امام صحافت‘ محافظ نظریہ پاکستان محترم مجید نظامی مرحوم کی نوعمری سے ہی تربیت کا آغاز نظریاتی ماحول میں ہوا۔ مجید نظامی صاحب کے بڑے بھائی حمید نظامی تحریک پاکستان میںسرفہرست تھے۔ نظامی برادران نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔حمید نظامی نے قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر 23مارچ 1940ءکو لاہور سے اخبارجاری کیا۔ مجید نظامی مرحوم کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے جدوجہد آزادی میں اعلیٰ خدمات کے باعث مجاہدپاکستان کا خطاب دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کیا اور ساتھ ہی ایک تلوار عطا فرمائی۔ مجید نظامی مرحوم نے اپنی زندگی میں نوائے وقت کے نعرہ ”جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلندکرنے“ کو عملی طور پر نافذ کیا۔ مجید نظامی مرحوم نے حق و سچ کہنے کی پاداش میں بھاری معاشی نقصانات برداشت کئے۔ خاص طور پر اس وقت جب محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان نے الیکشن میں حصہ تو محترم مجید نظامی مرحوم نے محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن مہم میں بھرپور ساتھ دیا اور اپنے اخبار میں فاطمہ جناح کی کامیابی کےلئے تشہیری مہم چلائی جس پر ایوب خان ان سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے نوائے وقت گروپ کو معاشی نقصان پہنچانا شروع کردیا لیکن محترم مجید نظامی مرحوم مالی فوائدکو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور تمام تر مشکلات کے باوجود وہ فاطمہ جناح کی مہم میں کاربندرہے۔
ایک مرتبہ ضیاءالحق شہید کو ان کے دورِ حکومت میں مشورہ دیا ”آپکو گھر چلے جانا چاہئے اور ملک کی جان چھوڑ دینی چاہئے“۔ اس پر ضیاءالحق شہید ششدررہ گئے تھے۔ جنرل ضیاءالحق شہید نے بطور صدر پاکستان بھارتی دورے میں محترم مجید نظامی مرحوم کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو اس پر محترم مجید نظامی نے جواب دیا کہ میں آپکے ساتھ پاکستانی ٹینکوں پر بیٹھ کر بھارت جاﺅں گا۔ وہ مسئلہ کشمیر سمیت باہمی تنازعات میں برابری کی بنیاد پر بات کرنے کے حامی تھے اور بھارت کی ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھ کر انہوں نے ہمیشہ بھرپور دفاعی صلاحیت کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کی جانب سے دعوت میں بھی مجید نظامی صاحب نے مارشل لاءکی مخالفت کی اور جمہوریت کے حق میں آواز بلند کی۔ مجید نظامی مرحوم نے کبھی بھی مارشل لاءکی حمایت نہیں کی لیکن موجودہ ”جمہوریت“ کے بھی زیادہ حق میں نہیں تھے اور نظام میں اصلاحات کے زبردست حامی تھے۔
1998 ءمیں جب بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کئے تو پوری پاکستانی قوم نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف سے فوری طور پر ایٹمی دھماکے کرنے کا مطالبہ کیا اور لوگوں نے فوری طور پر ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کیلئے مظاہرے کرنے شروع کردیئے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے اگلے 13 دنوں کے نوائے وقت کے اداریئے اس بات کے گواہ ہیں کہ میاں نوازشریف سے ایٹمی دھماکے محترم مجید نظامی مرحوم نے کرائے۔بطور اخباری ایڈیٹر انہوں نے نظریہ پاکستان کے تحفظ اور آئندہ نسلوں کو آگاہی دینے کیلئے بہترین تحریریں لکھیں اور اپنی اخباری پالیسی میں نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے کام کرنے والوں کو سرفہرست اور نمایاں کوریج دینے کی پالیسی اپنائی۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کے لئے محترم مجید نظامی مرحوم کی کاوشیں سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔
محترم مجید نظامی مرحوم نے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کیلئے فنڈقائم کیا اور کئی تقاریب منعقد کرکے ان کیلئے ضروریات زندگی کی اشیاءمسلسل روانہ کی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔ اسی طرح مجید نظامی مرحوم نے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے حق میں اپنی استطاعت کے مطابق آواز بلند کی اور حکمرانوں پراپنے محصور بھائیوں کو پاکستان میں لاکر آباد کرنے کیلئے دباﺅ ڈالتے رہے۔ اسی طرح پاکستان میں کسی بھی قدرتی آفت کے موقع پر انہوں نے ریلیف فنڈز قائم کرکے لوگوں کی بھرپور مدد کی۔
محترم مجید نظامی مرحوم عشق رسولﷺ سے سرشار تھے اور دین کی ترویج و اشاعت کیلئے اپنے اخبارات کے ذریعے اسلام کی خدمت کرتے تھے ،مرحوم کو اﷲ رب العزت نے رحلت کیلئے ایسا دن اور وقت عطا فرمایا ہے جس کی لاکھوں مسلمان ہاتھ اٹھا اٹھاکر دعائیں کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے محترم مجید نظامی مرحوم کو 27رمضان المبارک کی مبارک شب میں اپنے پاس بلا لیا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ اسی شب پاکستان بھی وجود میں آیا تھا اور نظامی صاحب اکثر قیام پاکستان کو اﷲ تعالیٰ کا معجزہ قرار دیتے تھے کیونکہ مسلمانوں کی حالت متحدہ برصغیر میں بہت بری تھی اور مسلمانوں کا معاشی و تعلیمی استحصال ہورہا تھا۔ اسی لئے اپنے سے تعداد اور طاقت میں کئی گنا زیادہ ہندوﺅں سے الگ وطن لے لینا بے شک اﷲ رب العزت کا ایک معجزہ ہی ہے۔ وہ اکثر نوجوان نسل کو ملک کی قدر کرنے کی نصیحت کرتے تھے اور آزادی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کیلئے بھرپور دفاعی قوت کے داعی تھے۔
مجھ سے مجید نظامی صاحب خصوصی شفقت فرماتے تھے اور میں جب بھی لاہور جاتا تھا ان سے ضرور ملاقات کا شرف حاصل کرتا تھا۔ مجھے وہ ”چھوٹا ایئرمارشل اصغر خان“ کہتے تھے اور وہ موجودہ حالات و نظام کے بارے میں میری رائے و خیالات کی تعریف کرتے تھے۔ محترم مجید نظامی مرحوم نے ہی ایک ملاقات میں مجھے حکم دیا کہ آپ نوائے وقت‘ ندائے ملت اور دی نیشن کیلئے کالم لکھا کریں کیونکہ پریس ریلیز میں کسی بھی موضوع پر جامع بات نہیں لکھی جاسکتی اور اپنے مکمل خیالات کے اظہار کیلئے آپ کالم لکھیں۔ میں نے محترم مجید نظامی مرحوم کے حکم پر کالم لکھنا شروع کیا اور انہوں نے ہمیشہ مجھ پر دست شفقت رکھا۔
نوائے وقت گروپ صحافت میں اکیڈمی کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان کے اکثر نامور صحافی نوائے وقت سے ہوکر ہی دوسرے اخبارات میں نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان میں صحافت سیکھنی ہوتو نوائے وقت گروپ میں ملازمت کرلیں کیونکہ آج کل کے دور میں شاید ہی کوئی نظریاتی اخبار موجود ہو جو اپنے موقف پر ڈٹ کر صحافت کرے اور معاشی نقصانات کو کوئی اہمیت نہ دے۔ محترم مجید نظامی کی رحلت کے بعد انکی صاحبزادی رمیزہ نظامی نے اپنے والد کے مشن و جاری رکھا ہوا ہے اور مجید نظامی مرحوم کے دور میں اخبار کیلئے بنائی گئی پالیسی پر کاربند رہ کر مسئلہ کشمیرکو سرفہرست کوریج دی جاتی ہے اور پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح نظریہ پاکستان کے تحفظ کے متعلق مواد کو بھی اخبار میں نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024