ہماری حکومت، عوام، میڈیا اور عدلیہ کیلئے یہ اہم نہیں کہ عمران خان کی ٹیلی فون گفتگو کس نے ریکارڈ کی۔ بحث یہ ہورہی ہے کہ عمران خان کی گفتگو سے ان کا پی ٹی وی پر حملے میں ملوث ہونا یا وزیراعظم کو گالی دینا کتنا مناسب تھا۔ پرویز رشید عمران خان کے پی ٹی وی پر حملے میں ملوث ہونے کا "ثبوت" ملنے پر خوش ہیں دوسری طرف ایم کیو ایم کے فاروق ستار خان صاحب کی نجی گفتگو میں وزیراعظم نوازشریف کیلئے نازیبا زبان کے استعمال پر نالاں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد کبھی کبھی نجی گفتگو کے علاوہ بھی ایسی زبان استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ حیرت ہے کہ جو سیاستدان اور لوگ مخالفین کو سرعام گالیاں دیتے نہیں تھکتے انہیں کسی نجی گفتگو میں کسی گالی پر اعتراض ہورہا ہے۔ اگر آج بھی ہمارے خفیہ ادارے آج تک کی جانے والی تمام ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگز منظر عام پر لے آئیں تو عمران خان بھی ایک فرشتہ محسوس ہوں گے۔ ہمیں اندازہ تو ہوگا کہ صرف لاہور میں ہی پبلک میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر دوسرا لفظ تہذیب کے دائرے کے اندر لگے گا۔ یہی عمران خان صاحب جب کرکٹ کے میدان میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو ان کے اہل خانہ کی یاد دلاتے تھے تو تب وہ پوری قوم کے ہیرو تھے۔ قوم نے اسی جذبے سے ان کی ذاتی زندگی کے بہت سے پہلوو¿ں کو نظر انداز بھی کئے رکھا جس کی ایک جھلک دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بھی ملتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی ٹیلی فونک گفتگو منظر عام پر آنا خان صاحب کیلئے اتنا باعث شرمندگی نہیں جتنا حکومت وقت کے منہ پر ایک تمانچہ ہے۔ یہ کیسے حاکم اور کیسی حکومت ہے کہ جو اس بات میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ اتنے اہم سیاستدان کی نجی گفتگو کو کس قانون اور اختیار کے تحت ریکارڈ کیا گیا۔ وزیراعظم کے ماتحت دو ہی خفیہ ادارے ہیں جن میں سے حقیقی طور پر تو انٹیلی جنس بیورو ہی ان کو جوابدہ ہے۔ اگر حکمرانوں میں تھوڑا سا بھی قانون اور بنیادی حقوق کی شد بد ہو تو اس واقعہ کی فوری تحقیقات کا اعلان کیا جائے۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ فون ٹیپنگ سکینڈلز سے بھری پڑی ہے۔ خود اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے دور میں آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ججوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس، صحافیوں اور وکیلوں کی فون کالز ٹیپ کرائی گئیں۔ چھ ہزار سے زائد خفیہ آڈیو ٹیپ سے بھرا ایک صندوق 1997 میں سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔ ان ٹیپس میں ان شخصیات کے گھروں اور دفتروں کی ٹیلی فون ریکارڈنگز موجود تھی۔ 1996 میں این این آئی نامی خبر ایجنسی کا نمائندہ ہوتے ہوئے راقم نے ان شخصیات، آڈیو کیسٹس کی تعداد اور ان شخصیات کو دیئے گئے خفیہ ناموں کی ایک فہرست کے ساتھ یہ خبر جاری کی جو انگریزی روزنامہ ڈان کے بیک پیج پر شائع ہوئی۔ ان شخصیات کو دیئے گئے خفیہ ناموں میں سے چند نام کچھ یوں تھے۔ ججوں کیلئے لفظ اندھا آدمی نمبر ایک، دو، تین وغیرہ استعمال کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو بھیڑیئے کا خفیہ نام دیا گیا۔ ایم کیو ایم کی ایک خاتون سینیٹر کو گرم بستر کا خفیہ نام دیا گیا۔ سینیٹر وسیم سجاد کو دانا شخص کہا گیا۔
آج بھی سپریم کورٹ میں 1996 کے دوران چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے چیمبر سے گفتگو کی ریکارڈنگز کے آلات ملنے سے متعلق زیر سماعت کیس میں جسٹس ثاقب نثار نے حکومت اور اٹارنی جنرل سے خفیہ اداروں کے فون ریکارڈنگز کے اختیارات سے متعلق تفصیلی جواب طلب کررکھا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنے حساس معاملے کو اتنی غیر سنجیدگی سے لیا جارہا ہے حالانکہ یہ سیاستدان خود بھی فوجی آمریت کے دور میں خفیہ اداروں کی فون ٹیپنگ کا شکار رہے۔ یہ سیاستدان بشمول وزرائے اعظم اور وزراءاپنی نجی گفتگو میں برملا اپنے ٹیلی فون ٹیپ ہونے کا خدشات کے اظہار کرتے ہیں۔ اس سے بڑی منافقت کیا ہوگی کہ عوام کے مینڈیٹ، عوامی طاقت اور پارلیمان کی بالادستی کے نعرے مارنے والے خفیہ اداروں کے ان ہتھکنڈوں کے سامنے یا تو بے بس نظر آتے ہیں یا پھر انہیں اسی کام کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ راقم نے سات جولائی 2014 کو فون ٹیپنگ کے عنوان سے لکھے گئے آرٹیکل میں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی بے بسی کا تفصیلی ذکر کیا تھا۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ میڈیا بھی اس غیر قانونی عمل پر بحث چھیڑنے کی بجائے خفیہ گفتگو کو موضوع بحث بنا کر اپنے ادارتی تعصب کا اظہار کرتا ہے۔ سب سے بڑا ہونے کے دعویدار ٹی وی چینل نے تو اپنے نام نہاد اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نہ صرف عمران خان کی اس فون ٹیپ میں دی گئی گالی کو کئی بار نشر کیا بلکہ اس سے پہلے بھی کراچی میں تحریک انصاف کے عارف علوی کی پولیس والے کو دی گئی گالیوں کو بھی بطور خبر نشر کیا گیا۔
میڈیا کی اس بے شرمی اور بداخلاقی کا بھی علاج ہونا چاہئے۔ نجی گفتگو میں بدکلامی اور بدزبانی ہماری معاشرتی روایات کا ایک تلخ پہلو ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیاستدان اور میڈیا اپنی دشمنی اور بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان گالیوں کو یوں نشر کریں۔ ایسا کرنے والوں کی اگر اپنی نجی گفتگو سامنے آجائے تو یہ لوگ بے شرمی سے خود کو منہ دکھانے کے لائق سمجھتے رہیں گے۔ نجی گفتگو میں گالی پر احتجاج ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی کو غسل خانے میں بے لباسی کا طعنہ دینا۔ عوام کی نجی زندگی اور گفتگو کی جاسوسی قانون کے دائرے میں رہے تو بہتر ہے وگرنہ پھر حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔ ملک میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کی قیادت کرنے والے وزیرداخلہ چودھری نثار کو ان معاملات پر اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔ پچاس نان خریدنے والے مشتبہ افراد پر کون نظر رکھے گا کہ جب خفیہ اہلکار سیاستدانوں کی نجی زندگی میں جھانک کر اپنی تنخواہ حلال کررہے ہوں گے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ قانون کے نگران وفاقی وزیر محض وزیر اطلاعات بن کر اس معاملے پر پوائنٹ سکورنگ کرنے کی بجائے وزیر قانون بن کر اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کرتے۔ حکومت اپنے خفیہ اہلکاروں کو سیاستدانوں اور صحافیوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی بجائے دہشتگردوں کی جاسوسی پر لگائے تو پشاور آرمی سکول جیسے سانحے نہیں ہوں گے۔ اگر آج عمران خان کی جگہ نوازشریف کی اپنی یا ان کے اہل خانہ کی نجی ٹیلی فونک گفتگو منظر عام پر آئی ہوتی تو پھر پرویز رشید کو پتہ چلتا کہ دال کس بھاو¿ بکتی ہے اور شائد تبھی حکومت کو احساس ہوتا کہ انسان کی نجی زندگی میں خفیہ اداروں کی مداخلت سے کون کون سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ مگر شائد تب بھی کچھ نہ ہوتا کیونکہ استاد زرداری کے سکھائے ہوئے سبق کے مطابق گیڈر کی پانچ سالہ حکومت شیر کی ایک سالہ مدت سے بہتر ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ جب حاکموں کو یہ شک ہو کہ آج خان ہے تو کل ان کی باری بھی آسکتی ہے یا پھر آج آڈیو ٹیپ ہے تو کل کوئی وڈیو ٹیپ بھی آسکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خود خان صاحب اور ان کی پارٹی اس معاملے کو خفیہ اداروں کے کردار کے حوالے سے کتنا آگے لے کر جاسکتے ہیں۔ یہ ٹیپ تو شائد ایک ٹریلر تھی خان کیلئے بھی اور شریفوں کیلئے بھی۔ شائد ابھی فلم باقی ہے۔ ہیلو سیاستدانو! سن رہے ہو ؟ اگر نہیں تو کوئی اور تو ضرور سن رہا ہے۔
]