معزز قارئین بلوچستان میں کافی عرصے سے خونی کھیل جاری ہے لیکن تکلیف دہ بات سیکورٹی اہلکاروں کی نا اہلی اور حکومتی سردمہری ہے۔ عوام دوست حکومتیں تو اپنے ایک آدمی کا قتل بھی برداشت نہیں کرسکتیں اور اسوقت تک چین سے نہیں بیٹھتیں جب تک مجرموں کو سزا نہ دی جائے لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہر واقعہ کے بعد حکومت افسوس کا اظہارکرتی ہے۔ مجرموں کو سخت سزا دینے کا اعلان کرتی ہے۔سیکورٹی ایجنسیاں کچھ لوگوں کی پکڑ دھکڑ کرتی ہیں ۔23اکتوبر 14 بھی ایک ایسا ہی کربناک دن ثابت ہوا ۔اس ایک دن میں9افرادہزارہ برادری کے صبح صبح ہزار گنجی کے علاقے میں بھون دیئے گئے اور اس بے رحم قتل کی ذمہ داری لشکر جھنگوی کے نمائندے نورالدین زنگی نے بذریعہ فون قبول کی۔ان لوگوں کا قصور صرف یہ ہے کہ ان کا تعلق اہلِ تشیع فرقے سے ہے جو کچھ مخصوص دہشت گرد تنظیموں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔اسی ایک دن ایف سی کی گاڑ ی پر بھی حملہ ہوا ۔ ان واقعات سے چند دن پہلے8پنجابی مزدوروں کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیاتھا۔
بلوچستان میںاسوقت مختلف انداز میں چارقسم کی دہشتگردی جاری ہے۔ اول مذہبی دہشتگردی جس میں اہل تشیع حضرات اور اقلیتوں کا بے روک ٹوک قتل عام جاری ہے۔ اس میں ویسے تو تمام اہل تشیع نشانہ بنتے ہیں لیکن ہزارہ برادری اور ملک کے دیگر حصوں سے زیارت کے لیے ایران جانے والے زائرین خصوصی ٹارگٹ ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہزارہ برادری بہت پر امن اور غیر شدت پسند لوگ ہیں۔1965کی جنگ میں لڑنے والے ہمارے سابق کمانڈر انچیف اور بعد میں گورنر مرحوم جنرل محمد موسیٰ کا تعلق بھی اسی برادری سے تھا ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے قول و فعل سے آج تک کسی کو دکھ نہیں پہنچا لیکن ہماری کچھ اسلام پسند تنظیموں نے انہیںخصوصی نشانہ بنا لیا ہے۔اگر ان کا بس چلے تو ایک ہی دن میں ان سب کو ختم کر دیں۔2013کے ایک حملے میں دو سو سے زائد لوگ مارے گئے تھے۔اب چونکہ ان کے رہائشی علاقے کی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے اس لئے بڑے حملے تو رک گئے ہیں لیکن جہاں کہیں بھی یہ لوگ نظر آتے ہیں۔ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔دہشتگردوں نے ان لوگوں کی زندگیاں جہنم بنا دی ہیں۔تین لاکھ آدمی تو یہاں سے ہجرت کر چکے ہیںاور باقی ماندہ لوگ جنگی قیدیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔بغیر اجازت اور بغیر گارڈ علاقے سے باہر نہیں جاسکتے۔بچے سکول کالجز اور یونیورسٹی نہیں جاسکتے۔لوگ روز گار کے لیے باہر نہیں جاسکتے۔ جو کوئی بھی باہر جاتا ہے ہزار گنجی والا حشر ہوتاہے۔یہ لوگ اپنے ہی ملک میں قیدیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے آمین!دوسری قسم کی دہشتگردی غیر مقامی لوگ ہیں۔ وہاں پر کام کرنے والے باہر کے لوگ سب شامل ہیں۔پروفیسرزڈاکٹرز انجینئرزبزنس طبقہ حتیٰ کے مزدور تک جو باہر سے آکر ان لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کی خدمت کرتے ہیںیا صرف بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرتے ہیں وہ بھی ان لوگوں کو ناقابل قبول ہیں۔وہاں پر ہر غیر بلوچ پنجابی شمار ہوتاہے۔اس لئے واجب القتل ۔اس میں کراچی یا بھارت سے آنے والے1947کے مہاجرین تک سب شامل ہیں۔جو لوگ وہاں صدیوں سے رہ رہے ہیںوہ بھی محفوظ نہیں۔صوبہ سرحد اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو اغواءکر کے باقاعدہ شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں ماری جاتی ہیں۔بلوچستان کے بلوچ پنجاب کے علاقہ ڈیرہ غاریخان کو بلوچستان کا حصہ گردانتے ہیںلیکن پچھلے سال جون میںڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھی گولیاں ماردی گئی تھیں۔یہ پڑھے لکھے لوگ ملازمت کی تلاش میں وہاں گئے تھے ۔
تیسری قسم کی دہشتگردی حکومت۔ حکومتی اہلکاروں اور سرکاری تنصیبات کے خلاف ہے۔اس میں فوج ایف سی، لیوی۔پولیس اور ہر وہ شخص جسکا تعلق کسی بھی طرح حکومت سے ہو نشانہ بنتا ہے۔فوج تو کسی حد تک منظم ہونے کی وجہ سے محفوظ ہے لیکن ایف سی۔ لیوی اور پولیس کی بری حالت ہے ۔پولیس تو اپنے سینئر افسران تک شہید کراچکی ہے۔2012میں کوئٹہ میں ایف سی کے ڈی آئی جی کے گھر پربھی حملہ ہوگیا تھااور بیگم بچوں کو شہید کر دیا گیا۔چیک پوسٹوں پر حملے تو روز مرہ کا معمول ہیں۔جہاں موقعہ ملتا ہے حملہ ہوجاتاہے۔فوجی کانوائے بھی محفوظ نہیں۔سرکاری تنصیبات میںریلوے لائنز۔ریلوے ٹرین۔ گیس اور فوجی تنصیبات نشانہ بنتی ہیں۔چوتھی قسم کی جنرل دہشتگردی ہے جس میں لوٹ مار۔ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری ہے۔اس میں بھی خصوصی نشانہ غیر بلوچ یا حکومت کے مددگار لوگ بنتے ہیں۔لوگوں کو اغواءکیا جاتا ہے اور گولیاں مار کر سڑکوںیاآبادیوں کے نزدیک پھینک دیا جاتا ہے تاکہ آبادی میں خوف و ہراس پھیلایا جا سکے۔
اسوقت بلوچستان میں کم از کم دو درجن سے زائد دہشتگرد تنظمیں سرگرم عمل ہیں جن میں جنداللہ سب سے بڑی اور خطرناک تنظیم ہے۔2004کراچی میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات پر حملہ کیا تھا جس میں8فوجی مارے گئے تھے اور تین زخمی ہوئے تھے۔2013پشاور چرچ پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی گروپ نے قبول کی تھی جس میں غالباً بیس آدمی مرے تھے اور اڑھائی سو زخمی ہوئے تھے۔کراچی اور سبی میں ریلوے ٹریکس ، رحیم یار خان میں سوئی گیس اڑانے کا کارنامہ بھی اسی گروپ کا تھا۔ بلوچستان میںد ہشتگردی کی دو اہم وجوہات ہیںجہاں دہشتگرد تنظیموں کی پشت پر کچھ طاقتور بیرونی انٹیلی جنس ایجنسیاں سر گرم عمل ہیں۔ اسوقت انہی غیر ملکی ایجنسیوں کے زیر سایہ کچھ بلوچ سردار یورپ اور امریکہ میں مقیم ہیںجو ان ایجنسیوں کے فرنٹ مین کے طور پر کام کر کے افرا تفری پھیلا رہے ہیں۔بلوچستان معدنیات کے لحاظ سے سونے کی چڑیا ہے اور دوسرا یہ سنٹرل ایشیاءکے لیے سب سے محفوظ اور کم فاصلے کی گزرگاہ ہے۔ بیرونی طاقتوں کی نظر یںانہی دو چیزوں پر ہیںاور یہ مقصد جلا وطن بلوچ سرداروں کے ذریعے حاصل کیا جارہا ہے جس کے لیے گریٹر بلوچستان کی کوششیں جاری ہیں۔
ان تمام خرابیوں اور دہشتگردی کے باوجود میری نظر میں اپنی تباہی کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔جس طرح شیکسپئر نے کہا تھا: ”ڈیئر بروٹس خرابی ہمارے مقدر میںنہیںبلکہ ہماری ذات میں ہے“ پاکستان میں اسوقت 30سے زائد سراغرساں ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ کھربوں روپے کا بجٹ ہے۔فوج پولیس ایف سی اور لیویز اس کے علاوہ ہیں۔پھر انٹی ٹیرورزم اور کاونٹرورزم فورس جیسے ادارے بھی موجود ہیں۔دہشتگرد ہوا میں معلق ہیںنہ غاروںمیں مکین ہیں۔اسی سر زمین کے باسی ہیں۔ہر واقعہ کے بعد وہ فون کر کے ذمہ داری قبول بھی کرتے ہیں۔پھر بھی اگر ہم انہیں پکڑ کر ختم نہیں کر سکتے تو ہم سے زیادہ نا اہل اور بزدل قوم اور کوئی نہیں ہو سکتی۔یاد رہنا چاہیئے آزادی کی حفاظت ہمیشہ طاقت سے کی جاتی ہے۔بزدلی سے نہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024