پانامہ لیکس کے متعلق آئی سی آئی جے نے اعتراف کیا ہے کہ غلطی سے میاں نوازشریف کا نام پانامہ لیکس میں شامل ہوگیاتھا۔ پانامہ لیکس پر میاں نوازشریف نے اپوزیشن کے مطالبے پر چیف جسٹس کو خط لکھ دیا ہے اسی لئے اب اپوزیشن کے پاس شور شرابے کا جواز باقی نہیں بچتاالبتہ ٹی او آرز طے کرنے کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے اس میں حکومت اور اپوزیشن باہمی اتفاق رائے سے ٹی او آرز طے کرلیں تاکہ چیف جسٹس اسی دائرہ کار میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرلیں یا پھر اپوزیشن کو چیف جسٹس کے پاکستان آنے کا انتظار کرنا چاہئے تاکہ وہ وزیراعظم میاں نوازشریف کے خط کے بعد کونسے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ہمیشہ چیف جسٹس پراعتماد کا اظہار کیا ہے اسی لئے تھوڑا انتظار کرلینا چاہئے ۔وکی لیکس سے بھی پاکستان کی سیاست پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اب اس طرح کی کوئی امید کی جانی چاہئے کیونکہ ہم مستحکم ہورہے ہیں اور ہمار ے ملک میں اقتدار کی تبدیلی اب بیرونی اشاروں پر نہیں ہوگی۔
اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان پانامہ لیکس کے متعلق مشاورتی اجلاس ہورہے ہیں لیکن میرے خیال میں عمران خان کبھی بھی باقی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے کیونکہ ان کے موقف میں مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ انہوں نے پانامہ لیکس کی خبر آنے کے فوراً بعد شعیب سڈل کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی کا مطالبہ کیا لیکن پیپلزپارٹی نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کی بات کی تو عمران خان نے بھی یہی مطالبہ کردیا۔ اسی طرح عمران خان نے پہلے رائیونڈ کے گھیرائو کی بات کی اور اب مال روڈ پر احتجاج کی بات ہورہی ہے اور شاید وہ عنقریب مینار پاکستان پر احتجاجی جلسے کا ہی اعلان کردیں ۔ عمران خان کے موقف میں مسلسل تبدیلی کی وجہ ان کی پارٹی کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔عمران خان کو اپنی پارٹی کے باہمی اختلافات پر دلیرانہ فیصلے کرنے ہوں گے کیونکہ ان کے ایک طرف چوہدری سرور ہیں جنہوں نے برطانیہ میں زیادہ وقت گزارا اور پھر اچانک گورنر پنجاب بن کر آئے۔ چوہدری سرور کے بارے میں درست معلومات حاصل کرنا عمران خان کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح شاہ محمود قریشی ایک نامور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور سیاست میں عرصہ دراز سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کے حالیہ دورہ سندھ کے دوران کراچی سے صرف عارف علوی ان کے ہمراہ تھے باقی تحریک انصاف کراچی کے کوئی رہنما ان کے ہمراہ نہیں تھے حالانکہ عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ مہم میں کراچی کے تمام لیڈروں کو شاہ محمود قریشی کے شانہ بشانہ ہونا چاہئے تھا۔ بہرحال عمران خان کو پارٹی میں موجود اختلافات پر زیادہ توجہ دینی ہوگی کیونکہ 2014ء کی طرح کے کسی بڑے احتجاج‘ دھرنے یا عوامی اجتماع کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پوری پارٹی ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو۔
پانامہ لیکس کے بعد اب سوشل میڈیا پر گزشتہ روز سے بحریہ لیکس کی بھی بازگشت ہے جس میں تمام نامور اینکرز ‘ صحافیوں اور رپورٹرز پر ملک ریاض سے بھاری رقوم اور تحائف لینے کا الزام لگایا گیا ہے۔ بحریہ لیکس شاید ملک ریاض نے اس لئے جاری کی ہیں تاکہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کی قریب حاصل کی جاسکے اور زرداری صاحب کے دور میں ان سے جوفوائد حاصل کرنے تھے ‘ وہ کافی ہیں اب ماضی میں دیئے گئے تحائف کے متعلق انکشافات صرف اور صرف نوازلیگ کی قیادت سے قربت حاصل کرنے کیلئے کئے گئے ہیں تاکہ میڈیا کے نمایاں ترین افراد جب خود الزامات کی زدمیں آجائیں گے تو وہ آخر کس طرح حکمرانوں کے احتساب کی بات کرسکیں گے؟ ویسے بھی پانامہ لیکس کے نام پر حد سے زیادہ میڈیا ٹرائل کا سلسلہ جاری ہے جس میں بحریہ لیکس کے بعد ہی قابو پایا جاسکتا تھا۔ بہرحال بحریہ لیکس کے بعد ملک ریاض میاں برادران کیلئے بہت اہم ہوجائیں گے۔
پانامہ لیکس کے بہانے اپوزیشن جماعتیں جس طرح کا واویلا کر رہی ہیں‘ ماضی میں ہمیشہ اسی طرح کی سیاست کی گئی ہے اور ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ کسی جرنیل کو آنا پڑا اور جرنیل کو اقتدار سنبھالنے کیلئے اکسانے والی اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے ہمیشہ کچھ ہی عرصے بعد اس جرنیل کی مخالفت شروع کردی اور اس کو ہٹانے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی گئیں۔ میڈیا میں جس طرح کا تاثر دیا جارہا ہے اس لئے میں دعاگو ہوں کہ جنرل راحیل شریف اس روایت کو برقرار رکھیں کہ پنجاب کے کسی جرنیل نے بھی آج تک مارشل لاء نہیں لگایا۔ ویسے بھی جنرل راحیل شریف کو اس بات کا علم ہوگا کہ فوج کو اقتدار پر اکسانے والوں نے ہی ہمیشہ فوج کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اسی لئے ملک اس وقت ترقی کی جانب گامزن ہے اور کسی بھی قسم کی سازش ملک کے لئے نقصان دہ ہوگی۔
پاک چین اقتصادی راہداری کی بروقت تعمیر سے ملک ترقی کی نئی منازل طے کریگا اور یقینی طور پر مہنگائی‘ بے روزگاری میں کمی واقع ہوگی ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر پر اب تک میاں نوازشریف اور جنرل راحیل شریف نے تمام عالمی و مقامی دبائو برداشت کیا ہے ایسی ہر سازش کو حکومت اور عسکری قیادت نے ملکر ناکام بنایا ہے جس سے اقتصادی راہداری کی تعمیر رک سکتی تھی۔ اسی لئے اپوزیشن جماعتوں کو بھی پانامہ لیکس پر تمام معاملات چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑ دینے چاہئیں تاکہ ملک ترقی کی منازل طے کرتا رہے اور افراتفری کا ماحول پیدا نہ ہوسکے۔
تمام سیاستدانوں کو اس بات کامشاہدہ ضرور کرنا ہوگا کہ جنرل ایوب خان‘ جنرل یحیٰی خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے طویل اقتدار گزارا لیکن آج تک ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ کرپشن کا الزام صرف سیاستدانوں پر ہی کیوں لگایا جاتا ہے؟ اس کے باوجود کرپشن کے الزامات کی زدمیں رہنے والے سیاستدان کرپشن سے پاک جنرل مشرف پر آرٹیکل 6 لگانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ آرٹیکل 6 کا مطلب ملک سے غداری کا ٹرائل ہے ۔ کیا جنرل مشرف ملک کے غدار تھے؟ میرے خیال میں ایسا کہنا قطعی غلط ہے۔ میں تو کرپشن کرنیوالوں پر آرٹیکل 6 لگانے کے بجائے کرپشن پر سزائے موت کا بارہا مطالبہ کرتا رہا ہوں۔ تمام سیاستدانوں کو خود احتسابی کرنی ہوگی تاکہ ملک سے کرپشن‘ لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ساتھ ساتھ بینکوں سے قرضے معاف کرانے کی روایت بھی مکمل طور پر ختم ہوسکے۔ اگر جنرل راحیل شریف نے بارہا کرپشن کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے تو پوری قوم کی طرح تمام سیاستدانوں کو بھی بیک زبان ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ سیاستدان اگر کرپشن کے خاتمے میں مخلص ہیں تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے چین کی طرح پاکستان میں بھی کرپشن کی سزا موت مقرر کردیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ایسے ایشوز پر بیک زبان کبھی نہیں ہوتے جو ملک کے بہترین مفاد میں ہوں بلکہ وہ ذاتی مفادات کے لئے اتفاق رائے کرتے ہیں اگر سیاستدانوں نے قوم کے وسیع ترین مفاد میں اتفاق رائے کی روایت ڈالی ہوتی تو آج ملک میں کالا باغ ڈیم سمیت تمام بڑے آبی ذخائر تعمیر ہوچکے ہوتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم مہنگی ترین بجلی (تھرمل پاور) سے ملک چلانے پر مجبور ہونے کے ساتھ ساتھ زراعت میں خودکفالت حاصل نہیں کرسکے حالانکہ اﷲ رب العزت نے ہمارے ملک میں تمام قدرتی وسائل فراہم کررکھے ہیں مگر ان سے استفادے کے لئے سیاسی لیڈرشپ میں سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ اگر جنرل راحیل شریف بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے بھی کچھ کردار ادا کریں تو یہ ان کا ملک پر احسان عظیم ہوگا کیونکہ پاکستان کی بقاء اور ترقی کا راز آبی ذخائر سے استفادے میں ہی مضمر ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024