صاحبِ طرز کالم نگار جناب عطاالحق قاسمی نے 25جولائی کے کالم میں لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ایک ایسی توپ ثابت ہوئی ہے جس نے وزیر اعظم نواز شریف کو 21گولوں کی سلامی دی ہے، اگر انہیں معلوم ہوتا کہ توپ اور گولوں کی تیاری پر دو قیمتی سالوں کے علاوہ کتنا خرچ ہوا ہے تو وہ ضرور بتا دیتے۔
معروف اینکر جناب ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے چینل نیوز ون کے ایک پروگرام میں فرمایا کہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ واہیات رپورٹ نہیں دیکھی۔ رپورٹ میں عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کے الزامات درست ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ووٹ جعلی ہے۔ فارم 15ہزاروں پولنگ اسٹیشنز سے برآمد نہیں ہوئے جس کے بارے میں کمیشن کا خیال ہے کہ یہ فارم 15 تمام صوبوں کے پولنگ اسٹیشنز سے غائب ہیں اس لئے اس کا مطلب دھاندلی نہیں لیا جا سکتا۔ جوڈیشل کمیشن کے خیال میں دھاندلی تو نہیں ہوئی لیکن بے ضابطگیاں بڑے پیمانے پر ہوئیں جس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے۔ اگر جوڈیشل کمیشن دھاندلی کی تعریف بیان کر دیتا تو لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی۔ دھاندلی ہوتی ہے جو بے ضابطگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ کام جوڈیشل کمیشن کا تھا کہ وہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حق او رانصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کر دیتا۔ جوڈیشل کمیشن کی ذمہ داری اصل حقائق تک پہنچنے کی تھی لیکن وہ اپنے ایئرکنڈیشنڈ کورٹ روم سے باہر نکلے ہی نہیں۔ یہ کوئی مقدمہ نہیں تھا یہ ایک ایسا قومی مسئلہ تھا جس کے بارے میں 126 دن کے دھرنے، تقاریر اور پھر بہت بڑے بڑے جلسوں میں عوام کی شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ ساری قوم اس مسئلے کا کوئی مستقل حل چاہتی ہے۔ ملک کی 21 سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات برملا لگائے ہیں، صرف عمران خان نے نہیں ۔ یہ بات پاکستانی عوام بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ دھاندلی کیسے کیسے کی جاتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کے بڑے بڑے اہم واقعات پر نظر ڈالیں تو اُس میں لیاقت علی خان کے قتل، ایوب خان کے مارشل لائ، بھٹو صاحب کی پھانسی، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، ماڈل ٹائون کا قتل عام جیسے اہم معاملات میں اعلیٰ عدلیہ کا ایک مخصوص کردار نظر آتا ہے مثلاً ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف اُس وقت کے آئین کے مطابق مولوی تمیزالدین سپیکر قومی اسمبلی کا مقدمہ جس میں جسٹس منیر نے جب کوئی راستہ ایوب خان کو ریلیف دینے کا نہ دیکھا تو نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور اُس کے تحت ایوب خان کے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا۔ بھٹو صاحب کے خلاف قتل کا مقدمہ جس انداز میں چلا او رجس طرح حلفاً وعدہ کرنے کے بعد 4 ایف ایس ایف کے جوانوں کے بیانات پر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی ان 4 جوانوں کی جاں بخشی کے ضامن جماعت اسلامی کے امیر طفیل محمد صاحب تھے لیکن بعد میں اُن چاروں کو اس لئے پھانسی دے دی گئی کہ یہ کہیں اس بات کا ذکر نہ کر دیں کہ حقیقت کیا تھی۔ مشرقی پاکستان کے المیے پر حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی ایک بے معنی دستاویز ثابت ہوئی۔ بھٹو صاحب کے مقدمے کا فیصلہ ساری دنیا کے لئے حیرت کا باعث تھا۔ ہمارے ایک دوست راجندر اسرین نے دہلی سے ایک کتاب بھجوائی جس کا نام تھا "A Judiciary inCrisis" ۔ یہ کتاب جسٹس راجہ رتنم جو سری لنکا کی سپریم کورٹ کے جج تھے، نے لکھی تھی اور بنگلور سے شائع ہوئی تھی۔ ہم نے جسٹس راجہ رتنم سے فون پر رابطہ کیا۔ راجہ رتنم صاحب کو یہ یقین دلانے میں کہ ہم لاہو رسے بول رہے ہیں او ریہ کتاب چھاپنا اور اُس پر ایک سیمینار کرانا چاہتے ہیں کافی وقت لگا۔ جسٹس یعقوب علی خان کی صدارت میں ہونے والے دوسرے سیمینار کے جب کارڈ چھپ کر تقسیم ہو گئے اور سیمینار کا دن آگیا تو تین باتیں ہمارے سامنے آئیں۔
-1 جسٹس ریٹائرڈ یعقوب علی خان کی فون کال جس میں اُنہوں نے مجھے ڈرایا دھمکایا تھا کہ آپ فوری طور پر سیمینار منسوخ کر دیں نہیں تو آپ اور وہ لندن سے آنے والی خاتون ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس جائیں گے۔
-2اس سیمینار میں وزیر قانون افتخار گیلانی صاحب نے خصوصی خطاب کرنا تھا۔ اُن کے ہم نام سیکرٹری ایک دن پہلے میرے آفس میں بیٹھ کر اُن کی تقریر مکمل کر چکے تھے۔ افتخار گیلانی صاحب کا مجھے فون آیا کہ میں فوری طور پر کوہاٹ جا رہا ہوں، سیمینار میں شرکت نہیں کر سکتا۔ میں نے گزارش کی ایک تقریر آپ کے سیکرٹری صاحب نے لکھ لی ہے آپ سُن لیجئے اور جو ترمیم یا اضافہ کرنا چاہیں وہ کروا دیجئے اور ہمیں اجازت دیجئے کہ آپ کی تقریر کسی سے پڑھوا دیںلیکن وہ راضی نہ ہوئے اور اپنے سیکرٹری کو تقریر سمیت فوراً واپس آنے کا حکم دیا۔
-3جسٹس سید افضل حیدر صاحب کا مجھے فون آیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ظلہ صاحب نے مجھے لاہور رجسٹری میں روک رکھا ہے۔ ایک طرح سے میں اُن کے چیمبر میں قید ہوں۔ اُن کا فرمانا ہے کہ یہ سیمینار کسی بھی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ جناب افضل حیدر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے ظلہ صاحب کو بتایا ہے کہ میرے جانے نہ جانے سے سیمینار کے منعقد ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اُن کا اصرار ہے کہ آپ میرے چیمبر میں ہی رہیں گے۔
سیمینار پروگرام کے مطابق منعقد ہوا۔ بھاری تعداد میں سینئر وکلا صاحبان شریک ہوئے۔ سندھ گورنمنٹ کے وزیر قانون جناب پیر مظہرالحق خاص طو رپر شرکت کرنے کے لئے آئے۔ ان کے علاوہ ڈی ایم اعوان او ردیگر سینئر وکیلوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اُڑا دیں۔ دونوں سیمینارز کی دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی۔ بعد میں ظلہ صاحب نے مجھے اپنے رجسٹرار کے ذریعے ایک خط بھجوایا جس میں شرکت کرنے والے افراد کے نام، فون نمبرز اور تقاریر طلب کی گئی تھیں۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر اس وقت تفصیل سے بات کرنا مناسب نہیں۔ ہمارا موضوع ہے موجودہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الیکشن 2013ء شفاف تھے او رکوئی دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر یہ مسئلہ 2سال تک کیوں چلایا گیا۔ اگر عمران خان کے مطالبے پر ہی 4حلقے کھول دیئے جاتے تو شائد یہ معاملہ وہیں ختم ہو جاتا اور قوم کے 2سال ضائع نہ ہوتے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان 2سالوں میں خاموشی کے ساتھ ریکارڈ کو درست کیا گیا ہو۔ یہ اہم سوال جوڈیشل کمیشن کو سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ کیا اس وقت اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہ ہوتی تب بھی یہ ہی رپورٹ آتی؟؟ تضادات سے بھری اس رپورٹ نے انتشار ختم نہیں کیا بلکہ اسے مزید گہرا کر دیا ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعونo
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024