مبینہ دھاندلی سے منتخب حکومت کے خلاف دھرنوں کو 45 دنوں سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ پاکستان نہیں بلکہ یورپ ہے اور پرامن احتجاج میں بزرگوں‘ بچوں‘ خواتین اور ہر طبقہ فکر کی طرف سے ’’گونواز گو‘‘ کا نعرہ لگنے کے بعد حکمران اخلاقی طور پر مستعفی ہوجائینگے جس طرح فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک روز کے احتجاج میں اپنے خلاف نعرہ لگنے پر استعفٰی دے دیا تھا۔ سیاست پر قابض مافیا نے اپنے رویے سے ثابت کردیا ہے کہ ہم شرافت‘ امن و امان اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنے سے نہیں جائینگے بلکہ اس وقت جائینگے جب پورا ملکی نظام جام ہوجائے۔
بھٹو صاحب کیخلاف پی این اے کی تحریک کے وقت اپوزیشن قائدین نے اعلان کیا تھا کہ ہر تحصیل سطح پر لوگ جلوسوں کی شکل میں جاکر گرفتاریاں دیں اور ان کے اس اعلان کے بعد پورا ملکی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ پولیس و انتظامیہ لوگوں کو گرفتار کر‘کرکے تھک گئی تھی۔ لوگ تحصیل سطح پر جلوسوں کی شکل میں جاتے اور گرفتاریاں دیتے تھے اورملک گیر احتجاج سے نظام زندگی مفلوج ہوگیا تھا تب کہیں جاکر بھٹو صاحب مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور معاملہ کسی مناسب حل کی جانب چل پڑا تھا لیکن بھٹو صاحب نے بھی اپنے جنرل ضیاء الحق کو مذاکرات میں ساتھ رکھا اور اپوزیشن کے احتجاج کے بعد جنرل ضیاء الحق نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اب میاں نوازشریف نے بھی خود فوج کو معاملات میں معاونت کی درخواست کی اور پھر اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اس سے مُکر گئے۔ نوازشریف کا جھوٹ تو آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد ثابت ہوچکا ہے لیکن ان میں اتنی اخلاقیات باقی نہیں رہیں کہ اسمبلی فلورپر جھوٹا ثابت ہونے پر ہی اقتدار چھوڑ دیں۔ اب اس جھوٹ پر یا تو عدالت سزا دے سکتی ہے یا پھر عوام خود اس کا جواب لیں گے ۔
موجودہ دھرنوں کو ترتیب دینے والوں کو اب یہ سمجھ جانا چاہئے کہ اقتدار پر دھاندلی و دولت کی بنیاد پر قابض مافیا‘ پارلیمنٹ میں بیٹھے نام نہاد جمہوریت پسند اب کسی پرامن احتجاج سے قطعی جانے کو تیار نہیں ہیں، اس لئے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو اپنی پالیسی تبدیل کرنی چاہئے اور وہ ہر تحصیل سطح پر جلوسوں کی شکل میں گرفتاریاں دینے اورملک گیر ہڑتال کا اعلان کریں اور اگر وہ اپنی پالیسی میں تبدیلی نہیں کرسکتے تو پھر انہیں دھرنے فوری طور پر ختم کردینے چاہئیں کیونکہ گلوبٹ کی رہائی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہاں شریفوں کو کبھی حق نہیں مل سکتا بلکہ یہ ملک گلوبٹوں کے قبضے میں ہے جسے چھڑانے کے لئے ہر پاکستانی کو گلوبٹ ہی بننا پڑے گا۔
دنیا کے طویل ترین پرامن دھرنوں کے بعد وفاقی وزراء یہ کہتے ہیں کہ دھرنے ناکام ہوچکے ہیں؟ حکومتی لوگ اب جہاں جارہے ہیں وہاں ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کہہ رہے ہیں کہ ’’دھرنے ناکام ہوچکے ہیں‘‘۔ جمہوریت کے نام پر سیاست کرنیوالوں نے اپنے رویے سے ثابت کردیا ہے کہ ان لوگوں میں کسی قسم کی اخلاقیات باقی نہیں بلکہ یہ لوگ اقتدار سے چمٹے رہنے کا تہیہ کرچکے ہیں اس لئے عوام کو پرامن راستے سے ہٹنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ ایک وفاقی وزیر فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے ڈی چوک 99 سالہ لیزپر نہیں لیا اور اگر یہ لوگ 33 سال بھی دھرنے پر بیٹھے رہیں تو کچھ نہیں ہوگا۔میں پہلے بھی اپنی تحریروں میں بار بار یہ مطالبہ کرتا رہا ہوں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو سستی بجلی اور وافر پانی کی دستیابی کیلئے اپنی منصوبہ بندی واضح طور پر قوم کے سامنے لانی چاہئے کیونکہ اس بنیادی معاملے پر اب تک دونوں قائدین نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اگر تھرمل پاور کے مہنگے ترین منصوبوں سے کرنے کی پلاننگ ہے تو یہ سراسر غلط ہوگا کیونکہ تھرمل پاور بجلی پیدا کرنے کا مہنگا طریقہ ہے جس سے کسی بھی صورت میں ملک میں زرعی و صنعتی ترقی نہیں ہوسکتی۔ الحمدﷲ پاکستان میں ہائیڈل پاور پیدا کرنے کے سینکڑوں قدرتی مواقع موجود ہیں اور ہائیڈل پاور ہی بجلی کی پیداوار کا سستا ترین ذریعہ ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے اب تک قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ لوڈشیڈنگ کا عذاب آخر کس طریقے سے ختم کیا جائے گا؟ بجلی کی قیمتوں میں کمی آخر کس طرح ممکن ہے؟ اگر اب اس بارے میں خاموشی اختیار کی گئی اور جس طرح قوم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے تو اقتدار میں آنے کے بعد دونوں قائدین کہیں میاں نوازشریف کی طرح کالا باغ ڈیم سمیت بڑے آبی ذخائر کی تعمیر سے انکار ہی نہ کردیں؟ اس لئے اس اہم ترین اور بنیادی معاملے پر ان دونوں قائدین کو اپنی پوزیشن بالکل واضح کرنی چاہئے تاکہ قوم کو علم ہوسکے کہ آیا پاکستان کے مسائل واقعتاً حل ہونے جارہے ہیں یا پھر ان سے ایک بار پھر دھوکہ کیا جارہا ہے؟
تھرمل پاور‘ سولر پاور‘ ونڈ پاور‘ کول پاور منصوبوں سے صرف بجلی ہی پیدا ہوسکتی ہے لیکن زراعت کے لئے وافر نہری پانی کی دستیابی بہت ضروری ہے کیونکہ ملک کی اکثریت آبادی دیہات میں آباد ہے اور ان کا ذریعہ معاش زراعت پر منحصر ہے۔ اگر کسانوں‘ کاشتکاروں کو وافر نہری پانی دستیاب نہیں ہوگا تو آخر ملک کس طرح سے ترقی کرسکتا ہے؟ مہنگائی میں کس طرح کمی ہوسکتی ہے جب تھرمل پاور سے پیدا ہونیوالی بجلی استعمال کرکے صنعت و زراعت کو چلایا جائے گا؟ بیروزگاری میں کس طرح سے کمی ممکن ہے؟ جب زراعت و صنعت کو سستی بجلی نہ ملے۔ عالمی مارکیٹ میں اس ملک کی مصنوعات کو اہمیت ملتی ہے جس ملک کی مصنوعات کی قیمتیں کم اور معیار بہتر ہو۔ جس ملک میں بجلی 40روپے فی یونٹ تک چلی جائے وہاں آخر کس طرح سے صنعت کو ترقی مل سکے گی؟ اگر ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا مقابلہ ہی نہیں کرسکیں گی تو انڈسٹری کس طرح سے ترقی کرے گی اور بیروزگاری میں کمی کے دعوے آخر کس طریقے سے پورے کئے جاسکتے ہیں؟ جب تک بیروزگاری میں کمی نہیں آئیگی اس وقت تک بدامنی میں کمی ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو چاہئے کہ پہلی ترجیح میں قوم کو اس بنیادی معاملے پر اعتماد میں لیکر اپنی دوٹوک پالیسی بیان کریں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024