوتا ہے۔ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ یہ محاورہ عباسی صاحب نے محض سن نہیں رکھا‘ اسے سمجھا بھی ہے۔ پچاس رکنی کابینہ میں انہیں ہر کوئی جاسوس نظر آتا ہے۔ انکی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے وزیراعظم ہائوس کی دیواروں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ بھی انہیں سکڑتی اور گھورتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے جو وقت درکار ہوتا ہے‘ وہ انہیں بوجہ مل نہیں پا رہا۔ کیبنٹ ارکان انہیں باس کم اور ’’بھاعباسی‘‘ زیادہ سمجھتے ہیں۔ جب بھی کسی وزیر کو بلاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ بلاوے پر جاتی امرا گیا ہے۔ دانت پیس نہیں سکتے اس لئے دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ البتہ خود بھی حاضری دینے سے نہیں چوکتے۔ امریکہ جاتے ہوئے لندن واپسی پر ایک بار پھر لندن یاترا‘ ہماری صحافی برادری بڑی نڈر اور بے باک ہے۔ کسی کو یہ پوچھنے کا خیال نہ رہا کہ حضرت! آپ پارٹی میٹنگ اٹینڈ کرنے یا حاضری دینے لندن گئے۔ ایئرپورٹ پر جہاز کھڑا کرنے کی جو کیش رقم دینا پڑی‘ وہ آپ نے اپنی جیب سے ادا کی ہے یا ’’چونا مملکت مولاداد‘‘ کو لگا ہے۔ شیخ رشید نے آجکل انہیں بڑا پریشان کر رکھا ہے۔ LNG معاہدہ کی کاپی مانگتا ہے۔ انہیں چاہئے کہ اصل کاپی شیخ کے منہ پر دے ماریں تاکہ الزام تراشیوں کا سلسلہ رک سکے۔ ویسے بھی کونسا ایٹمی راز ہے جس کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے۔ جس طرح انصاف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ محض ہونا نہیں چاہئے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہئے۔ ٹرانسپرنسی بھی اسی سنہری اصول کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ڈانواں ڈول حکومت یکسوئی کے ساتھ کام کر سکے گی۔ عباسی صاحب بظاہر بڑے معتدل اور بیدار مغز نظرآتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنا باطن بھی کھول کر رکھ دیں۔ اقتدار تو آنے جانیوالی چیزہے۔ وزارت عظمیٰ چاہے چند دنوں کی ہو یا سالوں کی‘ بقول چودھری شجاعت حسین‘ سابقہ کالاحقہ کوئی نہیں اتار سکتا۔’’جب میں وزیراعظم تھا‘‘ یہ کہتے ہوئے لفظ لو دینے لگتے ہیں۔ انسان لذت اور سرور کی عجیب کیفیت سے گزرتا ہے۔ جبھی تو کہا گیا ہے:
One Crowded Hour of Glorious Lifeis Worth an Age Without a Name
طوعاً کرہاً ہی سہی‘ عباسی صاحب کو اپنے Maverick ministers پر بھی کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنی اپنی حدوں اور سرحدوں میں رہنے کی تلقین کرنی چاہئے۔ عجب کھچڑی سی پکی ہوئی ہے۔ وزیرداخلہ‘ خارجہ پالیسی پر بیان دے رہا ہے۔ عزیزان نیک نام دانیال عزیز اور طلال چودھری نے وزارت قانون کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔ جب عدالتوں کے باہر قانونی موشگافیاں کرتے ہیں تو لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔ کوئی لطیفہ بھی سنا رہے ہوں تو یوں گمان ہوتا ہے کہ مثنوی مولانا روم سے کوئی اقتباس پڑھ رہے ہیں۔ وزیر خارجہ باہر جا کر پریشان کن حد تک عجیب و غریب بیان دے رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن سے انکی ملاقات بھی ایک صیغہ راز ہے جو اس نے باہر آکر کہا اس سے کچھ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ موصوف پاکستان میں سول حکومت کی مشکلات پر خاصے مشوش نظر آئے البتہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ انہوں نے خواجہ صاحب کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا پسند نہ کیا۔ دستور تو یہ ہے کہ اس قسم کی ملاقاتوں کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ یہ خارجہ امور سے نابلدہیں۔ انہیں تو یہ علم بھی نہیں کہ ایکواڈور ایک ملک ہے یا شہر کا نام ہے۔ شکر ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایک بے ضرر اقدام تک محدود رکھا ہے یہ نہیں پوچھ بیٹھے، فارن پالیسی اور ڈپلومیسی کی تعریف کیا ہے؟ یا ان میں کون کس کیلئے بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہے۔
احسن اقبال صاحب بڑے دبنگ انسان ہیں۔ رینجرز کے سپاہی کے ساتھ ان کا مکالمہ پوری قوم نے سنا۔ انہیں چاہئے تھا کہ سینے پر وزیر داخلہ کا بیج لگا کر جاتے تاکہ اسے شناخت کرنے میں آسانی رہتی۔ بڑے غصے میں تھے ’’سارٹ آئوٹ‘‘ اور ریاست کے اندر ریاست کی باتیں کرتے رہے۔ اپنی شان میں گستاخی کرنے والے کو سزا دینے کا عندیہ دیا۔ استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی دی۔ اب امریکہ پدھار گئے ہیں اگر واپسی پر لندن نہ چلے گئے تو یقیناً اپنے الفاظ کا بھرم رکھیں گے!
اسحاق ڈار پر دور ابتلا ہے ہم دعا کرتے ہیں کہ اس مشکل سے سرخرو ہو کر نکلیں۔ اپوزیشن کے اصرار کے باوجود استعفیٰ دینے سے انکاری ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ڈار صاحب بہت محنتی ہیں ان سے دگنا کام کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کا رہنا ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ مصطفی زیدی جب ڈپٹی سیکرٹری محکمہ تعلیم تھے تو اپنے متعلق طنزاً کہا تھا:
تو ہے انجکشن صف تقویم
اور مرتا ہے شعبہ تعلیم
وزیراعظم کے خدشات درست ہیں ڈار صاحب کے جانے سے کہیں سسکتی ہچکولے کھاتی ڈوبتی ہوئی معیشت مر رہی نہ جائے!