پلڈیٹ (Pildat) پاکستان کا ایک ایسا تھینک ٹینک یا ریسرچ کا ادارہ ہے جو ملک میں جمہوریت اور قومی اداروں کی مضبوطی کے لئے مسلسل کوشاں ہے یہ ادارہ وقفے وقفے سے قومی اسمبلی صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کی کارکردگی کو عوام کے سامنے لاتا رہتا ہے مختلف موضوعات پر اس کے سروے رپورٹس کو بہت معتبر سمجھا جاتا ہے۔ جناب احمر بلال جو اس ادارے کے بڑے منجھے ہوئے اور قابل صدر ہیں کی دعوت پر مجھے 29 اکتوبر کو اس ادارے کی طرف سے سرینہ ہوٹل اسلام آباد کے ایک خوبصورت ہال میں منعقدہ ایک ورکشاپ میں بطور گیسٹ سپیکر شمولیت کی دعوت دی گئی جس میں قومی اسمبلی کے مسلم لےگی ممبران کے ایک گروپ کو مدعو کیا گیا تھا۔ ورکشاپ میں گیسٹ سپیکر کو سول ملٹری تعلقات کی موجودہ نوعیت پر اظہار خیال کے علاوہ اس سلسلے میں آگے کی راہوں کی نشان دہی بھی کرنی تھی۔ پہلے گیسٹ سپیکر پاکستان کے مصروف صحافی جناب مجیب الرحمن شامی صاحب تھے جنہوں نے سول ملٹری تعلقات کی موجودہ صورت حال کا تفصیل سے ذکر کیا اور ان نقاط کا ماہرانہ جائزہ لیا جن کی بدولت یہ تعلقات مشکلات کا شکار ہوئے۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کی سوچ حسب معمول بڑی واضح اور تجزیہ کافی حقیقی تھا۔ ان کے خیال میں سول ملٹری تعلقات میں سرد مہری کی وجوہات میں جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کےخلاف عدالتی مقدمہ GEO ٹی وی کا اپنے ایک اینکر پر قاتلانہ حملے کے بعد غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور اسٹیبلشمنٹ کے کچھ افسران کا غیر پیشہ وارانہ کردار شامل تھا اس کے علاوہ انکے خیال میں حکومت اور فوج خارجہ پالیسی پر بھی ایک Page پر نہیں اس کے بعد جب مجھے اپنی معروضات پیش کرنے کو کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ میں چھوٹے واقعات میں گھسنے کی بجائے بڑے Conceptual ایشوز پر بات کرنا چاہو گا۔ مسئلہ جنرل مشرف کے مقدمے خارجہ پالیسی یا جیو ٹی وی کا نہیں اصل بات روپوں کی ہے تاہم اپنی سوچ اور رویوں کو درست کر لیں تو مسائل حل ہو جائینگے۔ فوج کو اس میں شک نہیں ہے کہ وہ حکومت کا ایک ایسا ماتحت ادارہ ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ فوج ان کا مضبوط بازو ہے جس کے پاس ریسرچ اور انٹیلی جنس کے وہ مسائل ہیں جو دنیا کے کم ممالک کے پاس ہیں اس کے علاوہ جنوب ایشیاءکے مخصوص حالات کی بدولت افواج پاکستان کی طرف سے علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کی جو سفارشات آتی ہیں وہ حکومتی پالیسی کی ایک اہم بنیاد بنتی ہیں اور یہ امریکہ سے لےکر چھوٹے ممالک تک سب میں ہوتا ہے لیکن بعد میں ان بنیادی حقائق کو جوڑ کر جب پارلیمنٹ اور ملک کی کابینہ اس میں ایک عوامی سوچ کا رنگ بھرتی ہیں تو یہ ملکی پالیسیاں مزید فعال اور جامعہ ہو جاتی ہیں کسی بھی ملک میں فوج جیسے اہم ادارے اور سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کی طاقت ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں پہلے اس منفی سوچ یا Myths کا ذکر کرونگا جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں وہ یہ ہیں 1۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فوج ہمیشہ اقتدار پر قابض ہونے کی تاک میں رہتی ہے۔ یہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف اور اس سے قبل جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے رویوں نے یہ ثابت کر دیا ہے اقتدار پر شب خون کسی فرد کی سوچ تو ہو سکتی ہے لیکن چیف پر ادارے کا ایسا کوئی دباﺅ نہیں ڈالا جا سکتا۔ 2۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ دشمنی کو طول دیکر فوج اپنا وجود قائم رکھنا چاہتی ہے اس میں بھی کوئی حقیقت نہیں یہ سوچ ہندوستانی فوج سے متعلق تو درست ہو سکتی ہے جس نے ہندوستانی سیاسی قیادت کے فیصلوں کے خلاف سیاچن سے اپنی جارحیت ختم کرنے سے انکار کیا لیکن افواج پاکستان کی یہ سوچ نہیں ۔3۔ ایک سوچ یہ ہے کہ فوج اب مذہبی انتہا پسندوں کی گرفت میں ہے یہ سوچ بھی بالکل غلط ہے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کی ساری فوج اسلامی جذبے سے سرشار ہے لیکن مذہبی انتہا پسندی کا کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔ 4۔ کچھ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ ہماری فوج پاکستانی نہیں بلکہ پنجابی فوج ہے اس سلسلے میں بھی میں نے عرض کیا کہ فوج میںاس وقت چاروں صوبوں کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی ہے اس کے بعد میں نے فوج کی طاقت سے متعلق کہا کہ نہایت پیشہ ور، قومی فوج جو بہادری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی پھر میں نے فوج کے موجودہ مسائل کا ذکر کیا جس میں سرفہرست یہ تھاکہ فوج کا بڑا حصہ بہت لمبے عرصے کےلئے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اس سے ہمارا اسلحہ فوجی ٹرانسپورٹ، جہاز، ہیلی کاپٹر اور توپیں استعمال ہو رہی ہیں اس جنگ سے جتنا جلدی ہو ہمیں نکلنا ہو گا جس کےلئے سول انتظامیہ کو ان علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے قابل ہونا چاہئیے جو فوج نے کلئیر کر دیئے ہیں فوج کو پاکستان کے دشمن اپنی تنقید اور گمراہ کن پراپیگنڈہ کا نشانہ بناتے ہیں چونکہ ان کو مدعا پاکستان فوج سے لڑے بغیر اس عظیم ادارے کو بدنام کر کے کھوکھلا کرنا ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں خرابی میں ان سیاسی یتیموں نے بھی حصہ ڈالا جو قربانی سے پہلے قربانی اور 48 گھنٹوں کے نوٹس پر ریفری کی انگلی اٹھنے کا ذکر کرتے رہے وہ لوگ جو فوج کو بدنام کرنے اور اس کو سیاست میں ملوث کرنے کی تر غیبیں دیتے رہے ہیں وہ اپنے آپکو مدبر تو کیا سیاستدان کہلوانے کے بھی حقدار نہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہ تھی کہ وہ اقرار جرم کرتے یہ رویے سیاسی بلوغت کی نفی کرتے ہیں ان مفروضات کے بعد میںنے پاکستان کےلئے خطرات کا ذکر کیا جس میں سرفہرست ہندوستان کے اسلحے کے وہ انبار ہیں جو ہماری سرحد کے ساتھ لگائے جا رہے ہیں 47 ارب ڈالرز کے سالانہ دفاعی بجٹ کے علاوہ ہندوستان اپنی افواج کی upgradation پر 100 ارب ڈالرز مزید خرچ کرنا چاہتا ہے جس کےلئے 13 ارب ڈالرز چند دن پہلے ریلیز ہوئے 3 ارب ڈالرز چند ماہ پہلے فوج کو دیئے گئے دوسرا خطرہ افغانستان کی صورت حال ہے جو ایک آتش فشاں سے کم نہیں ملک کے اندر وزیرستان بلوچستان اور کراچی جیسے دہشتگردی کے پھوڑے بن چکے ہیں جن کی جڑوں کا علاج ضروری ہے۔ اس کام کےلئے افواج پاکستان اور سیاسی قیادت نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کام کرنا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ سول ملٹری قیادت کافی حد تک اب ایک گرڈ پر ہے ان تعلقات میں مزید پائیداری لانے کےلئے میں نے جو سفارشات پیش کیں وہ قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
1۔ حکومت جتنا جلدی ہو سکے ایک کل وقتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مقرر کرے جو وزارت دفاع، دفاعی پیداوار خارجہ امور اور فنانس کی وزارتوں کے تعاون سے نیشنل سکیورٹی پالیسی کو جامعہ بنا دے۔ 2۔ وزارت دفاع میں بھی ایک کل وقتی وزیر کا ہونا ضروری ہے جو افواج پاکستان کی Critical deficiencies اور Strategic imbalances پر گہری نظر رکھے اور کابینہ میں دفاعی امور کو زور دار طریقے سے اٹھائے۔ اس کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ دفاع کی وزارت کو بھی مزید فعال بنایا جائے۔ اس منسٹری میں چند ایسے ٹرائی سروس ایکسپرٹ ہونے چاہئیں جو ضروری کوارڈی نیشن اور تینوں سروسز کی مدد کر سکیں اور پبلک کی دفاعی پالیسی کی تیاری میں وزیر اعظم کو پیش کرنے سے پہلے وزارتی سطح پر کچھ اپنا حصہ بھی ڈال سکیں۔ 3۔ آئین کے مطابق افواج پاکستان اور عدلیہ کے اداروں پر میڈیا اور دوسرے فورمز پر کیچڑ نہیں اچھالا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کاکڑا احتساب ہونا ضروری ہے جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فوج کے وقار پر یکطرفہ یلغار کرتے ہیں۔ 4۔ وزیر اعظم کو تینوں سروسز کی اہم ایکسرسائزز اور پاسینگ آﺅٹ پریڈز میں ضرور شمولیت کرنی چاہئیے اور فوجی چھاﺅنیوں اور اگلے مورچوں کے وقفے وقفے سے دورے کرنا اور فوجیوں سے خطاب کرنا چاہئیے۔ 5۔ ملک میں گورننس یا حکمرانی کو مثالی بنا کر ہی ہم اپنی معاشی استطاعت میں اضافہ کر سکتے ہیں جس سے ڈیفنس کو سخت ترین خطرات کے پیش نظر مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ معیشت کمزور ہو گی تو دفاع متاثر ہو گا اور گورننس یا حکمرانی کو مضبوط کئے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں کیا جا سکتا۔ 6۔ میری آخری سفارش یہ تھی کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور ڈیفنس کمیٹی برائے دفاع بھی ہر تین ماہ بعد اجلاس ہونے چاہئیں تاکہ سول ملٹری تعلقات کی نہایت اہم قومی شاہراہ پر نمودار ہونیوالے روڑے صاف ہوتے رہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024