ویسے تو اس وقت پوری دنیا کم یا زیادہ کسی نہ کسی حد تک دہشتگردی کا شکار ہے۔کوئی ملک مکمل طور پر دہشتگردی سے محفوظ نہیں کہا جا سکتا لیکن مسلم ممالک اسوقت جنگ اور سخت دہشتگردی کی زد میں ہیں جس وجہ سے یہ ممالک سیاسی انتشار، عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار ہیں۔مسلم ممالک اسوقت صومالیہ سے لیکر افغانستان تک کم یا زیادہ خون میں رنگے ہیں۔ لاکھوں میں اموات ہو چکی ہیں اور ملکی سلامتی تک خطرات کی زد میں ہے۔ مزید بد قسمتی یہ ہے کہ مسلم ممالک میں دہشتگردی کے مختلف گروپس وجود میں آچکے ہیں جن کا کام ہی مسلمانوں کا خون بہانا ہے۔ کہنے کو تو یہ لوگ مسلمان ہیں لیکن جس بیدردی اور سفاکیت سے مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں انہیں مسلمان کہنا بھی زیادتی ہو گی۔ خواتین کا لحاظ کرتے ہیں نہ بچوں اور بو ڑھوں کا۔نہ مساجد، امام بارگاہوں کا اور نہ مزاروں کا ۔گرجا گھر اور بچوں کے سکول تک ان سے محفوظ نہیں۔ نجانے یہ کیسی اور کس قسم کی اسلام کی خدمت ہے۔مختلف مسلمان ممالک میں مختلف ناموں کے دہشتگرد گروپس انسانی تباہی میں مصروف ہیں جن میں داعش، الشباب، القاعدہ، تحریک طالبان، لشکر جھنگوی العالمی اور جماعت الاحرار وغیرہ سر فہرست ہیں۔ داعش اسوقت سب سے بڑی اور سب سے خطرناک دہشتگرد تنظیم کاروپ دھار چکی ہے۔یورپ اور امریکہ تک اس کی زد میں ہیں۔ شام اور عراق میں تو کافی سارے علاقوں پر قابض بھی ہے اور ان دو ممالک کو تو تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ مصر، لیبیا ، سعودی عرب ،ترکی ،افغانستان اور پاکستان میں بھی حملوں کی ذمہ دار ہے۔افغانستان میں تو داعش مستقل طور پر پنجے گاڑ چکی ہے ۔اب وہاں سے پاکستان اور وسط ایشیا میں قدم جمانے کیلئے کوشاں ہے۔ جب تک ایسی جماعتیں قائم ہیں دنیا میں امن کی امید نا ممکن ہے۔اس خطرناک تنظیم کو معرض وجود میں لانے اور مضبوط کرنے میں امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ شامل ہے اور اسکا نشانہ مسلمان ممالک ہیں۔پاکستان تو داعش کے علاوہ بھی کئی ایک دہشتگردوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
دہشتگردی کی عفریت اسوقت مسلمان ممالک میں ایک بے قابو جن کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ایران واحد خوش قسمت ملک ہے جو تا حال دہشتگردی سے کسی حدتک محفوظ ہے ۔باقی ممالک کو تو دہشتگردی نے بے دست و پا کردیا ہے ۔کوئی ملک تنہا اس عفریت کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ اپنی ذاتی عداوتوں اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر مل کر اس وبا کا مقابلہ کرے۔تمام ممالک اتحاد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن اس جانب کوئی عملی قدم اٹھانے کی جرا¾ت نہیں کرتے۔گو ایران بلا واسطہ طور پر دہشتگردی کا شکار نہیں لیکن ایران نے اس ضرورت کو سب سے زیادہ محسوس کیا ہے اور اس سلسلے میں تجویز پیش کی ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے اور اقتصادی اشتراکِ عمل کو فروغ دینے کیلئے مسلم ممالک کا ایک ایسا بلاک تشکیل دیا جانا چاہیے جس میں ایران، سعودی عرب ، ترکی،مصر،عراق اور پاکستان شامل ہوں۔گو یہ تجویز ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن اگر ایران نے کوشش کی تو یقیناًیہ عملی روپ بھی دھار جائیگی۔اگر کسی مرحلہ پر یہ معرضِ وجود میں آئی تو یقیناً دیگر مسلمان ممالک بھی اس میں شامل ہو جائینگے۔
مسلمان ممالک اسوقت دو قسم کی دہشتگردی کے شکار ہیں۔ پہلی قسم کی دہشتگردی تو داعش یا القاعدہ جیسے دہشتگرد گروپس نے مسلط کررکھی ہے اور دوسری دہشتگردی جنگ کی صورت میں مغربی سامراج خصوصاً امریکہ نے مسلط کررکھی ہے۔جنگ کی وجہ سے شام، عراق ،لیبیا اور افغانستان تو تباہ ہو چکے ہیں۔پاکستان بالواسطہ طور پر جنگی دہشتگردی کاشکار ہے ۔یہاں یہ بات بھی افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ مغربی سامراج کی مسلط کردہ جنگ اپنی جگہ لیکن مسلمان ممالک کی اپنی ذاتی عداوتیں اور ذاتی مفادات کی وجہ سے بہت سے مسلمان ممالک بھی جنگ میں شامل ہیں۔ مختلف ممالک ایک دوسرے کی مخالفت میں آپس میں برسر پیکار ہیں۔ مثلاً سعودی عرب یمن میں جنگ لڑ رہا ہے جسکے مقابلے میں ایران بھی یمن میں داخل ہو گیا اور یوں دونوںممالک ایک دوسرے کے مخالف اپنے اپنے گروپس کو سپورٹ کررہے ہیں جس سے امن کا قیام نا ممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح شام اور عراق میں سعودی عرب اور ترکی ایک طرف جبکہ شام کے صدر ِ بشار الاسد اور ایران دوسری طرف۔ افغانستان پاکستان کےخلاف ہر وقت ہرزہ سرائی اور چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے اور افغانستان کی پشت پر بھارت ہے۔ تو یوں مسلمانوں کی آپس کی لڑائی ایک تکلیف دہ امر ہے جسے مل کر ختم کرنا ہوگا۔ سامراجی ممالک ہماری آپس کی نا اتفاقی اور باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔اسکی ایک مثال بھارت بھی ہے جس نے افغانستان کو پاکستان کے مخالف لا کھڑا کیا ہے۔حالانکہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے ۔ ہم نے ہر مرحلہ پر افغانستان کی مدد کی۔تیس لاکھ افغانیوں کی اب تک میز بانی کررہے ہیں۔ہمارے آپس میں تاریخی ،سماجی اور ثقافتی رشتے بھی موجود ہیں۔ اسکے باوجود افغانستان کی عداوت سمجھ سے بالا تر ہے۔
مغربی سامراج کی طرف سے مسلمان ممالک پر جنگ مسلط کرنے کی تین بڑی وجوہات معلوم ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان ممالک معدنی وسائل خصوصاً تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ امریکہ ان وسائل سے بلا روک ٹوک فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب مسلمان ممالک کمزور ہوں ۔باہمی عداوتوں میں گرفتار ہوں۔ آپس میں جنگیں لڑیں تو اسکا تمام تر فائدہ امریکہ بہادر اور ا ہل مغرب کو ہو گا ۔امریکہ کی دوسری بڑی خواہش یہ ہے کہ مسلمان ممالک کو جنگ میں الجھا کر اتنا کمزور کردیا جائے کہ یہ ٹکڑوں میں بٹ جائیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ امریکہ نے اپنی طرف سے علاقے میں دو چوہدری مقرر کر رکھے ہیں۔ یہ ہیں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور جنوبی ایشیا میں بھارت۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ مسلمان ممالک ان دو چوہدریوں کی بھی تابعداری کریں اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب مسلمان ممالک کمزور ہوں اور ٹکڑوں میں منقسم ہوں۔ موجودہ حالت میں مسلمان ممالک نہ تو اسرائیل کے سامنے سر جھکا ئیںگے اور نہ بھارت کے سامنے۔ لہٰذا جنگ کے ذریعے یہی کوشش ہو رہی ہے کہ عراق، شام اور لیبیا کو تقسیم کر دیا جائے ۔بعد میں مصر اور سعودی عرب کی باری بھی آئیگی۔ادھر پاکستان سے بلوچستان اور گلگت بلتستان وغیرہ علیحدہ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کیا جا رہا ہے۔امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی تیسری بڑی خواہش یہ ہے کہ انکے ملک کی فیکٹریاں چلتی رہیں اور وہ اپنے ہتھیار مسلمان ممالک کو بیچ کر مسلمانوں کی دولت سے مستفید ہوتے رہیں۔
اب یہ مسلمانوں پر منحصر ہے کہ وہ سامراج کی چالوں کو سمجھیں کیونکہ سامراج کبھی نہیں چاہے گا کہ مسلمان ممالک اپنے پاﺅںپر کھڑے ہوں۔ امریکہ کے مقرر کردہ چوہدریوں یا اہل مغرب کو آنکھیں دکھائیں۔ یہ ایک بہت گہری سازش ہے جسے سمجھنا اور اس سے بچنے کا تدارک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی تجویز بڑی معقول اور بروقت ہے ۔اسلامی بلاک کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور ہم سب کو مل کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024