اسلامی تعلیمات کی رو سے مذہب کسی فرد کا ذاتی مسئلہ نہیں، بلکہ اسلام ہمیں اجتماعی وسماجی زندگی مثبت رویوں کے ساتھ گزارنے کا پابند کرتا ہے۔نماز ،زکوٰۃ ، روزہ، حج ، صدقات اور قربانی کے علاوہ اسلامی تہواروں کے اجتماعات اسلامی معاشرتی زندگی کی انمول حکمتوں سے لبریز ہیں۔ انکے ذریعے روز مرہ زندگی میں جسمانی اور مالی پاکیزگی اورصفائی کے علاوہ سلیقے، میانہ روی، تحمل وبرداشت،صبر،ایثار، عاجزی،اطاعت، مثبت سوچ اور انسانی ہمدردی کا درس دیا گیا ہے۔اسلامی تعلیمات کے احکامات کی روشنی اور فطرت ِ انسانی کے رویوں کیخلاف اگر کوئی شخص روشن خیالی اور میانہ روی کی راہ ترک کرکے دقیانوسی پن اور انتہا پسندی کا رویہ اپناتا ہے تو وہ مصائب وآلام کو دعوت دیتا ہے۔یہ معاشرہ افراد کا معاشرہ ہے اور تمام افراد کی سوچ، خیالات، رویے،جذبات، علم، فہم وفراست، شعور، ادراک، عمل، طریقہ ء عمل، صلاحیتیں، قوت ِ فیصلہ ایک جیسے نہیں ہوتے‘ اس لیے روشن خیالی اور میانہ روی نہ اپنانے والے افراد کے رویوں کے سبب پورے معاشرے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے جس کو قرآن پاک نے فتنہ اور فساد کا نام دیا ہے۔
زندگی میں روشن خیالی اور میانہ روی کا رویہ اپنانا ضروری ہے اور یہ سراسر خیر کارویہ ہے، اگر ایسا رویہ اپنی فطرتی شکل میں کار فرما ہو تو غیر اسلامی معاشرے بھی اسلامی معاشروں کی تقلید شروع کردیں گے۔ جن افراد اور معاشروں میں ایسے رویوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ایک طرف افراتفری اور خانہ جنگی انکے اندر موجزن رہتی ہے تو دوسری طرف بد قسمتی، تباہی و بربادی اور مفلوک الحالی ایسے انتہا پسند افراد اورمعاشروں کا مقدر بن جاتی ہیں۔
ایک مسلمان نماز پڑھتا ہو اور تشدد کی ترغیب بھی دیتا ہو یا تشدد کے عمل میں ملوث ہو، ایسا عمل آقائے دو جہاں ؐکی تعلیمات کے کتنا برعکس ہے؟ اس امر کو کوئی قرآن پاک کی روشنی میں سوچنا ہو گا۔ ایسے مسلمان کو اپنے رویے اور اپنی نماز پر نظر ثانی کرنا ہو گی کہ خرابی کہاں ہے؟ ایسے فرد کے اپنے رویے میں یا نماز کی ادائیگی میں؟ اس طرح دیگر شعائر اسلامی کی ادائیگی اور افراد کے رویے کا چیک بھی ضروری ہے۔ ایسے نمازیوں کیلئے علامہ اقبال کہہ گئے ہیں:
تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گذر ، ایسے امام سے گذر
اللہ تعالی کے واحدہ لاشریک ہونے پر پختہ ایمان، تقویٰ، توکل، جزاء وسزا پر یقینِ مُحکم ہو تو مسلمان کسی طرح بھی میانہ روی، صبر اور تحمل وبرداشت سے پہلو تہی نہیں کر سکتا۔ بطور ایک مسلمان کے یہ امر ہمارے لیے قابل غور ہے کہ عمر بن خطاب نے جب تک اسلام قبول نہیں کیا تھا کیا اُن جیسا انتہا پسند، انا پرست، تشدد پسند، جری، دلیر اور بہادر شخص آج کے معاشروں میں کوئی پایا جاتا ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہو گا، پھر اسلام قبول کر کے جب آپ حضرت عمرؓ ہو گئے یا بعد میں خلیفہ بن گئے تو عاجزی، صبر، میانہ روی، اطاعت اور تحمل وبرداشت کا دامن آپ نے کبھی چھوڑا؟ بالکل نہیں، کیونکہ نماز، روزے اور آپ ؐ کی صحبت نے حضرت عمرؓ کے سینے سے ہر طرح کی ایسی انا پسندی اور بہادری کو نکال دیا تھا جو اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی تھیں۔
آج کے مسلمان معاشرے میں خاص طور پر دیکھنا ضروری ہے کہ ’’بات‘‘ کیا کہی گئی ہے؟ اسلامی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھنے سے اسکی حقیقت کیا ہے؟ اسکے معاشرتی وسماجی لحاظ سے فوائد کیا ہیں؟ ہمارا معاشرتی اور اسلامی تشخص اس سے مجروح ہوتا ہے یا پہلے کی نسبت اور نکھرتا ہے؟ قرآن پاک انسانی معاشروں کی خرابی اور تباہی وبربادی سے سخت منع کرتا ہے۔ قرآن پاک میں کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا، کہ غیر مسلم یا مسلم کو ناحق قتل کیا جائے۔
آج لفظ جہاد کا استعمال جس طرح کیا جا رہا ہے کبھی کسی نے آقائے دو جہاںؐ کی تعلیمات کو ذہن میں رکھ کر اس لفظ کو زبان سے نکالا ہے؟ جہاد کی روح سمجھنے کیلئے نبی پاک صلعم اور صحابہ کرامؓ والا دل ودماغ چاہیے۔
اس دور میں ذاتی مفادات کیمطابق قرآن وحدیث کے الفاظ کے مفہوم بنائے اور بتائے جا رہے ہیں۔ سوچنا ہوگا آج کی قتل و غارت اسلامی جہاد کے زمرے میں آتی ہے؟ انسانوں کی قوتِ برداشت ختم ہو رہی ہے۔ روشن خیالی کو چمک دمک کھائے جا رہی ہے۔ میانہ روی کی قوت لالچ وحرص کے سامنے ماند پڑتی جا رہی ہے۔ عاجزی اور صبرنا بود ہوتے جا رہے ہیں۔ ضد اور ’’میں نہ مانوں‘‘ کا عنصر انسانوں کے اندر تیزی سے قوت پکڑتا جا رہا ہے۔ انسانی رویوں میں اعتدال زوال پذیر ہو چکا ہے۔ہر شخص وقتی مفادات کے بتوں کی پوجا کر رہا ہے۔ ہم مِن حیث القوم مستقبل کے بارے میں فکر کرنے سے عاری ہیں۔
قرآن وسنت سے ہر طرح کی رہنمائی حاصل کرنا ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔ ایک مسلمان کو روز مرہ زندگی گزارنے کیلئے ذاتی اور معاشرتی زندگی میں کب کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ جب بھی کوئی شخص قرآن وحدیث کی جانب رجوع کرے گا تو نورِ ہدایت کی حیثیت رکھنے والی دونوں نعمتوں سے اس کو روشن خیال اور میانہ روی کا رویہ اختیار کرنے کا وہ درس ملے گا جو رب العالمین کی رضا اور اسوئہ ِ حسنہ کے مطابق ہو گا۔
ملک وملت کی معاشرتی، معاشی، سماجی، تمدنی ترقی کیلئے لازمی ہے کہ افراد اپنے رویوں میں ایسی روشن خیالی اور میانہ روی پیدا کریں جو قرآن پاک اور حدیث پاک کے عین مطابق ہو۔ جن معاشروں میں ایسے رویے اختیار نہیں کیے جاتے ان کی ظاہری ترقی حقیقت میں روز حشر اُن کو تباہی کی جانب لے جانے والی ہے اُس روز مال ودولت، اولاد، رشتہ دار اور دنیا بھر کی کوئی چیز اللہ تعالی کی پکڑ سے نجات نہ دلا سکے گی۔