پتہ نہیں فلموں کے ہیروز کا عکس سیاست میں نظر آرہا ہے یا سیاست کے ہیروز کا عکس فلموں میں ہے یا سیاست عبادت اور ریاضت سے نکل از خود ایک ”فلم“ بن گئی ہے؟ بہرحال ہیرو‘ ہیرو ہوتا ہے۔ بے شک وقفے سے پہلے وہ کچھ بھی ہو بعد از وقفہ وہ توبہ یا یو ٹرن کے بعد ایک چہرے پر دوسرا چہرہ سجا لیتا ہے۔ جیل‘ تھانہ‘ عدالتیں‘ گاڑی (گھوڑی) اور گولی نہیں تو سسپنس اور ایکشن نہیں۔ یہ دونوں نہیں تو فلم ڈبہ! اگرچہ ہالی وڈ کی کامیاب و کامران فلم میں رومانس اور سنگیت ضروری نہیں‘ لیکن ”تھرڈ ورلڈ“ یا غریبوں کی غریبی فلم اور سیاست سُرسنگیت اور رومانس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ وہ فلم اور سیاست ہی کیا جس میں گولی‘ گالی اور گانا نہ ہو۔
میٹھی گولی ہو یا بندوق کی‘ اس کے بغیر کوئی سیاست کرکے دکھائے۔ گالی مخالف کو دینی ہو یا اپنے آپ کو‘ اس کے بغیر کوئی سیاست چمکا کر دکھائے۔ ہے کوئی؟ گانا کہیں یا ترانہ اس کے بغیر کوئی سیاسی بزم سجا کر دکھائے۔ محبت کا دعویٰ۔ واہ کیا بات ہے! لیڈر کو ”محبت“ عوام سے ہوتی ہے اور عوام کو روٹی‘ کپڑا اور مکان سے۔ پس دوگانا چلتا ہے روٹی‘ کپڑا اور مکان۔ لیڈر کی جانب سے بھی اور عوام کی طرف سے بھی۔ نہیں تو لیڈر کو الفت عوام سے ہے‘ عوام کو الفت بجلی سے ہے۔ لہٰذا بجلی اور بلب دو جسم ایک جان‘ دو گانا یہاں بھی چل گیا۔ موسم بدلا‘ دن بدلے اب لیڈر کو محبت ”پاکستان“ سے اور خلقِ خدا کو چاہئے ”نیا پاکستان“ یہاں بھی دل مل گئے۔ چلاﺅ گانا....! یار‘ ہر جگہ دل مل جاتا ہے یا دل ہل جاتا ہے؟۔
چھوڑیں فلمیں شلمیں‘ پرے کریں پیار ویار۔ آتے ہیں سیاست کی جانب‘ سیاست آجکل اپنے شباب پر ہے اور سیاستدانوں کا پاﺅں بڑھاپے میں‘ لیکن لب پر ہے کہ ابھی تو میں جوان ہوں۔ اوکے! مان لیا نوازشریف (سن پیدائش 25 دسمبر 1949ئ) ‘ عمران خان (عمر اور سالگرہ کا دن 5 اکتوبر 1952ئ) اور آصف علی زرداری (26 جولائی 1955ئ) تینوں ہی جوان ہیں یا ”نوجوان“ فیصلہ قلم یا قرطاس کے نہیں شعور اور شعار نے کرنا ہے۔ مرضی ہے کریں یا نہ کریں‘ لیکن کیا ہے بھئی؟ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن (19 جون 1953ئ)‘ اسفند یار ولی (19 فروری 1949ئ) سمیت یہ سبھی جوان ہیں۔ بزرگ تھوڑے ہیں۔ انجوائے کریں‘ دیں گالیاں‘ بولیں تندوتیز جملے‘ لیں کام شعلہ بیانیوں سے۔ ارے جوان ہیں سب اور قوم کا درد ان سب کے دل میں۔ یہ کوئی اقتدار کے حصول کی خاطر آپے سے باہر تھوڑا ہوتے ہیں۔ یہ تو محبت میں بے قابو ہوکر عوام کی خاطر سیاست کا بازار گرم رکھتے ہیں
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
جو سین جوش خطابت کے چل رہے ہیں‘ مجھے تو لگتا ہے کہ ان دنوں تین بڑے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ (1) میاں نوازشریف‘ (2) عمران خان اور (3) خورشید شاہ۔ گویا حزب اختلاف کے قائدین تین تین دکھائی دیتے ہیں اور حزب اقتدار کا لیڈر جیسے اپنی عصر حاضر کی سیاست میں کوئی نہ ہو‘ واہ! کیا بات ہے۔ عمران خان میدان عمل میں زرداری صاحب اور میاں صاحب سے دوبدو۔ خورشید شاہ اسمبلی فلور پر حکومت سے پنجہ آزمائی میں مصروف اور محترم میاں نوازشریف عدالتوں اور کچھ ”پیاروں“ کے خلاف برسرپیکار۔ ان تینوں حضرات کو قوم کا درد رکھنے‘ جوانی دیوانی کی شادمانی رکھنے اور بطور اپوزیشن لیڈران شعلہ بیانیوں و جوش خطابت میں ”شیریں بیانیوں“ کو ملحوظ خاطر رکھنے پر مبارکباد پیش کرکے اور اقتدار کی تاحیات خواہش سینے میں سلگائے رکھنے پر مبارکباد پیش کرنے کے بعد سابق وزیرداخلہ اور حاضر سروس وزیرداخلہ یعنی اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔
سابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان (31 جولائی 1954ئ) اور وزیرداخلہ پروفیسر احسن اقبال (28 مارچ 1959ئ) کافی حد تک سمارٹ خوبصورت اور کسی حد تک خوب سیرت (ن) لیگ لورز ہیں۔ داخلی مماثلت کے علاوہ ان دونوں میں دانشوری کی قدر مشترک بھی موجود ہے۔ ارے دونوں اقتدار سے ہیں‘ لیکن نہ جانے کیوں‘ آجکل دونوں ہی طرز تکلم میں عمرانی جوش و جذبہ سے ہمکنار ہیں۔ پھر 28 اکتوبر کے گرمی و سردی یعنی بیک وقت چادر اور پنکھا چلنے والے موسم میں خوب گرم و سرد بولے ہیں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ عمران خان کو اپنی محسن محترمہ بینظیر بھٹو کیلئے مغفرت کی خوب دعائیں کرنی چاہئیں جن کی سیاسی شہادت کے سبب ان کی سیاسی حیات کو تقویت ملی اور احسن اقبال کو چودھری نثار علی خان کی لمبی حیاتی کیلئے دعا کرنی چاہئے کہ ان کے قلمدان سے دوری کے سبب انہیں وزارت داخلہ کا قلمدان ملا۔ احسن اقبال مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہیں پارٹی میں سقراط اور بقراط سمجھا جاتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں سقراطیت سچائی کی دہائی ہے۔ سچائی کی علامت اور داستان ہیں جبکہ بقراطیت سچائی گھر لینے کی فہم و فراست کا نام ہے۔ حلقہ یاراں آجکل ٹاک شوز کو شوخئی تکلم میں ”سقراطیت و بقراطیت جھاڑنا“ بھی کہتے ہیں۔ کمپنی کی مشہوری کیلئے عرض کر دیں کہ سقراط پانچویں صدی قبل مسیح کا عظیم فلسفی تھا جو ایتھنز میں پیدا ہوا جو حق پرست اور منصف مزاج ہی نہیں وطن پرست اور جنگجو بھی تھا۔ اس کے شاگرد رشید افلاطون کے مطابق سقراط کہتا کہ ”جہالت کا مقابلہ کرنا چاہئے اور انفرادی مفاد کو اجتماعی مفاد کے پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔“ بقراط بھی یونانی تھا ۔ یہ طبابت کا بڑا نام تھا‘ اس کا تعلق بھی پانچویں صدی قبل مسیح سے ہے۔ اسے ذہانت اور فہم و فراست کا سائنسی ایڈیشن سمجھا جاتا ہے۔ جو اس وقت تعویذ گنڈے کے علاج سے دور تھا۔ ہاں‘ وہ ہمارے پیارے وزیرداخلہ نے کچھ سابق جرنیلوں‘ چند صحافیوں اور ناکام سیاستدانوں کو ٹرائیکا کی پیار بھری ساخت میں یاد کیا۔ ان کے نزدیک یہ ٹرائیکا اپنی سقراطیت اور بقراطیت اپنی کلاکاری سے غیرآئینی اقدامات چاہتی ہے۔ یقینا چاہتی ہوگی۔ کوئی شک نہیں مگر اقتدار کے باسیوں کو حوصلے اور تدبیر سے کام لینا چاہئے۔ آصف علی زرداری کا جتنا میڈیا ٹرائل ہوتا تھا‘ اس کی مثال اب بھی کہیں نہیں۔
پروفیسر صاحب! ہو سکتا ہے چند صحافی ”سقراطیت“ جھاڑتے ہوں‘ لیکن وہ بے شمار صحافی جو (ن) لیگ کی خاطر صبح‘ دوپہر‘ شام بقراطیت جھاڑتے ہیں‘ وہ جنتی ہیں کیا؟ اپنی اپنی بساط ہے۔ سب کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ رہی بات کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں کی تو حضور کیا بھول گئے کہ آپ کیلئے تو حاضر سروس جرنیل آئی جے آئی تراش دیا کرتے تھے تو کبھی مسلم لیگ بنا دیا کرتے تھے اور اپنے پاﺅں پر کھڑا کر دیا کرتے تھے۔ وہ جج بھی تو یاد ہونگے جو آپ جناب کی پارٹی کے اعلیٰ سرکار کے حکم پر بینظیر بھٹو کے خلاف فیصلے صادر فرما دیاکرتے تھے۔ آج جرنیلوں کے یار آپ کے پڑوسی سے‘ آپ کے گھر سے‘ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ”ہم نوا“ ہیں۔ ریاستی وزارت ٹھکرانے پر آپ نے انہیں وفاقی وزارت بھی دی۔ اسمبلی اور بیسیوں آپ کے سنگ ہیں۔ اب ضروری نہیں ہر کالاپن آپ کی زلف میں ہو تو حسن دوسرے بالوں پر ہو‘ تو کالک ہو؟ ”تمہارا لہجہ بتا رہا ہے .... تمہاری وزارت نئی نئی ہے۔“ رہی ناکام سیاستدانوں والی بات تو صاحب آپ آئین ساز ہو نہ چارہ ساز‘ پیپلزپارٹی کی آئین سازی اور کامیابیوں کے اوراق اٹھا کر دیکھئے‘ صرف اپنے اقتدار اور اگلوں کی بدقسمتی پر نہ چاہئے۔سدا نام صرف اللہ کا ہے۔ اگر اشارہ انصافیوں اور عمرانیوں کی طرف ہے تو پھر بھی دعا دیں۔ دھرنے کے دنوں میں حکومت کا ساتھ دینے والوں کو‘ ورنہ آپ تو گئے تھے۔ جمہوریت کو ہم بھی چاہتے ہیں۔ دل سے‘ نہ اقتدار کےلئے نہ ناموس کیلے محض ملک و قوم کیلئے۔ کس نے کہہ دیا جمہوریت صرف (ن) لیگ کی چاہت کا نام ہے؟ جنہوں نے کل لیگ کو بنایا تھا آج گر انہوں نے تحریک کو بنا دیا‘ بٹھا دیا اور لڑا دیا تو برداشت کریں جی! ممکن ہو‘ مناسب سمجھیں یا پسند کریں تو سابق ہم نوا و سابق ہم وزارت چودھری نثار علی خان کی بھی سن لیجئے‘ بات مختصر مگر بات بہت اہم ہے۔”سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر تضحیک کی اجازت نہیں۔“ آپ ہی فرمایئے اسے سقراطیت جانیں یا بقراطیت مانیں؟ اگر ہمیں اجازت دیں تو ہم سقراط و بقراط کو مائنڈ نہیں کرتے۔ وہ آپ کی طرف کے ہوں یا دوسروں کی جانب کے‘ اپنی تو خواہش ہے کہ جمہوریت پسندوں پر بزرگی آجائے تاکہ جمہوریت بڑھاپے کے جوڑوں اور کمر کے درد کے علاوہ شوگر اور سرطان سے بچی رہی۔ جمہوریت میں کوڑھ کی کاشت آجائے تو آمریت اُگنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ کاشتکار کن کن صفوں میں‘ کہاں کہاں ہیں کوئی بزرگ نشاندہی کرتا ہے نہ نکالتا ہے۔ حتیٰ کہ الیکشن کمشن اور عدالتیں بھی انہیں ریلیف دے دیتی ہیں۔ آہ ”خاندانی جمہوریت والے تو.... مزاج رکھتے ہیں‘ نرم اپنا.... کسی کا لہجہ بتا رہا ہے.... کسی کی وزارت نئی نئی ہے۔!!!“ ایک جگہ ہمارے بائیں طرف ایک ریٹائرڈ آفیسر بیٹھ گیا۔ ضابطہ تھا کہ آئی ایس آئی کی خوبیاں بیان کرنی تھیں جو ایک صداقت عامہ ہے۔ ہم نے امریکی سی آئی اے کو خوب رگیدا مگر آفیسر نے باری آنے پر آئی ایس آئی کے مقابلہ پر جمہوریت پر جملے داغنے شروع کردیئے۔ کہنا پڑا کہ صاحب بھئی فوج میری آن ہے۔ بغیر تنخواہ یا پینشن لئے اور جمہوریت میری جان۔ گویا ہمیں اپنے دائروں اور اپنے اداروں میں رہنا ہے۔ پاک جمہوریت کے اعضاءبن کر۔ اعضاﺅں کو تسلیم کریں گے تو ربط کیساتھ ساتھ منزل کی جانب حرکت ہوگی۔ ازراہ کرم! مسکراہٹ کوفلمی فلمی نہیں عملی عملی اور نظریاتی نظریاتی رکھیں۔ معاملہ پاکستان کا ہے اور ہمارے گھر کا۔ خاندان میں خاندانی بنئے۔ ہر وقت شریکا نہیں ورنہ ٹھیکہ چائینہ کا ٹھپہ امریکہ کا اور حکم بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا۔ بزرگو! کیا چاہتے ہو؟ قانون شکن ولن نہیں‘ قانون ساز ہیرو بنئے۔ خدارا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38