رمضان برکتوں کا مہینہ ہے، یہ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کا مہینہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ تجدید عہد کا ماہ ہے، وہ عہد جو انسان اپنے رب اور اپنے ساتھ کرتا ہے۔ویسے تو درِ رحمت ہر وقت کھلا رہتا ہے لیکن کچھ دن اور ماہ زیادہ بابرکت ہوتے ہیں۔ ان میں شیاطین کی حرکات و سکنات محدود کر دی جاتی ہیں۔ خشوع و خضوع سے مانگی ہوئی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ دین مبین ہے۔ یہ بیک وقت دنیا کا سب سے مشکل اور آسان ترین مذہب ہے۔ مشکل اس اعتبار سے کہ پیدائش سے لیکر دمِ واپسیں تک آدمی کو ضابطوں کا پابند کردیا گیا ہے، ایک مسلمان کو ساری زندگی ڈسپلن کے تحت گزارنی پڑتی ہے، اسکے حقوق اور فرائض کی نشاندہی کردی گئی ہے، زندہ رہنے کا سلیقہ سمجھایا گیا ہے، مرنے کے آداب بتائے گئے ہیں۔ چونکہ نظام کائنات ایک توازن پر قائم ہے، اس لئے مسلمان کو بھی متوازن زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے جسے عملیت کہا جاسکتا ہے۔ HERMITS and RECLUSE کی طرح نہ تو وہ جنگلوں، غاروں اور گھپائوں میں زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ’’مشروں کے بیل‘‘ کی طرح بے لگام پھر سکتا ہے۔ حقوق العباد بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے حقوق اللہ ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ حقوق اللہ میں کوتاہی کی تو معافی مل سکتی ہے، حقوق العباد کی خلاف ورزی کی کڑی سزا تجویز کی گئی ہے۔ کسی فعال، خوشحال اور ترقی پذیر معاشرے کی یہ اساس ہے، تکریم انسانیت، رحم، عفو، درگزر، محبت، ایثار اس کے جزولاینفک ہیں۔ شام کو کھانا کھانے سے پہلے اس بات کی تسلی کرلو کہ تمہارا کوئی پڑوسی بھوکا تو نہیں سورہا۔ اپنے خدمت گاروں کو بھی وہی کھلائو جو تم خود کھاتے ہو۔ ویسا ہی لباس پہنائو جو تم نے خود زیب تن کیا ہوا ہے۔ عیش میں یاد خدا نہ بھولو، طیش میں خوفِ خدا کا خیال رہے۔ بوڑھے والدین کی خدمت محض ایک قرض ہی نہیں، فرض بھی ہے۔ اسی لئے محاورتاً جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھا گیا ہے۔ ان تمام باتوں کو بھی عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ عبادت کا بھی وہ اعلیٰ و ارفع مفہوم ہے جو دین مبین کو دیگر مذاہب سے منفرد اور ممتاز کرتا ہے۔ دیگر مذاہب میں عبادت بھی ہے لیکن اسلام میں عبادت ہی ہے۔ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا یا اسکے بندوں کی فلاح کیلئے کیا جائے، عین عبادت ہے۔
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
آسان اس لئے ہے کہ دین کے ہر پیروکار سے وہی مانگا گیا ہے جو اس کی بساط میں ہے، جسے وہ آسانی سے کرسکتا ہے۔ روزہ فرض ہے لیکن اگر آدمی سفر میں ہو، بیمار ہو، نحیف و ضعیف ہو تو چھوٹ دی گئی ہے۔ یہی حال باقی ارکان دین کا ہے۔ حج فرض ہے لیکن صرف ان کیلئے جو اخراجات حج برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ قربانی میں بھی یہی فلسفہ کارفرما ہے۔ کئی لوگ مل کر بھی قربانی دے سکتے ہیں۔ قربانی کا مقصد محض ایک جانور ذبح کرنا نہیں ہے، اس کے پیچھے ایک بہت بڑا فلسفہ کارفرما ہے۔ احکام الٰہی کی پابندی، ایثار، خلوص، یقین محکم، غیر متزلزل ایمان۔ یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ حضرت ابراہیمؑ کو خواب آتا ہے، بیٹے اسماعیل کی قربانی دو۔ وہ کسی قسم کی تشکیک کا شکار نہیں ہوتے۔ بیٹے کو خواب سناتے ہیں تو وہ سر تسلیم خم کردیتا ہے …؎
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آداب فرزندی
چھری اور رسی لیکر بیٹے کے ساتھ منیٰ کی طرف جاتے ہیں۔ رستے میں ابلیس ملعون بیٹے کے ذہن میں شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ’’تمہارا باپ بوڑھا ہوگیا ہے، کبھی کوئی جوان بیٹے کی بھی قربانی کرتا ہے، تم جوان ہو، تمہارے کھانے پینے کے دن ہیں،ذرا سوچو! جب تمہاری سر بریدہ لاش گھر پہنچے گی تو دکھیاری ماں پر کیا گزرے گی۔ وہ سینے پر دوہتھڑ مار کر گرے گی، ایک گھر سے بیک وقت دو جنازے اٹھیں گے۔ حضرت اسماعیل نے کہا: تم جھوٹے اور فریبی ہو، میں تمہاری کسی بات پر یقین نہیں کروں گا۔ ابلیس بدبخت عالم تو تھا ہی، علمی بحث پر اثر آیا۔ کہنے لگا: انبیاء کو دو قسم کے خواب آتے ہیں، عینی اور تمثیلی۔ تمہارے باپ کو تمثیلی خواب آیا ہے جسے وہ عینی سمجھ بیٹھا ہے۔ ’’دور ہو جا ملعون!‘‘ حضرت اسماعیل نے اسکی طرف حقارت سے دیکھا، تمہاری بھی کوئی زندگی ہے، حیاتِ بے مصرف، رانداۂ پروردگار! تو مرنے سے پہلے بھی کئی بار مرے گا‘‘ بس ایثار کا وہ ایک لمحہ تھا جو تاریخ کے سینے پر نقش ہوگیا۔ قربانی ذبیح عظیم میں بدل گئی، مسلمان ہر سال اس واقعے کی یاد میں قربانی دیتے ہیں۔
عیدین پر اکثر ایک قضیہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ انسان ازل سے توہمات کا اسیر رہا ہے۔ گو اسلام نے بتانِ اوہام کو پاش پاش کردیا تھا لیکن حضرت انسان بھی عجیب جانور ہے، پوری طرح ان سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔ عید کی آمد رویت ہلال سے منسلک ہے۔ قرون اولیٰ اور وسطیٰ میں ہر شہر اپنی صوابدید کیمطابق عید مناتا تھا، ’’کمیونی کیشن گیپ‘‘۔ اب حالات بدل گئے ہیں، اگر کراچی میں چاند نظر آجائے تو اس کی تصاویر لاہور، پشاور تک پہنچ جاتی ہیں۔ باایں ہمہ اب بھی کچھ لوگ یا خطے اپنی صوابدید کے مطابق عید مناتے ہیں، حکومتی اعلانات پر کان نہیں دھرتے۔ حکمرانوں میں ایک وہم راسخ ہوگیا ہے کہ جمعہ کی عید حاکم وقت پر بھاری ہوتی ہے۔ دو خطبے اسکے زوال کا موجب بن سکتے ہیں۔ چنانچہ ایوب خان مرحوم نے جمعہ کی عید کو جمعرات میں بدل دیا۔ سرکاری مولویوں سے اعلان کرایا کہ چاند نظر آگیا ہے۔ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ بالآخر اسکے زوال کے ڈانڈے جمعہ کی عید سے ملائے گئے۔ بھٹو مرحوم کے دور میں بھی عید جمعہ کے روز آگئی، مولانا کوثر نیازی نے مشورہ دیا ’’تمام علمائے دین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جمعہ کی عید والی ٔ ریاست کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے، دن بدل دیں‘‘۔ بھٹو چہرے پر مصنوعی تشویش طاری کرتے ہوئے بولے: مولانا آپ درست فرماتے ہیں، چوہدری فضل الٰہی خاصا بوڑھا ہوگیا ہے‘‘ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چوہدری ’’ہیڈ آف اسٹیٹ‘‘ ہے، بھٹو ہیڈ آف گورنمنٹ ہے۔ بھٹو کی تباہی کے بعد مولانا کا خیال مزید راسخ ہوگیا۔
ON A LIGHTER NOTE، روزہ داروں کی نسبت روزہ خوروں کیلئے یہ مہینہ گزارنا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ بھلے وقتوں میں ہوٹلوں میں کھانا مل جاتا تھا، اب انتظامیہ کی سختی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ دفتروں میں کام کرنے والوں کیلئے ان کو گھر جانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ سارا دن کذب بیانی سے کام لینا پڑتا ہے۔ جب کوئی روزہ دار پوچھتا ہے، بھاجی! آج کچھ روزہ زیادہ نہیں لگ رہا؟ تو یہ جھوٹ کو کڑوے گھونٹ کی طرح حلق سے اتارتے ہوئے کہتے ہیں، کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے! پانی کا گھونٹ بھرنے کیلئے بھی چپڑاسی کی نظروں سے بچ کر غسل خانے میں جانا پڑتا ہے۔ کچھ دانشور روزہ نہ رکھنے کا جواز غالب کے اس شعر میں تلاش کرتے ہیں
روزہ میرا ایمان ہے لیکن غالب
خس خانہ و برناب کہاں سے لائوں
مرزا سے منسوب چند لطائف بھی پیش کرتے ہیں کیسے شیطان کو رمضان میں انکے تنگ و تاریک کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ وہ کمبخت مصائب شاہ کو روزہ خوری پر اکستاتا رہتا۔ غالب نے اپنی ولایت کے راستے میں جن رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے، ان میں مے نوشی کے علاوہ روزہ خوری بھی شامل تھی۔ شاعرانہ تعلی اپنی جگہ، مرزا سے پوچھا جاسکتا تھا کہ حضرت قرون اولیٰ اور وسطیٰ کے مسلمان بھی روزہ رکھتے تھے، اس وقت تو خس خانہ و برناب کا تصور بھی محال تھا۔ تمازت آفتاب سے ہر چیز سوختی تھی۔ بجلی محض تخیل میں چمکتی تھی، پھل صبر کا دستیاب تھا اور ٹھنڈا پانی پینے کی بشارت جمعہ کے خطبے میں ملتی تھی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38