سانحہ منیٰ نے عالم اسلام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا۔ حاجیوں کے عزیز و اقارب کئی روز تک ایک عذاب سے گزرتے رہے۔ آخری خبریں آنے تک اس المناک سانحے میں 1100حجاج شہید اور 934 زخمی ہوئے۔ اس سانحہ کی تفتیش جاری ہے۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا ہے کہ بھگدڑ کی وجہ سے یہ افسوسناک سانحہ رونما ہوا۔ حاجی بھاگنے پر کیوں مجبور ہوئے اس سوال کا تسلی بخش جواب ابھی تک نہیں مل سکا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں ڈسپلن پیدا نہیں ہوسکا حالانکہ نماز کا ایک مقصد مسلمانوں میں نظم و ضبط پیدا کرنا بھی تھا مگر ہم شادی بیاہ کی تقریبات، جلسے جلوسوں اور سڑکوں پر ٹریفک کے دوران بدنظمی روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر نہ حکومت اور نہ ہی سیاسی و سماجی لیڈر اس اہم مسئلہ پر توجہ دینے پر مائل نظر آتے ہیں۔ سانحۂ منیٰ میں 42پاکستانی حاجی شہید اور 35زخمی ہوئے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کے بیان کیمطابق 300لاپتہ پاکستانیوں میں سے 238اپنے ہوٹلوں میں پہنچ چکے ہیں جبکہ 62کی تلاش جاری ہے۔ ایک رپورٹ کیمطابق سعودی شہزادے کو پروٹوکول دینے کیلئے منیٰ کی کچھ سڑکیں بند کردی گئیں۔ یہ پروٹوکول شہادتوں کا سبب بنا اگر سعودی حکومت سکیورٹی کے فول پروف انتظام کرتی تو سانحہ سے محفوظ رہا جاسکتا تھا۔ حج کے انتظامات میں بڑے مسلمان ملکوں کو بھی شریک ہونا چاہیئے۔ حاجیوں کی مکمل تربیت کی جانی چاہیئے۔ کرین کے حادثے میں بھی سینکڑوں حاجی شہیداور زخمی ہوگئے تھے۔ اس سلسلے میں سعودی حکومت کو بنیادی ذمے داری قبول کرنی چاہیئے اور سکیورٹی معاملات اور نظم و نسق کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیئے۔ ایران نے اندوہناک سانحہ کو سیاسی عزائم کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ عالم اسلام کے ممالک ایک دوسرے کیخلاف الزام تراشی کرینگے تو اسلام دشمن فائدہ اُٹھائیں گے۔ عالم اسلام کو اپنے مسائل اقوام متحدہ میں پیش کرنے کی بجائے او آئی سی میں پیش کرنے چاہئیں جو مسلمانوں کا نمائیندہ فورم ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے وزارت مذہبی امور اور خارجہ امور کو ہدایت کی ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے سرگرم اور پرعزم کردار ادا کیا جائے۔ انہوں نے شہداء کے لواحقین کو سرکاری خرچ پر سعودی عرب بھجوانے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ رب کائنات سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ شہید اور زخمی حجاج کے لواحقین اور عزیز و اقارب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمان حالات کا ماتم کرتے ہیں مگر حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ اپنی اصلاح اور خود احتسابی کی بجائے حادثے اور سانحے کی ذمے داری قدرت یعنی اللہ پر ڈال دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا 70ویں اجلاس کا افتتاح ہوچکا ہے جس میں دنیا کے ممالک کے سربراہ شریک ہیں۔ اقوام متحدہ کا اجلاس ہر سال نیو یارک میں ہوتا ہے جس میں عالمی امور کا جائزہ لیا جاتا ہے اور دنیا کے پر امن مستقبل کیلئے لائحہ عمل پر مشاورت ہوتی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف اس اجلاس میں شرکت کررہے ہیں اس لیے جنوبی ایشیا کے عوام اقوام متحدہ کے اجلاس میں دلچسپی لے رہے ہیں اور عالمی رہنمائوں کی سفارت کاری پر تبصرے کررہے ہیں۔ اوفا (روس) پاک بھارت مذاکرات کی ناکامی اور دہلی میں قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی منسوخی کے بعد میاں نواز شریف محتاط نظر آتے ہیں۔ بھارت کے بارے میں ان کا لب و لہجہ تبدیل ہوا ہے۔ پاکستان میں افواج پاکستان کی مقبولیت آسمانوں کو چھو رہی ہے لہذا وزیراعظم کیلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ قومی سلامتی کے امور پر فوج اور عوام کے موڈ کے برعکس مؤقف اختیار کرسکیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے سامنے پاکستان کا مؤقف دو ٹوک اور واضح الفاظ میں پیش کیا ہے۔ سیکریٹری جنرل کو بھارت کی جانب سے جارحیت اور پاکستان کے اندر مداخلت کے ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ ان کو باور کرایا گیا ہے کہ کشمیر کے بارے میں قرارداد پر عمل کرانا اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے۔ بانکی مون نے عالمی امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کی تعریف کی ہے اور پاک بھارت تنازعات کو مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم میاں نوازشریف اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی پاکستان کا مقدمہ دلیری اور جرأت کے ساتھ عالمی رہنمائوں کے سامنے پیش کرینگے۔ کشمیر کے بارے میں پاکستان کا اصولی اور روایتی مؤقف بیان کرینگے۔ عالمی برادری کو دہشتگردی کیخلاف پاکستان کے اقدامات سے آگاہ کرینگے اور پاکستان کو کمزور اور عدم استحکام کا شکار بنانے کیلئے بھارت کے خفیہ عزائم اور سرگرمیاں بے نقاب کرنے کیلئے ثبوت پیش کرینگے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ وزیراعظم کے خطاب کا اہم نکتہ ہوگا جس کے بارے میں بتایا جائیگا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی آئے گی۔
اقوام متحدہ 2030ء کے ورلڈ ویو کو خصوصی اہمیت دے رہا ہے جسکے سترہ مقاصد اور 169اہداف بتائے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں خواتین کے حقوق ، ماحولیاتی تبدیلیاں، غربت اور جہالت کا خاتمہ اور عالمی امن خصوصیت کے حامل ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی تجارتی اور معاشی ایجنڈے پر زیادہ زور دے رہے ہیں اور بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنوانے کیلئے سفارت کاری کررہے ہیں۔ ان کو امریکہ کا تعاون اور آشیرباد حاصل ہے۔ ایک سینئر پاکستانی دانشور نے کہا ہے کہ امریکہ اپنے قومی مقاصد کیلئے قربانیاں تو پاکستان سے لیتا ہے مگر سرپرستی بھارت کی کرتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنے دورے کے دوران (ایس ایس سی) سائوتھ کو آپریشن کانفرنس میں شرکت کی اور پاکستان کے داخلی، خارجی اور معاشی امور پر روشنی ڈالی۔ وزیراعظم کی معاونت قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی کررہی ہیں۔ وزیراعظم نے ایس ڈی جی کانفرنس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ انکی عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں جو زیادہ تر رسمی نوعیت کی ہیں اور جن میں کشمیر، بھارت، افغانستان اور ضرب عضب معاشی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال ہورہا ہے۔ وزیراعظم کو پاکستان واپسی پر مختلف نوعیت کے اندرونی چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ فوج کے سپہ سالار اپنے جذبے اور جنون سے پاکستانی عوام کے دل اور دماغ فتح کررہے ہیں جبکہ وزیراعظم کی داخلہ امور کے سلسلے میں کارکردگی عوام کی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ وہ تجربہ کار سیاستدان ہیں اگر نیت کرلیں تو سیاسی عزم کا مظاہرہ کرکے سیاستدانوں کی ساکھ اور وقار میں قابل ذکر اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے اور تاریخ سے سبق سیکھ کرماضی کی غلطیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ امریکی صدر باک اوبامہ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ عراق سے سبق سیکھا ہے کہ طاقت اور دولت سے دوسرے ملکوں میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ افسوس امریکہ لاکھوں مسلمانوں کوشہیدکرنے کے بعد درست نتیجے پر پہنچاہے۔ اس صورتحال پر یہی کہا جاسکتا ہے۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024